قربانیاں بے پناہ تھیں راستہ
طویل بھی تھا اور کٹھن بھی لیکن قافلہ چلتا رہا اور ایک مبارک دن منزل پر
پہنچ بھی گیا۔ ہزارہا لاشیں گریں عصمتیں لٹیں بستیاں خاک و خون میں نہلا
دیں گئیں تب کہیں تاریک راتوں کا سفر اختتام پذیر ہوا اور ایک صبح نو طلوع
ہوئی۔ چودہ اگست 1947کو ہم نے ایک آزاد ملک حاصل کر لیا۔ یہ سب کچھ آسان نہ
تھا نہ معلوم کتنے مسافر آبلہ پا ہوئے اور کتنے آبلوں کا پانی خون کے ساتھ
شامل ہو کر ان راستوں میں جذب ہوتا رہا۔ داستان بہت طویل ہے لیکن اتنی ہی
شاندار بھی۔ جس پر آج بھی بر صغیر کا ہر مسلمان فاخر ہے۔ لیکن۔۔۔ اسے ہماری
بد قسمتی کہیے کہ وہ راہبر جو یہ قافلہ منزل تک لائے تھے بہت جلد ہم سے جدا
ہوئے۔ پر خلوص قیادت کسی قوم کے لیے تحفہ خداوندی ہے۔ اور اسی پر خلوص
قیادت ہی کی بدولت مسلمانان ہند نے یہ اعزاز حاصل کیا کہ وہ سلطنت جس کا
سورج غروب نہ ہوتا تھا اس سے نہ صرف ٹکر لی بلکہ فتح مند بھی ہوئے۔
آج۔۔ جب پاکستان گوں نا گوں مسائل سے دو چار ہے قوم اب بھی یہ عظیم ہے
حوصلے بھی بلند ہیں۔عوام میں ترقی کی خواہش بھی ہے اور جذبہ تعمیر بھی۔
قیادت بھی خلوص کی دعویدار ہے تو پھر غلط کہاں ہے، جھول کہاں پڑا، کسی ایک
ستون میں دراڑ پڑی یا ہم سب کسی نہ کسی طرح کے مجرم ہیں۔ چودہ اگست بلاشبہ
خوشی منانے کا دن ہے، پرچم کے بن جانے کا دن، آزادی کی نعمت عظیم ملنے کا
دن، فتح مندی کا دن ایک تابناک تاریخ۔ لیکن۔۔۔چودہ اگست یہ سوچنے کا دن بھی
ہے کہ جو مملکت جو بڑی شان سے معرض وجود میں آئی تھی جس سے مسلمانوں نے سب
سے بڑی اسلامی مملکت ہونے کے ناطے بہت ساری امیدیں وابستہ کیں تھیں اور اب
بھی اس کو اسلام کا قلعہ تصور کیا جاتا ہے جہاں کے لوگ ذہین ترین ہیں اور
اس کا ثبوت دنیا بھر میں موجود وہ پاکستانی ہیں جو اپنی صلاحیتوں کا لوہا
منواتے رہتے ہیں۔ اقوام عالم میں اپنی اہمیت منوانے کے باوجود کیوں آج ہم
اس مقام پر کیوں نہیں جسکے ہم مستحق ہیں۔
سوچیئے کہیں ایسا تو نہیں؟ کہ ہم سب ہی کسی نہ کسی طرح ان سارے حالات کے
ذمہ دار ہیں۔ اس دن کو اور اسکی عظمت کو غنیمت جان کر کیوں نہ ہم اپنا
محاسبہ کریں۔ اور اس نکتہ نظر سے جائزہ لیں کہ ہمیں اپنی کن خامیوں اور
کمزوریوں پر قابو پانا ہے تاکہ ہم اس ملک کی خاطر شہید ہونے والوں کا قرض
اتار سکیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم سب کسی نہ کسی طرح اس دھرتی کے مجرم ہیں۔
بحیثیت ایک عام آدمی کے ہم نے خود کو کبھی اس قابل نہیں سمجھا کہ ہم بھی
قوم کے لیے کچھ کر سکتے ہیں۔ میں ایک بہت عام سی مثال دونگی۔ اگر ہم کسی سے
یہ کہہ دیں کہ صفائی کا خیال رکھتے ہوئے سڑک پر گندگی نہ پھینکیں تو جواب
یہی ملتا ہے کہ ایک میرے نہ پھینکنے سے کیا یہ گندی سڑک صاف ہو جائے گی؟ جب
کہ حقیقت یہی ہے کہ اگر ہر یہی ایک میں خود کو سنوار دے تو پورے معاشرے کے
سنوار اور سدھار کی صورت پیدا ہو جاتی ہے۔ دراصل ہمارے ہاں ہر ایک اپنا
مسقبل اجالنے کے جنون میں مبتلا ہے چاہے اس کے لیے اسے بستی کا ہر چراغ
بجھانا پڑے۔ سرکاری دفاتر میں جائیں تو بڑے افسر تک پہنچنے کے لیے بے شمار
پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں کئی جیبیں گرم کرنا پڑتی ہیں شاید اوپر کا افسر آپ کا
کام آسانی سے کر دے لیکن اس تک پہنچ جان جوکھوں کا کام ہے جب کہ اکثر یہ سب
کچھ اپنے جائز کام کے لیے کرنا پڑتا ہے۔ تعلیمی اداروں کا رخ کریں تو
اْستاد اپنے ٹیوشن سینٹر کی فکر میں میں زیادہ مبتلا نظر آتا ہے حالانکہ یہ
وہ ادارہ ہے جہاں شخصیت اور مستقبل دونوں کی تعمیر ہوتی ہے اور یہاں بیٹھنے
والا ایک مثالی کردار ہونا چاہیئے۔ اسی طرح سرکاری ہسپتال کا ڈاکٹر اپنے
کلینک کی فکر میں زیادہ غلطاں نظر آئے گا۔
اور تو اور ۔۔۔۔۔ معاشرے کا ایک طبقہ جو نہ صرف تعمیر ملت کے لیے ذمہ دار
ہے بلکہ اسے معاشرے میں محبت اور اخوت کا ضامن ہونا چاہیے وہ علما کا طبقہ
ہے لیکن یہاں ایک اور منظر نظر آتا ہے جو عالم جس فرقے اور مکتبہ فکر سے
تعلق رکھا ہے اسی کے ماننے والوں کو ہی مسلمان سمجھتا ہے اور دوسرے نہ صرف
گمراہ بلکہ کئی دفعہ ان کی نظر میں دائرہ اسلام سے خارج ہوتے ہیں یوں مذہبی
عفریت منہ پھاڑے معاشرے کو تباہ کرتا نظر آتا ہے۔ اب ذرا تجارت کی دنیا پر
نظر ڈالیں ۔۔۔۔
ذخیرہ اندوزی کی اسلام میں سخت ممانعت ہے لیکن ہمارے تاجر کو جب قیمتوں کے
اتار چڑھاؤ کی بھنک بھی پڑ جائے تو جو مال مارکیٹ میں ہونا چاہیے وہ
گوداموں میں بند ہو جاتا ہے۔ میں ان لوگوں میں سے ہرگز نہیں ہوں جو ملک اور
قوم سے مایوس ہوتے ہیں اور معاشرے میں انہیں نیکی کا کوئی وجود ہی نظر نہیں
آتا میں اس وطن اور اس قوم کی عظمت پر یقین رکھتی ہوں لیکن۔۔۔۔ مرض کی
تشخیص برائے علاج بہت اہم ہے اور معاشرے میں جہاں کہیں بھی اور جتنی بھی
برائی موجود ہے اس کو دور کرنے کے لیے بہت ضروری ہے کہ اس کی نشاندہی کی
جائے اور چودہ اگست کا دن ہم سے یہ سوال کرتا ہے کہ ہم اپنا فرض کس حد تک
ادا کر رہے ہیں جتنا اہم مقام اتنی اہم ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ میں نے اپنے
مضمون کے شروع میں اس بد نصیبی کا ذکر کیا کہ آزادی کے بعد بہت جلد ہم مخلص
رہنماؤں سے محروم ہوگئے ابھی ہماری جڑین پنپی بھی نہ تھیں ابھی کونپلیں بھی
نہ پھوٹی تھیں کہ مخلص قیادت ہمارا ساتھ چھوڑ گئی اور پھر کوئی لیڈر اس
پائے کا پیدا نہ ہوا یقیناً کچھ لوگ نیک بھی رہے ہونگے لیکن قائدانہ
صلاحیتوں سے محرومی شائد آڑے آئی اور کبھی صلاحیت تو موجود تھی لیکن نیک
نیتی کے فقدان نے صحیح سمت میںچلنے سے روکے رکھا۔ یوں انہی رویوں کی وجہ سے
ہم نے آدھا ملک کھویا اور قومی وقار کو بھی داؤ پر لگا دیا اور آج تو حال
یہ ہے کہ کوئی حکومت پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔
اب سوال یہ ہے ۔۔۔۔ کہ یہ سب رویّے ہمارے معاشرے کا حصہ بنے کیوں؟ تو میرے
خیال میں اس کی سب سے بڑی وجہ مذہب سے ہماری دوری ہے۔ ہم نے اسلام کے زریں
اصول چھوڑے اور ہر چمکتی چیز سونا سمجھ کر اسے اپناتے گئے، رشوت اور ناجائز
منافع خوری کی ضرورت ہی تب پڑی جب ہم نے سادگی چھوڑی اور مقابلے کی ایسی
دوڑ شروع ہوئی کہ حرام اور حلال کی تمیز ختم ہو گئی۔ ہم نے اپنی تاریخ بھلا
دی اْس پر فخر کرنا چھوڑ دیا ورنہ پیوند لگے کپڑے پہنے حضرت عمر فارق(رض)
کے جاہ وجلال سے بڑی بڑی سلطنتیں کانپ جاتیں تھیں تو آج ہمارے لاکھوں کے
سوٹ پہنے حکمران دوسروں کے آگے کیوں جھکے جاتے ہیں۔
محنت کی عادت تو ہم نے حکمرانوں سے لیکر ایک دہاڑی دار مزدور تک نے چھوڑ دی
ورنہ اوقات کار میں آپ کو لوگ گپ شپ کرتے نظر نہ آتے لیکن جیسا کہ میں نے
کہا کہ میں مایوس نہیں کیونکہ۔۔۔۔ مایوسی گناہ ہے اور اس قوم اور ملک کے
بارے میں تو چاہے حسن ظن سہی میرا یقین ہے کہ جس دن اس نے تہیہ کرلیا کہ اس
نے کچھ کرنا ہے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت اسے روک نہیں سکتی۔ اس کی زندہ
مثال ہمارا ایٹم بم کا بنانا ہے۔ اپنے کم وسائل اور بے شمار قومی اور بین
الاقوامی مسائل میں گھرے ہونے اور ناروا بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود
اگر ہم یہ کارنامہ کرسکتے ہیں تو ہم کیا نہیں کر سکتے ہم سب کچھ کرسکتے ہیں
اگر۔۔۔۔
اگر ہم تہیہ کر لیں کہ ہم نے اس وطن کو عظیم سے عظیم تر بنانا ہے اگر ہم
سوچ لیں کہ آج سے میں نے سڑک پر گند نہیں پھینکنا، ہم نے رشوت نہیںلینی، ہم
نے اپنا کام ایمانداری سے کرنا ہے، ہم نے چور بازاری نہیں کرنی، ہم نے
عدالتوں میں فیصلے مبنی بر انصاف کرنے ہیں، ہم نے حکومت برائے خدمت کرنی ہے
برائے حصول زر نہیں اور ہم نے سیاست برائے عوام کرنی ہے برائے حرام
نہیں۔اور سب سے بڑھ کر۔۔۔ ہم نے اپنے مذہب کی تعلیمات پر سچے دل سے عمل
کرنا ہے، ہم نے سادگی اپنانی ہے، ہم نے اپنی تاریخ فراموش نہیں کرنی، ہم نے
اپنی ثقافت کو ماڈرن ازم اور روشن خیالی کے نام پر داغدار نہیں کرنا۔ ہم نے
مذہبی منافرت پھیلانے سے نہ صرف گریز کرنا ہے بلکہ ایسا کرنے والوں کو
مسترد کردینا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اپنی عظمت رفتہ بحیثیت ایک ملک،
ایک قوم بحال نہ کر سکیں۔
قاریئن کرام! چودہ اگست کا تو تقاضا ہی یہی ہے۔ ورنہ جھنڈیاں اور بیجز
لگانے سے یوم آزادی نہیں منایا جا سکتا یوم آزادی ان شہیدوں کے لہو کو سلام
پیش کرنے کا دن ہے جنہوں نے اپنے خون سے اس چمن کی آبیاری کی۔ یہ اقبال کو
سلام پیش کرنے کا دن ہے جنہوں نے مسلمانان ہند کو یہ دولت یقین دی کہ۔ جہاں
میں اہلِ ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے
یہ اس قائد اعظم کو سلام پیش کرنے کا دن ہے جس نے ہمیں ایک ایسی تجربہ گاہ
لے کر دی جہاں ہم اسلامی اصولوں کو آزما سکیں۔ اور جہاں کسی غیر کی حکمرانی
کا سایہ تک ہم پر نہ پڑے۔
اللہ اس ملک کو قائم اور آباد رکھے اور ان روحوں کو جنت الفردوس میں جگہ
عطا فرمائے جنہوں نے اپنا آج ہمارے کل کے لیے قربان کر دیا تھا۔ |