راتوں رات شہرت
کی بلندی پر پہنچنے والا ارشد،ایک عام ہوٹل میں چائے بنانے کاکام
کرتاتھا۔وہ تب بھی چائے والا تھا،جب وہ پہلے پہل اپنے سارے سپنے اورسہانے
خواب دوتین سوروپے یومیہ اجرت پر بیچ کر اپنے دیس میں مسافرہواتھا۔اسکی بھی
دلی خواہش تھی کہ اس ہوٹل میں اسکے ہاتھ کی بنی ہوئی چائے پینے والوں کی
طرح اسلام آبادکے کسی سکول، کالج یایونیورسٹی وہ بھی پڑھ لیتے۔اسکی آنکھیں
تب بھی اسی طرح روشن ، چمکداراورنیلی تھیں، جب بے بس والدین اورمعصوم بہن
بھائیوں کی خاطرشہرکے ہوٹلوں میں اسکی کم عمری کااستحصال ہورہاتھا۔ جس ملک
کے ارباب اختیاراورصاحب حیثیت لوگوں کی بصیرت کے ساتھ ساتھ بصارت بھی ناقص
ہوجاتی ہے اورچمن میں دیدہ ورختم ہوجاتے ہیں توکیمرے ہی مقام دیدوری حاصل
کرلیتے ہیں۔
ارشد ایک عام چائے والاتھا۔ کیمرے کی آنکھ نے اسکی روشن، چمکداراورنیلی
آنکھوں، گلابی ہونٹ اورچہرے کی معصومیت کاعکس لیکر سوشل میڈیانے راتوں رات
اسکے پیچھے دیدہ وروں کی قطاریں لگوادئے۔لیکن کیمرے کی بے بصیرت آنکھ ا سکی
سادگی، اخلاص، ذہانت، قابلیت،جذبہ حب الوطنی، غیرت ، حمیت اورسب سے بڑھ کر
اس حیااورایمانداری کااحاطہ نہیں کرسکتی، جس کااظہاراس نے دوٹوک الفاظ میں
کردیاہے کہ وہ پوادن کام کرکے پانچ سوروپے کماتاہے اوریہی اسکی لئے عزت
کاکام ہے۔ہمارامیڈیا، فلم انڈسٹری اورماڈلنگ والے سب انکے پیچھے لگے ہوئے
ہیں ۔خصوصاً مخلوط طرزتعلیم کے زیراثرپڑھنے والی ،حرمت جنس کاجنازہ نکالنے
والی لڑکیاں، جینز اورٹی شٹ پہن کر دھڑادھڑارشدچائے والے کے ساتھ
تصاویربنوانے کے لئے آتی ہیں۔ارشدشرم وحیاکاپیکرہے اوراپنی مزدوری کوپیشہ
عزت اورحلال کمائی کاذریعہ سمجھتاہے لیکن کیمرے کی دنیااسکے پیچھے لگی ہوئی
ہے اورلگتاہے بہت جلدوہ فلم اورماڈلنگ کی دنیا میں ایک آزادخیال اوربولڈ
جنٹل مین ہوگا۔ پوری قوم کی دعائیں ارشدکے ساتھ ہیں ، ماسوائے ان نوجوانوں
کے، جن کے دل کے پھپھولے جل اٹھے ہیں ،کہ ارشد کی زندگی بدل جائے اوراسکی
یوں تشہیراسکے لئے اوراسکے گھروالوں کے لئے صبح نوکی نویدہو۔پاکستان کے
استحصال زدہ طبقے کے لئے یہ بہت بڑی خوشحالی ہے کہ غربت، افلاس ، فقروفاقہ،
پریشانیوں اور بیماریوں میں ڈوبے ہوئے طبقے میں کم ازکم ایک خاندان کو
تونجات ملے گی۔
کرپشن، بدعنوانی ، اقرباپروری،طبقاتی کشمکش ،معاشی اورسماجی استحصال زدہ
معاشرے میں ہزاروں بلکہ لاکھوں گوہرنایاب گوشہ گمنامی میں پڑے ہوئے
ہیں۔ارشدکی طرح بے شمارنوجوان ،جوبے پناہ صلاحیتوں کے حامل، اعلیٰ ذہنی
اورتخلیقی صلاحیتوں والے ، بہترین خدادادصلاحیتوں کے مالک اورحددرجے حب
الوطنی کے جذبے سے سرشارہیں لیکن وہ کس قدرکس مپرسی کی زندگی گزارنے پر
مجبورہیں۔ نہ انہیں مستقبل کی فکرہوتی ہیں ، نہ اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے
پرآگے نکلنے اورترقی کرنے کی جستجو۔صرف اورصرف انکی غربت نے ان سے یہ تما م
حقوق چھین لئے ہیں۔وہ بھی کسی ہوٹل میں چائے اورسالن بنانے والے، برتن
دھونے والے یاگاہک کے آگے ادب اوراحترام سے کھڑے ہونے والوں کے روپ میں جگہ
جگہ نظرآتے ہیں۔اپنے گھرکاچولھاجلنے کے لئے کبھی ہوٹل کے مالک اورکبھی مال
ودولت کے نشے میں چورکسی بدخوگاہک کے ذلت آمیرالفاظ بردشت کرتے چلے جاتے
ہیں۔ کس قدرکم سن اورخوبصورت بچے شہرکے بازاروں میں کہیں نسواراور سگریٹ
اورکہیں ریڑیوں میں مختلف چیزیں فروخت کرتے ہیں۔ہم لوگ روزایسے مناظراپنی
آنکھوں سے دیکھتے ہیں لیکن کبھی ایسے بچوں کے مستقبل کی فکرنہیں کی۔غربت نے
ایسے ہی لوگوں سے زندگی کے تمام حقوق چھین لئے ہیں اورستم بالائے ستم یہ کہ
ارباب اختیاراورصاحب دولت لوگ اپنے بچوں کے لئے زندگی کی تمام خوشیاں
سمیٹنے میں ایسے منہمک ہیں کہ انہیں ایسے گوہرنایاب نظر ہی نہیں آتے ، جو
تھوڑی سی توجہ کے منتظرہیں ۔اگرجویریاعلی کے کیمرے کی آنکھ کی طرح ہمارے
حکمرانوں اوربااختیاراورصاحب حیثیت لوگوں، بڑے بڑے ادارے چلانے والوں
کودیدہ بینانصیب ہوجائے اوروہ ملک میں ایسے بے شمارباصلاحیت ، قابل
قدرصلاحیتوں والے اورحددرجے ذہین بچوں کی نشاندہی کرے، جن کی صلاحیتیں ضائع
ہورہی ہیں ۔بھاری فیسوں، مہنگی کتب اورکاپیوں اور طبقاتی نظام تعلیم نے
انکے لئے تعلیم کے دروازے بندکردئے ہیں۔ اس ملک کو ضرورت ہے ، ایسے ہی
لوگوں کی، جن کو معمولی سی توجہ ، راہنمائی اورسرپرستی ملے ، تووہ گوشہ
گمنامی سے نکل کر شہرت دوام حاصل کرسکتے ہیں اورملک کی خاطربڑے بڑے کارنامے
سرانجام دے سکتے ہیں۔ کیونکہ اقبال نے اس قوم کے بارے میں پیش گوئی کی تھی
، ع۔۔۔ذرانم ہوتویہ مٹی بڑی زرخیزہے ساقی۔
جس طرح میڈیااورفلم اورٹیلی وژن والوں نے ارشدچائے والے کو راتوں رات شہرت
کی بلندی پر پہنچایا، اگراسی طرح اس ملک کی حکومت، بااثرافراد،فلاحی
تنظیمیں اورتعلیمی اداروں کے مالکان اس ملک کے اندرایسے بچوں کاسراغ لگائے،
جوارشد کی طرح گوشہ گمنامی میں پڑے ہوئے ہیں۔تواس ملک کو ایسے ایسے
گوہرنایاب میسرآئیں گے، جوہرشعبہ زندگی میں ملک کانام روشن کریں گے۔ |