نومولود اور چُھٹیاں!
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
گھر میں نیا مہمان آنے پر ابّا جان
کے لئے خوشی کی خبر آئی ہے، اب بچے کی پیدائش پر والدہ کی طرح والد کو بھی
چار ماہ کی چھٹی مل سکے گی، ان چار ماہ میں تنخواہ بھی ملے گی۔ اس سے قبل
یہ چھٹی محض پندرہ روز تک تھی۔ اس خبر کا دوسرا اہم ترین حصہ یہ ہے کہ یہ
خوشخبری پاکستان یا امریکہ وغیرہ میں نومولود بچوں کے والد کے لئے نہیں ہے،
بلکہ یہ منفرد اور انوکھا فیصلہ سپین کی پارلیمنٹ نے کیا ہے، اور یقینا اسی
ملک میں اس پر عمل درآمد ہو سکے گا۔ بچے کا اباّ اب اپنی خوشی کو اہتمام کے
ساتھ منا سکے گا۔ گھر میں آنے والے مہمانوں کی مناسب دیکھ بھال اور خدمت
وغیرہ سرانجام دے سکے گا، دوست احباب کی دعوتیں اڑا سکے گا، بچے کی ماں کے
آرام کا خیال رکھ سکے گا، بچے کو جھولے وغیرہ دینے کے لئے اس کے پاس مناسب
اور وافر وقت ہوگا۔ ان طویل چھٹیوں کا آخری ایک آدھ ماہ تو وہ سیر سپاٹا
بھی کر سکتے ہیں، کیونکہ اتنے عرصے میں مہمانوں کا سلسلہ بھی بند ہو جائے
گا ، خاتون کی صحت بھی بحال ہو جائے گی اور معاملاتِ زندگی دوبارہ معمول پر
آجائیں گے۔ خیر یہ تو سپین کے مرد حضرات کا مسئلہ ہے کہ وہ اِن چھٹیوں کو
کس طرح گزارنا پسند کرتے ہیں، یا ان کی کیا مشکلات یا مسائل ہیں؟ تاہم یہ
فیصلہ اپنی نوعیت کا منفرد فیصلہ ہے کہ دنیا بھر میں مرد کو چند روز تو
خوشی منانے کے لئے دیئے جاتے ہیں، چار ماہ کا تجربہ پہلی مرتبہ سپین کرنے
جارہا ہے، اگر اس کے مثبت اثرات مرتب ہوئے تو یقینا یورپ اور دیگر ممالک کی
پارلیمنٹ بھی اس جانب توجہ مبذول کرے گی، کیا جانئے کہ کچھ ہی عرصہ بعد
دیگر ممالک بھی ایسے ہی قوانین بنا کر اپنے ہاں مردوں کو عیاشی کروادیں۔
یہ فیصلہ تو پڑھی لکھی خواتین کے لئے ہے، پاکستان جیسے ملک میں جہاں شرح
خواندگی کی سطح ناقابلِ بیان ہے، وہاں پڑھی لکھی اور پھر ملازمت پیشہ
خواتین کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ پھر ایسے لوگوں کی تعداد
مزید کم ہے، جہاں گھر کے دونوں افراد ملازمت کرتے ہوں۔ اپنے ہاں دیہات ہوں
یا مزدور پیشہ طبقہ ، خواتین زچگی کے آخری دنوں تک کام کاج اور مزدوری
وغیرہ میں مصروف رہتی ہیں، دوچار روز قبل ہی چھٹی لی جاتی ہوگی، بلکہ بعض
اوقات تو چھٹی کی نوبت ہی نہیں آتی۔ دن میں کھیتوں میں کام کیا، یا مزدوری
کی اور رات فطرت نے اپنی صناعی ظاہر کردی۔ اس طبقے کو چند روز ہی آرام نصیب
ہوتا ہے، تیسرے ہی روز وہ کام کاج کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ رہ گئے ننھے فرشتے
یا ننھی پری کے اباّ جان تو اُن کی چھٹی کا کیا تصور؟ وہ کام کریں، ماحول
بنے تو چھٹی لے لیں اور مٹھائی کا اہتمام کرلیں، ورنہ یہ کارِ خیر گھر والے
مل کر سرانجام دے لیتے ہیں، اور ابا کی چھٹی کی نوبت ہی نہیں آتی۔ اگر یہ
خبر اپنے معزز ارکانِ پارلیمنٹ کی نظر سے گزری تو کوئی بعید نہیں کہ اگلے
اجلاس میں اِن چھٹیوں کا مطالبہ قرار داد کی صورت سامنے آجائے۔ پاکستان میں
چونکہ ملازمت پیشہ افراد کا تناسب بہت کم ہے، اس لئے اُن کے حق میں آواز
اٹھانے والے بھی کم ہی ہوں گے، اگر یہی قانون ارکانِ پارلیمنٹ کے بارے میں
ہوتا اور پوری تنخواہ کے ساتھ چار ماہ کی چھٹی دی جاتی، تو یقینا یہ قانون
پلک جھپکنے میں منظور ہو جاتا۔ دوسرا مسئلہ یہ بھی ہے کہ اپنے زیادہ تر
معزز ممبرانِ پارلیمنٹ اِن بہاروں کے بعد کئی خزائیں بھی دیکھ چکے ہیں، اس
لئے انہیں اس چھٹی سے کوئی دلچسپی نہیں ہوگی۔
ممکن ہے سپین میں غیر سرکاری ’اَبّے‘سرکاری ابّوں کی چھٹیوں والی اس عیاشی
پر احتجاج بھی کریں، کہ جس فرد کو کوئی ضروری اور اہم کام بھی نہیں اور وہ
چار ماہ قومی خزانے پر بوجھ کیوں بنیں۔ یا تو وہ ملازمت پر آئیں، یا پھر
تنخواہ کے بغیر چھٹی دی جائے۔ لیکن قانون وہاں کی پارلیمنٹ نے منظور کیا ہے،
اس لئے نہ تو مخالفت کے امکانات ہیں اور نہ ہی احتجاج کا تصور۔ البتہ دوسرے
ابّے یہ مطالبہ ضرور کر سکتے ہیں کہ اگر انہیں چھٹی دینا ممکن نہیں تو کم
از کم کچھ الاؤنس ہی دے دیا جائے، تاکہ وہ بھی بچے کی پیدائش پر سرکاری خرچ
پر کچھ جشن منانے کی پوزیشن میں آسکیں۔ پاکستان میں اگر نومولود کے والد کو
چار ماہ کی چھٹی ملنے لگ جائے تو ابّوں کے وارے نیارے ہو سکتے ہیں، اور ہر
دوسرے سال پوری تنخواہ کے ساتھ چار ماہ کی چھٹی منظور ہو سکتی ہے، شاید اسی
لئے یہاں ایسا قانون منظور نہیں ہوتا۔ |
|