محمد قاسم حمدان
سعودی عرب میں تین سال قبل شاہی خاندان کے نوجوان ترکی الکبیر نے اپنے دوست
کو قتل کر دیا تو ایک عمومی عدالت نے جرم ثابت ہونے پر شہزادے کو قصور وار
قرار دے کر سزائے موت سنادی تھی جسے عدالت عظمی نے بھی قائم رکھا، انصاف
پرور ججوں نے یہ فیصلہ سنا دیا کہ اگر مقتول کے ورثا قاتل کا خون بہا لے کر
یااﷲ کے لیے معاف کر دیں تو ٹھیک بصورت دیگر قاتل کو بدلے میں قتل کر دیا
جائے گا اس مقدمے میں شاہی خاندان کے کسی بھی فرد نے عدالت پر اثر انداز
ہونے کی کوشش کی اور نہ جج صاحبان نے عدل و انصاف کا دامن ہاتھ سے چھوڑا
بلکہ شاہ سلمان نے پوری قوم سے خطاب میں کہا کہ کوئی بھی شخص ان کے خلاف
،ولی عہد یا شاہی خاندان کے کسی فرد کے خلاف قانونی درخواست دائر کر سکتا
ہے ۔شاہ نے ہمیشہ کہا کہ قانون کی نظر میں شہزادوں اور دوسرے افراد کے
درمیان کوئی فرق نہیں، سعودی عرب میں اﷲ کاقانون نافذ ہے ۔شریعت کے مطابق
فیصلہ دینے والے ججوں کو معلوم ہے کہ قصاص میں زندگی ہے اور اس کے نفاذ ہی
سے ملک میں امن و امان اور آشتی کے سائے تلے انسان راحت کے سانس لے سکتا ہے
۔اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں اے عقل مندو! قصاص ہی تمھارے لیے زندگی ہے تا کہ تم
(قتل و غارت سے) بچو۔
نبی مکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص قصاص لینے میں حائل ہو اس
پر اﷲ کی لعنت اور اس کا غضب ہے نہ اس کے نفل قبول ہوں گے اور نہ
فرض(نسائی)۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر تاریخ
ساز خطبہ دینے ہوئے فرمایا: لوگو! تمھارے خون تمھارے مال اور تمھاری عزتیں
ایک دوسرے پر ایسے حرام ہیں جیسے یہ دن ‘یہ شہر اور اس مہینہ کی حرمت ہے ۔
خبرداد گمراہ نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے لگو، لوگو!جاہلیت کی
ہر ایک بات میں اپنے قدموں تلے پامال کرتا ہوں کسی عربی کو عجمی پر اور کسی
گورے کو کسی کالے پر کوئی فضیلت نہیں۔
اسلام نے بحثیت نظام حیات انصاف و عدل کو ترجیح دی، انصاف امن کی بنیاد ہے
جن معاشروں میں انصاف ناپید ہو جاتا ہے وہاں امن ایک خواب بن جاتا ہے۔
انصاف اور قانون کی دھجیاں ہمیشہ اہل ثروت اور مناصب رکھنے والے اڑاتے ہیں۔
اﷲ ذوالجلال جب کسی قوم کو تباہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو اس قوم کے بڑے
سرکشی، بغاوت اور قانون شکنی شروع کر دیتے ہیں چوری، زنا،رشوت،کرپشن،لوٹ
مار،اقرباپروری، قتل و غارت گری سے امن کو تہہ و بالا کر دیتے ہیں ۔ محمد
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں جو تعلیمات سکھائی ان میں عدل و
انصاف پر بہت توجہ دی گئی ہے ایک دفعہ ایک فاطمہ نامی عورت نے چوری کی
لوگوں نے اسامہ بن زید رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم کے پاس اس کی سفارش کے لیے بھیجا تو آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے
فرمایا کیا تم حدود الٰہی میں سفارش کرتے ہو۔سنو!فاطمہ بنت محمد صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم بھی ایساکرتی تومیں ا ن پربھی حد جاری کردیتا۔جنگ بدرکے
موقع پر فوج کی صف بندی ہو رہی تھی ایک صحابی صف کے برابر نہ تھے۔ نبی صلی
اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی چھڑی کے ساتھ اس کے پہلو میں چوکا دیا کہ برابر
ہو جاؤ انہوں نے کہا یا رسول اﷲ مجھے تو اس سے ایذا ہوئی میں تو بدلہ لوں
گا ۔آپ نے فرمایا میں موجود ہوں، صحابی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کہا:میرے بدن
پر تو کرتہ نہ تھا حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم بھی کرتا اٹھا لیں تو حضور
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے بھی کرتہ اٹھا لیا۔ صحابی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے
بڑھ کر جسد مبارک کو چوم لیا، عرض کیا میرا مدعا یہ تھا کہ دنیا سے رخصت
ہوتا ہوا اس شرف کو حاصل کرلوں۔
آپ دیکھیں کہ جنگ کا میدان گرم ہونے والا ہے لیکن ہمارے رہبر اعظم نے انصاف
کی عمدہ مثال قائم کی ہے۔ جب اﷲ تعالیٰ نے حضرت عائشہr کی صداقت و پاک
دامنی واضح کر دی تو تہمت لگانے میں شریک ان مسلمانوں کو کوڑوں کی سزا دی
گئی۔ اسلامی نظام حیات میں قتل و غارت کو بہت معیوب قرار دیا گیا ہے اور اس
پر بہت سخت وعید بھی ہے ۔قرآن حکیم میں ہے کہ اگر کوئی انسان کسی انسان کو
قتل کرتا ہے تو گویا اس نے پوری انسانیت کا قتل کیا، اسی طرح فرمایا جو شخص
کسی مسلمان کو عملاً قتل کرتا ہے تو اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے
گا اﷲ کا اس پر غضب اور لعنت ہے۔ دنیا میں قتل عام کو روکنے کے لیے اسلام
نے قصاص کا قانون دیا ہے۔
دورِجاہلیت میں لوگ مقتول کا بدلہ صرف قاتل تک محدود نہیں رکھتے تھے
بلکہانتقاماً وہ کئی افراد کو قتل کر دیتے ۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ اس غیض
و غضب کے ماحول میں ان میں جنگ و جدل کا سلسلہ جاری ہو جاتا ہے جو بسا
اوقات سالہا سال تک طول کھینچتا اور جس کے باعث سینکڑوں لوگ ناحق قتل ہو
جاتے۔ آج پاکستان میں اندھیر نگری اور چو پٹ راجہ کے سبب بالکل چودہ صدیاں
قبل والا ماحول ہے۔ عدالتیں انصاف دینے میں نا کام ہیں۔ سعودی عرب میں آج
بھی اسلامی نظام حیات قائم ہے وہاں امن کو قائم رکھنے کے لیے عدل و انصاف
کو فوقیت دی جاتی ہے، شاہی خاندان کے افراد اور خود شاہ سلمان کسی نے بھی
قانون کو ہاتھ میں لینے کی جسارت نہیں کی ۔عدلیہ اور ججوں کو خریدنے کی
روایت جو ہمارے ہاں قائم ہے اس کو اپنانے سے گریز کیا۔ شاہ تو جرم ثابت
ہونے کے بعد بے بس ہیں کیونکہ شاہ کو یہ اختیار ہی نہیں کہ وہ رحم کی اپیل
منظور کر کے قاتل کے قصاص کو روک دے۔ اﷲ تعالیٰ نے یہ اختیار صرف مقتول کے
ورثاء کو دیا ہے۔ ورثاء اگر چاہیں تو اس کو معاف کر دیں اور اس کی دیت جو
سو اونٹ رکھی گئی ہے یا فی زمانہ ان اونٹوں کی قیمت کے برابر رقم لے لیں۔
عدالت اگر کسی قاتل کا فیصلہ کر دے تو ہمارے صدر مملکت کو یہ اختیار ہے‘
ورثاء کے بدلہ اور قصاص کے اٹل فیصلے کے باوجود وہ قاتل کو معاف کر دے۔ ہم
نے تو وہ اختیارات جو اﷲ ذوالجلال نے ورثاء کو تفویظ کیے صدر مملکت کو سونپ
رکھے ہیں یہ سراسر ظلم ہے ۔ ۱۱؍۹ کے بعد امت پرفتنوں کا دور اس کے اعمال کے
سبب جب آیا تو مسلمانوں کا خون ارزاں ہو گیا پاکستان میں بلیک واٹر کا
سرغنہ ریمنڈڈیوس بہت بڑے قتل و غارت کے منصوبے لے کر آیا تھا اس کے ہاتھوں
دو بے گناہ نوجوان قتل ہوئے ۔امریکہ کے دباؤ پر حکومت تو اسے شاید پہلے دن
ہی جہاز پر بیٹھا کر امریکہ روزانہ کر دیتی لیکن دینی و مذہبی تنظیموں نے
جب ریمنڈڈ یوس کے خلاف مہم چلائی تو ہماری عدالت نے اسے دیت بالجبر کے
ذریعے رہا کرا کر واپس امریکہ بھیج کر انصاف کا منہ چڑھایا۔
یہاں قانون کے رکھوالے امن و امان قائم رکھنے والے، قاتلوں کے خوشہ چین
ہیں۔ دنیا نے سائنس و ٹیکنالوجی میں ترقی کی، نئی نئی ایجادات ہوئیں ۔ہماری
عدلیہ نظریہ ضرورت کی موجد ہے۔ سعودی عرب میں منشیات فروشوں کے لیے بھی موت
کی سزا ہے کیونکہ یہ کالا دھن کمانے کے لیے لوگوں میں موت بانٹتے ہیں۔ اس
قانون کے باعث وہاں کی سڑکوں، چوراہوں، گلی کوچوں اور کچرے کے ڈھیروں پر
نوجوان ایک دوسرے کو ٹیکے لگاتے نظر نہیں آتے وہاں قانون پرعمل ہے لیکن
یہاں تو اسمبلیوں کی آڑ میں نوجوانوں میں موت تقسیم کی جاتی ہے۔ یہ بات
ریکارڈ پر ہے منور منج جو پاکستان پیپلز پارٹی کے قومی اسمبلی کے ممبر تھے
وہ ایم این اے کی تختی والی گاڑی میں ہیروئن لاتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑے
گئے انہیں موت کی سزا ہوئی لیکن ہماری عدلیہ نے نظریہ ضرورت کے پیش نظر اس
موت کے سوداگر کو باعزت بری کر دیا۔
شاہ زیب قتل کیس میں جج کو فون کر کے کہا جاتا ہے کہ شاہد جتوئی کا خیال
رکھنا اپنا بچہ ہے ۔ماڈل گرل ایان کو منی لانڈرنگ میں گرفتار کیا گیا تو
گرفتار کرنے والے افسر کو قتل کر دیا گیا اور اسے بچانے کے لیے بڑی بڑی
شخصیات سرگرم ہو گئیں ،پردہ نشینوں میں بڑے بڑے نام شامل تھے۔ پاکستان میں
جرائم کے پنپنے کی ایک وجہ یہاں کا قانون بھی ہے جو ہمیشہ مجرموں کو مدد
فراہم کرتا ہے اس کے علاوہ ایک طبقہ جو خود کو لبرل کہتے ہیں انہیں ایک طرف
تو اسلامی نظام حیات اور اسلامی سزاؤں سے چڑہے اور دوسری طرف یہ ملک میں
عورتوں کے حقوق، تیزاب گردی سے چہرے مسخ کرنے پر بہت تلملاتے ہیں اور اس پر
قانون سازی کا شور شرابہ کرتے ہیں لیکن انسان جتنے بھی قانون بنا لے وہ
ناقص ہی رہیں گے ان سے کبھی جرائم نہیں رک سکتے ۔اسلام نے ہاتھ کے بدلے
ہاتھ ، ناک کے بدلے ناک کاٹنے کا قانون دیا اگر تیزاب پھینکنے والے کے چہرے
کو مسخ کر دیا جائے تو کوئی ایسی جرأت نہیں کرے گا اگر قاتلوں کو کمزور اور
طاقتور کا فرق مٹا کر قصاص میں قتل کریں، چور کے ہاتھ کاٹیں، رشوت کرپشن
کرنے والوں کو سزا دیں تو جرائم ختم ہو جائیں گے۔ آج سعودی عرب میں قانون
کی حکمرانی ہے کوئی کسی کے لیے سفارشنہیں کرتا یہاں ایک جرم سر زد ہوتا ہے
تو اس ایم پی اے، ایم این اے تھانے پہنچ جاتے ہیں اور مجرم کو آزا دی د لا
کر پروٹو کول کے ساتھ اپنی پلیٹ لگی گاڑی میں بٹھا کر لاتے ہیں۔
سعودی عرب میں جرائم کی شرح دنیا کے تمام ممالک سے کم ہے امریکہ جیسے ملک
میں روزانہ کئی افراد قتل ہوتے ہیں ڈکتیاں، کرپشن اور فراڈ کے کیس ہوتے
۔شراب اور ہیروئن سمیت نشہ ان کی زندگی میں شامل ہے لیکن سعودی عرب میں
شریعت کے احکام کی بنا پر اﷲ کی رحمت کا سایہ ہے جب ملک میں انصاف ہو تو
قومیں ترقی کرتی ہیں اور معاشرے پر امن ہوتے اگر ہم ترقی کرنا چاہتے ہیں تو
ہمیں انصاف کوآزاد کرنا ہو گا اور اﷲ کی مقرر کردہ حدود کو بغیر کسی دباؤ
کے نافذ کرنا ہو گا۔
|