14 فروری 2001ء کی ایک تاریک رات کا واقعہ
ہے۔ ایک پک اپ چکوال مندرہ روڈ پر سڑک کے کنارے کھڑی تھی جس کے پیچھے ایک
باریش شخص اور دو عورتیں کھڑی تھیں۔ اتنے میں ایک اکیلے مسافر نے اپنی گاڑی
کھڑی کی۔ یہ سوچ کر یہ شاید ان کی گاڑی خراب ہو گئی ہے اور وہ ان کی مدد کر
سکے۔ جب دریافت کیا تو پتہ چلا کہ وہ چکوال کے کسی گاؤں سے آئے ہیں اور
اپنی حاملہ بہو کو چکوال ڈسٹرکٹ ہسپتال لے کر گئے، وہاں عملہ نہ ہونے کی
وجہ سے چوکیدار نے راولپنڈی لے جانے کا مشورہ دیا۔ بہو راولپنڈی کے راستے
میں انتقال کر گئی۔ دُکھی صوبیدار نے مزید کہا کہ ’’ہماری مائیں مرتی رہیں
اور بیٹیاں مریں گی کوئی تبدیلی نہیں آسکتی کیونکہ جو تبدیلی لا سکتے ہیں
وہ ریٹائرمنٹ کے بعد گاؤں واپس نہیں آتے اور راولپنڈی میں ہی رہ جاتے
ہیں‘‘۔ دلبرداشتہ صوبیدار نے مدد کی آفر دینے والے شخص بریگیڈئر ظفر اقبال
چوہدری کا شکریہ ادا کیا اور واپس گاؤں جا کر بہو کی تدفین وغیرہ کرنے کا
انتظام کیا۔ بریگیڈئر ظفر اقبال چوہدری 3 سال کی عمر میں اپنے گاؤں بھیں
تحصیل چکوال سے افریقہ جہاں اُن کے والد محترم کاروبار / ملازمت کے سلسلہ
میں مقیم تھے، افریقہ کے لئے روانہ ہوئے اور پوری تعلیم وہیں پر حاصل کی۔
1967ء میں پاکستان واپسی ہوئی اور کچھ عرصہ تلہ گنگ، چکوال، راولپنڈی میں
تعلیم مکمل کی اور فوج میں 1970ء میں بطور آفیسر شمولیت اختیار کی لہٰذا
اُن کی چکوال کی مقامی مشکلات سے پوری طرح آگاہی نہ تھی۔ گاڑی والے واقعے
کا بریگیڈئر ظفر اقبال چوہدری پر گہرا اثر ہوا۔ اپنے ضلع کے غریبوں کے لئے
کچھ کرنے کا ارادہ کیا۔ ایک تفصیلی سروے کے بعد حقیقت سامنے آئی کہ صوبیدار
صاحب کی بہو کا واقعہ ضلع چکوال میں روزمرہ کا معمول ہے۔ اگرچہ حکومت کثیر
رقم صحت کے اداروں پر خرچ کرتی ہے مگر اس کے باوجود صحت کے حکومتی ادارے
زبوں حالی کا شکار ہیں۔ غریب عوام پرائیویٹ اداروں کے اخراجات برداشت نہیں
کر سکتے۔ سروے سے پتہ چلا کہ ایسے مریض جن کو ڈیلیوری کے لئے راولپنڈی لے
جانے کی تجویز دی جاتی ہے وہ اتنا لمبا سفر پرائیویٹ گاڑیوں میں کرنے کے
بعد کم ہی زندہ واپس آتے ہیں اس لئے عورتوں کی صحت کا سسٹم پُرانا اور
بوسیدہ ہو چکا ہے۔ کئی دفعہ غریب کسانوں کو اپنی زمین اور مال مویشی فروخت
کر کے اپنی خواتین اور بچوں کا علاج کروانا پڑتا ہے۔ بریگیڈئر ظفر اقبال
چوہدری نے 6 ماہ کے اندر ہی فوج سے ریٹائرمنٹ لے لی اور چکوال کے دیہات میں
صحت اور تعلیم کے شعبوں میں فلاحی کام کرنے کا ارادہ کیا۔ پورے ضلع کے
حالات سے آگاہی حاصل کرنے کے بعد انہوں نے ایک جامع اور تفصیلی منصوبہ
ترتیب دیا جس کے مطابق چکوال شہر میں ایک سو بیڈ کا عورتوں اور بچوں کا
ہسپتال اور دیہات میں 20 زچہ و بچہ سنٹر قائم کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اسی
طرح تعلیم کے سلسلے میں چکوال شہر میں ایک لڑکیوں کا معیاری کالج اور دیہات
میں 20 سکول بنانے کا تہیہ کیا۔ ایک تنظیم ’’فلاح فاؤنڈیشن چکوال‘‘ 22
اکتوبر 2002ء کو رجسٹرڈ کروائی۔ سب سے پہلے بریگیڈئر ظفر اقبال چوہدری نے
اپنے گاؤں بھیں تحصیل چکوال میں اپنی والدہ کے نام سیداں بی بی میموریل زچہ
و بچہ سنٹر اپنی ذاتی رقم خرچ کر کے تعمیر کیا اور پورا سامان بمعہ
ایمبولینس مہیا کیا۔ الحمد ﷲ زچہ و بچہ سنٹر میں 1300 سے زائد نارمل
ڈیلیوریز ہو چکی ہیں اور ہزاروں عورتیں اور بچے مفت ادویات سے مستفید ہو
رہے ہیں۔ اگلے 3 سالوں میں ایک اور زچہ و بچہ سنٹر سانگ تحصیل چکوال میں
تعمیر کیا۔ اکتوبر 2005ء میں آزاد کشمیر میں ہولناک زلزلہ آنے کی وجہ سے
بریگیڈئر ظفر اقبال چوہدری کی توجہ اس علاقے کے مصیبت زدہ لوگوں پر مرکوز
ہو گئی۔ اﷲ رب العزت نے ان کو 3 سال کے لئے اس علاقے میں ریلیف اور بحالی
کے کام کے لئے پسند کیا اور اُنہوں نے ساڑھے 400 مستحق بیواؤں اور یتیموں
کے لئے 2 کمرے کے گھر، 31 شہید شدہ مساجد اور 1 ہائی سکول تعمیر کیا۔ اس کے
علاوہ کم و بیش 200 ٹرک ریلیف کا سامان تقسیم کیا۔ اتنا وسیع کام بڑی بڑی
فلاحی تنظیموں سے نہ ہو سکا جو کہ بریگیڈئر ظفر اقبال چوہدری نے اﷲ کی مدد
سے اکیلے کر دکھایا۔ وزیراعظم آزاد کشمیر سردار عتیق نے ایک مرتبہ چکوالیوں
کی ایک تقریب میں کہا ’’چکوال کا ہم ویسے بھی بہت احترام کرتے ہیں لیکن
بریگیڈئر ظفر اقبال چوہدری جیسے غازی جنہوں نے کشمیری بھائیوں کی اتنی
خدمات کی ہم چکوال والوں کے تہہ دل سے ممنون اور مشکور ہیں‘‘۔ اس کام کو
ERRA اور ڈی سی باغ نے بہت سراہا اور فلاح فاؤنڈیشن کو تعریفی اسناد دیں۔
اتنے بڑے منصوبے کے لئے ایک خطیر رقم درکار تھی۔ یہ کام اﷲ رب العزت نے
اپنے ذمے لیا اور اس بڑے فلاحی کام کے لئے مخیر حضرات کا تانتا بندھ گیا
اور کسی بھی جگہ بریگیڈئر ظفر اقبال چوہدری کو مالی تنگی کا سامنا نہ کرنا
پڑا اور اُن کی بھرپور توجہ صرف پراجیکٹس پر مرکوز رہی۔ جنوری 2006ء میں
سرجن جنرل پاکستان آرمی جنرل مشتاق احمد بیگ نے بریگیڈئر ظفر اقبال چوہدری
سے اپنے علاقہ لہڑ سلطان پور تحصیل چوآسیدن شاہ میں ایک کلینک بنانے کی
خواہش کا اظہار کیا۔ زلزلے میں مصروفیات کی وجہ سے بریگیڈئر ظفر اقبال
چوہدری 2 سال اپنے دوست کی خواہش پوری نہ کر سکے۔ جنرل مشتاق احمد بیگ 25
فروری 2008ء کو اپنے ڈرائیور اور ذاتی محافظ سمیت راولپنڈی میں خودکش حملے
میں شہید ہوئے۔ قوم ایک انتہائی ماہر معالج سے محروم ہو گئی۔ بریگیڈئر ظفر
اقبال چوہدری نے زلزلے کے علاقے میں کام بند کر کے چوآسیدن شاہ کا رُخ کیا۔
جنرل مشتاق کی عظیم قربانی کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے ان کے نام پر
کلینک کی بجائے ایک 30 بیڈ کا فلاحی اور معیاری ہسپتال قائم کرنے کا ارادہ
کیا۔ اس سلسلہ میں 22 فروری 2009ء کو ہسپتال کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ یہ
ہسپتال جنرل مشتاق بیگ شہید کے خیر خواہوں اور فوجی اداروں کے مالی تعاون
سے تعمیر کیا گیا۔ چوآسیدن شاہ میں واقع یہ ہسپتال 50 دیہات کو طبی سہولیات
فراہم کر رہا ہے۔ اﷲ کے فضل و کرم سے ہسپتال کی خوبصورت اور پُروقار عمارت
کی تعمیر مارچ 2011ء کو مکمل ہوئی۔ جدید آلات نصب کر دئیے گئے ہیں نیز جنرل
مشتاق بیگ شہید میموریل ہسپتال میں صحت کی تمام سہولتیں میسر ہیں۔ اس علاقے
کی زیادہ تر آبادی غریب افراد پر مشتمل ہے اور خیراتی ہسپتال ہونے کے حوالے
سے مستحق مریضوں کو معائنے، ادویات، طبی ٹیسٹوں، فری ڈیلیوری اور ایمبولینس
کی مفت سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔ 14 اپریل 2012ء سے آپریشن تھیڑ کا
باقاعدہ آغاز ہوا۔ اب تک 5 سال کے عرصے میں آنکھوں کے 750 مفت آپریشن ہو
چکے ہیں۔ اس کے بعد اپریل 2015ء میں وادی کہون چوآسیدن شاہ میں ایک جدید
جنرل کلینک ’’کہون ویلی ہسپتال‘‘ کی تعمیر مکمل ہوئی۔ طبی آلات اور
ایمبولینس کی سہولت سے علاقے کے عوام مستفید ہو رہے ہیں۔ تعلیم کے شعبے میں
بریگیڈئر ظفر اقبال چوہدری نے اپنے گاؤں بھیں میں ایک معیاری ہائی سکول کی
تعمیر اپنے ذاتی عطیے سے 2006ء میں مکمل کی اور آج ساڑھے 300 سے زائد مقامی
بچے معیاری تعلیم سے مستفید ہو رہے ہیں۔ چوآسیدن شاہ میں ایک ہائی سکول،
ٹیکنیکل ٹریننگ سکول اور 200 بچوں کے لئے ہاسٹل کی جدید عمارت کی بنیاد
2013ء میں رکھی گئی اور یہ عمارت 2016ء میں مکمل ہو گی اور انشاء اﷲ
باقاعدہ تعلیم کا آغاز مارچ 2017ء کے تعلیمی سال سے ہو گا۔ ان خوبصورت اور
جدید عمارتوں کی تعمیر کے لئے فنڈز فوجی اداروں اور چند مخیر حضرات نے مہیا
کئے۔ صحت اور تعلیم کے علاوہ بریگیڈئر ظفر اقبال چوہدری نے دیہات میں صاف
پانی کے 55 منصوبوں کو مکمل کیا اور ماحولیات کے سلسلے میں درخت لگانے کے
منصوبے جاری ہیں۔ بریگیڈئر ظفر اقبال چوہدری کا کہنا ہے کہ اﷲ رب العزت کے
دئیے گئے وقت اور صلاحیتوں کو اﷲ کی رضا کے لئے استعمال کرنے میں اﷲ کا
احسان اور عنایت ہے۔ تجربے سے پتہ چلا کہ فلاحی کام اﷲ رب العزت کے پسندیدہ
کاموں میں سے ہیں اور اس میں رہنمائی اور استقامت وہ خود عطا کرتا ہے۔ عوام
الناس کو جدید طبی اور تعلیمی سہولیات مؤثر انداز میں فراہم کرنے کے لئے
مخیر حضرات سے فراخ دلانہ مالی ایثار اور تعاون کی گذارش ہے۔ آپ اپنی
زکوٰۃ، صدقات، خیرات فلاح فاؤنڈیشن کے اکاؤنٹ میں جمع کرا کر ہزاروں مستحق
مریضوں / طلباء کی دُعاؤں سے مستفید ہو سکتے ہیں۔ فلاح فاؤنڈیشن کو دی گئی
رقوم آپ کی امانت ہیں، اس میں سے کوئی رقم ادارے کے منتظمین کے ذاتی
استعمال / آسائش کے لئے استعمال نہیں ہوتی۔ اﷲ تعالیٰ پاکستان کا حامی و
ناصر ہو۔ |