حضرت اقدس مفتی حمید اﷲ جان ؒ،چند یادیں چند باتیں

ایک عالم کی موت ساری دنیا کی موت ہوا کرتی ہے ایسے علمائے دین جن کی نسبتیں بڑی ہوں ،جن کا علم وتقویٰ قابل عمل ہو جو ایک شجر سائیہ دار ہو ،لاکھوں اہل دین کیلئے ان کا جدا ہوجانا قیامت سے کم نہیں ہوتا کیونکہ ایسی ہستی سے رہنمائی حاصل کرنے والے لوگ بعد از وفات خود کو یتیم سمجھتے ہیں ،تاریخ انسانی میں ایسا متعدد بار ہوا کہ بڑے لوگ جہان فانی سے کوچ کرگئے تو اس وقت کے لوگوں پر جدائی کے باعث قیامت ٹوٹ پڑی ،خود کو تنہاء محسوس کرنے لگے ۔اپنی زندگی میں راقم نے دیکھاکہ جب ہمارے محسن ومربی مولانا عبدالقیوم ربانی ؒ اس دنیا سے رخصت ہوئے تو ایک قیامت کا سماں تھا ان کی موت کا یقین نہیں آتا تھا ،ایک عرصہ تک خود کو یتیم اورتنہاخیال کرتے رہے ،وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کئی بزرگوں کی رفاقت نصیب ہوئی جن میں مفتی ٔ اعظم پاکستان حضرت مولانا حمید اﷲ جان ؒ بھی تھے ۔

مولانا مفتی حمید اﷲ جان ؒ ایک عظیم علمی شخصیت تھے آ پ ؒ نے مولانا معز الحقؒ فاضل دیوبند،مفتی حبیب اﷲؒ،مولانا عبدالسلام چکیری ؒ،مولانا گل جعفریؒ،حضرت علامہ یوسف بنوری ؒ ،مولانا انور شاہ کشمیری ؒ کے شاگرد مولانا لطف اﷲ جہانگیرویؒ ،مولانا فضل محمد سواتی فاضل دیوبند،مولانا ادریس میرٹھی ؒ ،مولانا عبدالرشید نعمانی ؒ جیسی نابغہ ٔ روزگار ہستیوں سے علم حاصل کیا ،زندگی بھرمتعدد مدارس میں علوم نبوت ﷺ کی تعلیم دیتے رہے ،ملک کے معروف مدرسہ جامعہ اشرفیہ میں صدر مفتی کے عہدے پر فائز رہے ،بعد از رائے ونڈ روڈ پر اپنا مدرسہ جامعۃ الحمید قائم کیا ،وہاں بھی صاحب فراش ہونے تک مسلسل تعلیم دیتے رہے ،ملک بھر میں دینی اجتماعات کیلئے سفر بھی ساری زندگی جاری رہے آپ ؒ کی زندگی کا ایک اہم خاصہ یہ تھا کہ وہ نتائج کی پرواہ کئے بغیرحق پر ڈٹ جانے والے عالم دین تھے ۔ساری زندگی اصولوں کا سودا نہیں کیا ۔تصوف کے میدان میں آپ ؒ نے اپنا روحانی تعلق مولانا عبدالعزیز رائے پوری ؒ سے قائم کیا ،مولانا حبیب اﷲ نے سلسلہ نقشبندی سے آپ ؒ کو خلافت سے نوازا ،جبکہ حافظ عبدالوحید رائے پوری ؒ نے آپ ؒ کوچاروں سلسلوں میں بیعت کی اجاز ت دی۔آپ ؒ نے شریعت وطریقت کا حسین امتزاج قائم رکھتے ہوئے حقیقی شریعت کو متعارف کروایاجن کی حضرت علی ہجویری ؒ اور دیگر بلند پائیہ اولیاء اﷲ تلقین کرتے رہے ۔آپ کے لاکھوں مریدین ملک وبیرون ملک پھیلے ہوئے ہیں جو امت مسلمہ کیلئے ایک تحفہ اور آپ ؒ کیلئے ایک صدقہ ٔ جاریہ ہیں۔

جب بھی علم میں آتا کہ حضرت مفتی صاحب کہیں بیان کے لئے تشریف لا رہے ہیں تو دیوانہ وار پہنچ جاتے ،ایمان افروز بیان سن کر بہت خوشی ہوتی ،کئی بار ہمدرد ہال لاہور میں حضرت کو سننے کا موقعہ ملا ،جامعہ حمیدیہ بادامی باغ میں ہر سال تشریف لایا کرتے تھے بندہ وہاں پہنچ جاتا ،ایک بار ایک قومی روزنامہ نے چند مذہبی لیڈرا ن کرام کا انٹرویو شائع کیا جس میں انہوں نے کہا کہ "داعیان خلافت لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں " تو ڈاکٹر نجم الدین نے چار صفحات پر مشتمل اس کا جواب لکھا ،ابھی تازہ تازہ ہی شائع ہوا تھا ،اسی دوران حضرت مفتی حمید اﷲ جان ؒ جامعہ صوت القران میں عظمت قرآن کے عنوان پربیان کیلئے تشریف لائے تو بندہ تازہ پمفلٹ لیکر وہاں پہنچ گیا ،جہاں حضرت والا تشریف فرما تھے وہاں چند پمفلٹ بھیج دئیے حضرتؒ نے پمفلٹ پڑھا تو تعریف کی ۔جب بیان شروع کیا تو بیان کا عنوان عظمت قرآن کی بجائے نظام باطل کا رد تھا آغاز ہی میں فرمانے لگے علماء کرام خواہ نارا ض ہوں میں آج ایک بار پھر ایسا حق بیان کروں گا جو بہت کم لوگ بیان کرتے ہیں ۔اس بیان کا یہ اثر ہوا جو لوگ ہمیں کہتے تھے کہ تمہارے موقف کے حامی علمائے کرام کون کون ہیں ؟ ان کو جواب مل گیا ایک عرصہ سے جاری گرم وسرد بحث کا خاتمہ ہوگیا ۔اس کے بعد بندہ نے مولانا سے ملنے کی کوشش کی جس میں کامیاب ہوا جامعتہ الحمید رائے ونڈ روڈ پر حاضر ہوا تو حضرت ؒ نے بہت اہم باتیں کیں بہت شفقت فرمائی۔اور ساتھ ہی اپنی جماعت تحریک نفاذ اسلام پاکستان کا منشور ودستور بھی عنائیت فرمایا جو میرے لئے ایک خاص تحفہ ثابت ہوا کیونکہ سر ورق پر امیر تحریک علامہ ڈاکٹر شیر علی شاہ ؒ پی ایچ ڈی مدینہ یونیورسٹی کا نام درج تھا ۔نائب امیر کے طور پر حضرت مفتی صاحب ؒ کا نام تھا ۔لٹریچر کا مطالعہ کیا تو تسکین قلب نصیب ہوا کہ ہم صرا ط مستقیم پر ہیں ۔اس کے تھوڑے عرصہ بعد ڈاکٹر شیر علی شاہ ؒ کا انتقال ہوگیا تو امارت کی ذمہ داری حضرت مفتی صاحب ؒ کے سر آگئی ،حضرت مفتی ؒ صاحب نے اس ذمہ داری کو بہت احسن انداز سے نبھایا ،سود کے خلاف جب سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا تو مفتی حمید اﷲ جان ؒ سخت غصے میں دکھا ئی دئیے اور ملک گیر تقاریب کا اہتمام کیا لاہور میں سیمینار ہوا تو تحریک نفاذ اسلام کے صوبائی امیر مولانا زاہد اقبال صاحب تشریف لائے اور دعوت دی ،سیمینار عوام سے بھرا ہوا تھا ،ہر طرف قرآن وسنت کے داعی ہی داعی نظر آرہے تھے ۔حضرت نے وہاں سود کے خلاف تحریک کا اعلان کیا ۔ اس پروگرام کے تھوڑے عرصے بعد حضرت بیمار ہوگئے ،اہل خانہ سے فرمائش کرنے لگے کہ مجھے آبائی علاقہ لکی مروت لے جایا جائے ان کی خواہش پر انھیں لکی مروت لیجایا گیا جہاں چند ماہ صاحب فراش رہنے کے بعد29 اکتوبر 2016 ء کو انتقال فرما گئے ان ﷲ وانا علیہ راجعون۔ آپ ؒ کے انتقال کی خبر مولانا خالد ،مولانا قاضی ظفر الحق امیر مجلس نفاذ اسلام پاکستان،مولانا رحمت اﷲ کا کڑ نے دی ۔انتقال کی خبر ملی تو خود کو بے بس ،لارواث محسوس کرنے لگا ۔ایسا محسوس ہوا کہ جیسے ایک بار پھر یتیمی کے بادل چھا گئے ۔ آپ ؒ کی نمازہ جنازہ مولانا سمیع الحق امیر جمعیت علمائے اسلام(س) پاکستان نے پڑھائی ۔آپ ؒ سے لوگ کتنی محبت کرتے تھے؟ اس کا انداز آپ ؒ کے جنازے سے لگایا جا سکتا ہے کہ لکی مروت کا وسیع وعریض اسٹیڈیم اہل دین اور محبان دین سے بھر گیا تھا جو تنگ دامنی کا اظہار کر رہا تھا ۔آپ ؒ کا انتقال جامعتہ الحمید اور تحریک نفاذ اسلام اور داعیان خلافت کیلئے خصوصاً آپ ؒ کی جدائی بہت بڑا صدمہ ہے ۔کیونکہ آپ ؒ جیسی ہستی کو تلاش کرنا محال نظر آرہا ہے جو ایک فقیہ، ،محدث ،عالم باعمل،روحانی وسیاسی قائد کی حیثیت رکھتی ہو ۔اب دیکھتے ہیں اﷲ تعالیٰ حضرت مفتی حمید اﷲ جان ؒ کی انتقال کے بعد کوئی ایسی ہستی اہل دین کو کب؟کتنی جلدی عطاء کرتے ہیں ؟ امتحان کا عرصہ طویل ہو گا یا قلیل ۔۔۔۔
Ghulam Abbas Siddiqui
About the Author: Ghulam Abbas Siddiqui Read More Articles by Ghulam Abbas Siddiqui: 264 Articles with 269449 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.