والدین کی نافرمانی !

قصہ مشہور ہے،جس کو رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بیان کیا۔جنگل میں ایک جریج نامی عابد دنیا سے الگ ہوکر عبادت کرتاتھا۔ماں اپنے بیٹے کی دیکھ بھال کے لیے آیا کرتی تھی۔ایک دن ماں آئی اور جریج کو آواز دی۔جریج نمازمیں مشغول تھا۔سوچنے لگا ماں کی بات سنوں یانماز میں مشغول رہوں۔آخر اس نے نماز جاری رکھی اور ماں آواز دے دے کر واپس چلی گئی۔اگلے دن پھر ماں بیٹے کی خیرخیریت کے لیے آئیں اور آواز دے کر بلایا۔ادھر جریج پھر نماز میں مشغول تھا۔اس نے پھر سوچا ماں کی بات سنوں یا اللہ سے ہم کلامی جاری رکھوں۔فیصلہ پھر یہی کیا کہ نماز جاری رکھوں۔ماں جب تھک ہار کر جانے لگی تو زبان سے یہ بددعا نکل گئی کہ اے اللہ اس کواس وقت تک موت نہ آئے جب تک یہ کسی زانیہ کے منہ نہ لگ جائے۔ماں کی آہ بھلا کیسے نہیں لگ سکتی؟

ادھر بنواسرائیل میں جریج کی عبادت اور ریاضت کے چرچے عام تھے۔ایک سرکش عورت جو حسن وجمال میں مشہور تھی اس نے جریج کی شہرت کوداغدار کرنے کا سوچا۔جریج کی عبادت گاہ کے قریب کوئی چرواہا رہتا تھا۔یہ عورت اس سے بدکاری کروابیٹھی۔جب لڑکا پیدا ہوا تو اس سرکش عورت نے مشہور کردیا کہ یہ لڑکا جریج کا ہے۔بنواسرائیل جریج ایسے عابد کی اس حرکت پر نالاں ہوئے،اس کو مارا پیٹااور اس کی عبادت گاہ کو گرادیا۔آخر جریج نے ان سے کہا ذرا رکیے۔مجھے نماز پڑھنے دیجئے۔نماز کے بعد بچے کی طرف لپکے اور اس کے پیٹ پر ہاتھ رکھ کر کہا بتاو تمہارا باپ کون ہے؟خدا کی رحمت کہ اپنے عابد کی عبادت اور محبت کی لاج رکھی۔لڑکے نے کہا میراباپ فلاں چرواہا ہے!لوگوں نے یہ سن کر جریج سے معافی تلافی کی اور اسے کہا کہ ہم آپ کی عبادت گاہ سونے کی بنادیتے ہیں۔جریج نے کہا جیسے پہلی تھی ویسی بنادو۔چنانچہ انہوں پھر سے مٹی کی عبادت گاہ بنادی۔یہ قصہ صحیح بخاری،صحیح مسلم اور مسند احمد وغیرہ کتب احادیث میں مذکور ہے۔

دوسری طرف ہمارامعاشرہ ہے جہاں دن بدن والدین کی ناقدری اور نافرمانی بڑھتی جارہی ہے۔والدین سے اختلافات ،لڑائی جھگڑے معمول بنتے جارہے ہیں۔نوبت یہاں تک جاپہنچی ہے کہ والدین کو قتل تک کیاجانے لگا ہے۔جائیداد اور مالی معاملات میں والدین پر تشدد بہت عام ہوگیا ہے۔بیوی بچوں کی محبت میں ماں باپ کی قربانیوں کو پاؤں تلے روندھا جارہاہے۔پسند ناپسند کے رشتے کرنے میں والدین کی توہین وتنقیص کی جاتی ہے۔اولڈ ہوم سنٹرز میں خطرناک اضافہ ہورہاہے،جہاں بوڑھے والدین جنہوں نے فاقے برداشت کرکے سات سات بیٹوں کو پالا ہوتا ہے ،اولاد کی لاپرواہی کی وجہ سے موت کے انتظارمیں رورو کر زندگی کے آخری لمحے گزارتے ہیں۔پاکستان میں اولڈ ہوم سنٹرز میں جاکر بوڑھے والدین کی دکھ بھری داستانیں سنی جائیں توشاید آسمان وزمین بھی روپڑیں۔کتنے ایسے والدین ہیں جو انتہائی مالدار ہوتے ہیں،جنہوں نے بچوں کو بڑی بڑی ڈگریاں اوربڑے بڑے کاروبار کرواکردیے ہوتے ہیں انہیں بڑھاپے میں دھکے دے کر اولڈ ہومز بھیج دیا جاتاہے۔جن کا کوئی سہارا نہیں ایسے بزرگوں کے لیے واقعی اولڈہومز کسی نعمت سے کم نہیں،لیکن ایک اسلامی اور مشرقی معاشرہ جہاں بزرگوں کو خدا کی رحمت سمجھاجاتاہو،جہاں" ماؤں کےپاؤں تلے جنت"کو تلاش کیاجاتاہو،وہاں اولڈہومز میں پڑھے لکھے ،جاب پیشہ بچے اپنے والدین کو بے سہارا چھوڑ آئیں یقینا بہت کچھ سوچنےپر مجبورکرتا ہے۔

اسلام نے والدین کی اطاعت کو خدا اور اس کے رسولﷺ کی رضامندی قرار دیاہے۔اللہ نے قرآن میں حکم دیتے ہوئے فرمایا کہ"تمہارے پروردگارنے یہ حکم دیاہے کہ اُس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو،اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔اگروالدین میں سے کوئی ایک یادونوں تمہارے پاس بڑھاپے کوپہنچ جائیں تو اُنہیں اُف تک نہ کہو،اور نہ اُنہیں جھڑکو،بلکہ ان سے عزت کے ساتھ بات کیاکرو" (سورہ:بنی اسرائیل)۔اللہ کے رسول ﷺنےبددعا دی اس انسان کو جو بوڑھے والدین کو بڑھاپے میں پائے اور(ان کی خدمت کرکے)جنت حاصل نہ کرے۔(ادب المفرد،بیہقی)۔ایک دوسری حدیث میں آپ نے والدین کی نافرمانی کو کبیرہ گناہ کہا(متفق علیہ)۔والدین کی اہمیت اور ان کے احترام کے لیے قرآن وحدیث میں بے شمار ہدایات دی گئی ہیں۔مذکورہ جریج نامی عبادت گزار کے قصہ سے بھی بہت سی حکمتیں اخذ کی جاسکتی ہیں،لیکن سب سے بڑی حکمت اور عبرت یہ ہے کہ والدین بالخصوص ماں کی نافرمانی اور ذرا سی لاپراوہی بڑے بڑے اللہ والوں کو ہلاکررکھ دیتی ہے تو عام آدمی کو ماں کی آہ کیوں نہیں تڑپاسکتی؟اگرچہ والدین اپنی اولاد کو بددعا نہیں دیتے، لیکن اگرانجانے میں کبھی ان کے منہ سے کوئی ایسا لفظ نکل جائے تو کیا پتہ قبولیت کی وہ گھڑی انسان کو برباد کرجائے۔

اس لیے معاشرے میں والدین کی اہمیت اوراحترام کو خوب اجاگر کرنا چاہیے۔اس سلسلے میں والدین کو بچپن میں اپنی اولاد کی تربیت پر بھرپور توجہ دینی چاہیے،کیوں کہ اگر بچوں کی تربیت اچھی ہو ،اسلامی طور طریقے بچوں کی ذہنوں میں راسخ ہوں،اسلامی تعلیمات ان کو دی گئی ہو،تو کبھی وہ والدین کی نافرمانی کریں گے،نہ والدین کو اولڈہومز بھیجنےکا تصور کریں گے ۔المیہ یہ ہے کہ دنیا کی گہماگہمی میں والدین اس قدر مشغول ہوجاتے ہیں کہ بچوں کو وقت ہی نہیں دے پاتے اور بچے والدین کی عدم توجہی سے اس قدر انجانے ہوجاتے ہیں کہ اردگرد کے برے ماحول سے متاثر ہوتے ہیں اورپھر نوبت والدین کی نافرمانی ،اختلافات،لڑائی جھگڑے اور اولڈ ہومز تک جاپہنچتی ہے۔اس لیے والدین کو ازخود اپنی عزت اوراحترام کے لیے قربانی دینا ہوگی اور بچوں کی صحیح تربیت پر توجہ دینا ہوگی،ورنہ سماج میں والدین کی نافرمانی ایسا کبیرہ گناہ پھیلتا رہے گا ،نسل درنسل اس گناہ کی وجہ سے خدا کے غضب کا شکار ہوتی رہی گی اور ہماری مشرقی تہذیب اور معاشرہ اولڈہومز وغیرہ کی لت سے بگڑتا رہے گا۔
Ghulam Nabi Madni
About the Author: Ghulam Nabi Madni Read More Articles by Ghulam Nabi Madni: 43 Articles with 32123 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.