انسان بہت مضبوط بھی ہے اور بہت کمزور بھی
، اس کی شخصیت پر ماحول اثر انداز ہوتاہے ۔ با حیثیت انسان بہت ساری غلطیوں
کا پتلا بھی ہوتا ہے ، ایسے ہمیشہ کسی نہ کسی کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے ۔
بچہ پیدا ہوتا ہے تو رزق کیلئے اس کے ہاتھ ہل بھی نہیں پاتے لیکن رب کائنات
نے ایسا بندوبست کردیا ہوتا ہے کہ اسے ہاتھ پھیلائے بغیر رزق مل جاتا ہے ،
جب وہ تھوڑا بڑھا ہوتا ہے تو ہر چیزنفع و نقصان کی پرواہ کئے بغیر اپنے منہ
میں بے خوفی سے ڈال دیتا ہے ، سانپ بھی اگر اس کے سامنے آجائے تو اس سے بھی
کھیلنے کی کوشش کرتا ہے ، پھر آہستہ آہستہ وہ سمجھنے لگتا ہے کہ اس کو کسی
کے سہارے کی ضرورت ہے ، وہ کبھی دیوار کا سہارا لے لیتا ہے ، کبھی ہاتھ کی
انگلی پکڑ کر چلنے کی کوشش کرتا ہے ، تھوڑا اور بڑا ہوتا ہے تو دوڑنے لگتا
ہے ، زمین ایسے اپنے طرف کھینچتی ہے تو وہ اس سے بڑھ کر زور لگاتا ہے اور
لڑکھڑاتے گرتے اٹھتے ، چلناسیکھ جاتا ہے اور پھر اس بھاگم دوڑ میں اس کا
دماغ باغی ہوجاتا ہے ، وہ ہر بات میں اپنی مرضی اور خود منوانے کیلئے خود
کو کُل سمجھ لیتا ہے۔ زمانے کی ٹھوکریں اس کو لگتی رہتی ہیں ، لیکن وہ
زمانے کو اپنی ٹھوکر پر رکھنے کا عادی بننا چاہتا ہے ، قرآن کریم نے ایسے
ہی انسان کو جلد باز اور جھگڑالو و ناشکرا کہا ہے ، رب کائنات نے سورۃ رحمن
نے انسان کو ایک ایک نعمت پر یاد دلایا کہ تم اﷲ تعالی کی کن کن نعمتوں کو
جھٹلاؤ گے ۔قرآن کریم میں کئی جگہ کہا کہ غلیظ مادے کی پیدائش والے ، خود
کو کیا سمجھتے ہو کہ زمین پر ایسے چلتے ہو کہ اس کو چیر دو گے یا سیڑھی بنا
کر آسمان پر چڑھ جاؤ گے ، یہ غرور و تکبر تو سب اﷲ تعالی کی ذات کیلئے
کیونکہ وہ لافانی ہے۔تم تو اتنی غلاظت لئے ہر وقت اپنے ساتھ پھرتے ہو کہ
اپنے جسم کی غلاظت سے بھی گھن کھا جاتے ہو۔ہمیں سیدھے راستے پر جانے کیلئے
بھی کسی کے سہارے کی ضرورت پڑتی ہے ، اپنے مسائل کے حل کے لئے رب کائنات
عزوجل کے سامنے سر کو جھکانا پڑتا ہے ، دعا کیلئے ہاتھ اٹھانے پڑتے ہیں
اپنی بخشش کیلئے صدقہ خیرات اور نیک اعمال کی ضرورت ہوتی ہے ، کیونکہ ربانی
میزان میں رشتے داریاں ، قرابت داریاں نہیں بلکہ نیکی و بدی رکھی جائے گی۔
ہمارے سامنے ایک راہ ہدایت موجود ہے ، ایک رسی ہے جسے تھام کر ہم فتنوں سے
بچ سکتے ہیں ، اور وہ ہے قرآن کریم ۔ہمارے لئے اﷲ اور اس کی کتاب کافی ہے ،
لیکن ہم دنیاوی چمک میں اس قدر گم ہوچکے ہیں کہ ہمارے حد نظر صفر ہوگئی ہے
۔ انسان اپنی کامیا بیوں پر اتنا مسرور نہیں ہوتا جتنا اپنی ناکامی پر اداس
ہوجاتا ہے ۔ کامیابیو ں پر اتنا شکر نہیں کرتا ، جتنا ناکامیوں پر تکلیف
محسوس کرتا ہے، اﷲ تعالی کی مصلحت کو سمجھنے کے بجائے گلے شکوے کرنے بیٹھ
جاتا ہے، یہی ایک انسانی عجلت پسند انسانی کی خامی ہے۔ میں سیدھا سادا ایک
مسلم پختون ہوں ، جو قرآن کریم ، سنت رسول ﷺ ، اصحاب رسول رضوان اﷲ تعالی
اجمعین اور اہل بیت آئمہ اکرام کے ساتھ روز سزا وجزا و آخرت پر یقین رکھتا
ہے۔ انسان کی دلی کیفیات اب بھی اس بچے کی طرح ہوتی ہیں جو کسی کی انگلی
پکڑ کر تیزی سے دوڑ کر دیوار کو تھامنا چاہتا ہے ْ ۔ہر انسان کی بے چین
طبعیت اور نظریں بہت دور بیٹھی ایک شخصیت کو دیکھتی رہتی ہیں کیونکہ انھوں
نے اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ میں دے دیا کہ سب کو اﷲ تعالی کے بعد سہارے کی
ضرورت ہے ۔ اﷲ تعالی نے کوئی چیز بھی براہ راست کسی کو نہیں دی بلکہ اس
کیلئے وسیلہ بنایا ، انسان ناقص عقل اس بات کو سمجھ ہی نہیں سکتے کہ بغیر
معرفت حاصل کئے کس طرح فیضان حاصل کیا جاسکتا ہے ۔کسی کے مرشد پر اعتراضات
کردیئے جاتے ہیں کہ ، اس کے عقائد غیر اسلامی ہیں ، میں اکثر ان لوگوں سے
کہتا ہوں کہ تم ان کا چیلنج قبول کرلو اور لاکھوں مریدین کو حقیقت سے آشنا
کردو ، تم ثابت کردو کہ تم ہی عقل کل ہو ۔پھر ایسے لوگ کتابوں کے مخصوص
حوالے دینے لگتے ہیں تو کہتا ہوں کہ میں ان کی تمام کتابیں پڑھ چکا ہوں ،
لیکن تم سیاق و سباق سے ہٹ کر رنگین عینک لگا کر جو سمجھانا چاہ رہے ہو ،
وہ مجھے مت پڑھاؤ، آہستہ آہستہ مقابل کی طبعیت میں تلخی پیدا ہونے لگتی ہے
، الفاظ سخت ہوجاتے ہیں ، تند وتیز لہجے میں محبت و شفقت کا جو مصنوعی تاثر
تھا وہ زائل ہوجاتا ہے ایسے لوگوں کی طبعیت تشدد پر مائل ہوجاتی ہے ۔ اگر
کسی کے پاس کفر کا فتوی لگانے کی اتھارٹی ہے تو ضرور لگایئے ، لیکن کتنے
کفاروں کو مسلمان کرچکے ہو ، اس کی تعداد بھی ضرور بتایا کریں ۔جزبزر ہوکر
کہا جاتا ہے کہ اندھے ہوچکے ہو ،واقعتاََ اندھیر نگری ہے ، روشنی کی تلاش
میں لوگ پھر تے ہیں، اگر بینائی لوٹا سکتے ہو ، واﷲ ایک لمحے کیلئے بھی
کوئی پس و پش نہیں ، لیکن لگتا ہے کہ نا بینا تو وہ خود ہے جو راستہ دکھانے
کے بجائے حق کی متلاشی کی تشفی کے بجائے مشتعل ہوجاتا ہے۔ اس کے جھکا ہواسر
، شرمندگی سے نہیں بلکہ پھنکارتے اس سانپ کی مانند ہے جو پیچھے ہٹ کر مقابل
کے جسم میں زہر انڈیلنا چاہتا ہے۔جیسے کسی نے اس کی دم پر پیر رکھ دیا تھا
۔ اس سے وہ روشنی مانگی جو اس کے پاس بھی نہیں تھی ۔ بے چین دل کے ساتھ
مضطرب و سیمابی کیفیت نے اس بے کیف دنیا کے مسائل نے سب کوجکڑ کر رکھا ہوا
ہے ، حق و سچ کی اس تلاش میں نکلنے والاجیسے اس بات کا یقینہو جائے کہ میرا
عارف سچا ہے ۔ جس سیڑھی پر قدم رکھا ہے ، وہ مجھے اس مقام تک لے جائے گی ،
جس کا وعدہ کیا گیا ہے ۔ ایسے راستے میں پڑے ان گنت پتھروں کو چننا ہے تاکہ
اس بار کسی پتھر کی ٹھوکر لگنے سے گر نہ پڑے ، راستے میں پڑے کانٹے ایک طرف
کرنا ہے تاکہ یہ کانٹے پھر ایک بار زخمی نہ کردیں ۔ راستہ بہت کھٹن ہے ،
مشکل ہے ، لیکن ناممکن نہیں ہے ۔ جنگلوں میں بھٹک کر ،، پہاڑوں میں جا کر ،
غاروں میں رہ کر اﷲ تعالی کی بنائی اس دنیا سے نا شکری نہیں کرسکتا ۔ صرف
حق کیلئے اور حق کو سمجھنے کیلئے اس دروازے کے سامنے کھڑا ہوجائیں ، جو کسی
کو کافر نہیں کہتا ،جس کے دروازے تعصب ، فرقہ واریت ، لسانیت سے پاک ہیں ۔
مجھے کسی سے مناظرہ نہیں کرنا ، تم بھی اچھی باتیں لے لو ، جب علم کے لئے
چین جانے کا حکم دیا گیا تو کیا علم و رفعت کے خزانے چین میں بہا کرتے تھے
۔ نہیں ایسا نہیں ہے ، مقصد یہی تھا کہ علم حاصل کرو ماں کی گود سے قبر کی
گود تک ۔ کسی کے مرشد پر اعتراض ہے تو اپنے راستے پر چلو ، اگر کسی کو
راستے پر لانا چاہتے ہو ، تواسلام جبر کی اجازت نہیں دیتا ۔ دلی سکون میں
رب تعالی کی خوشنودی ضروری ہے اس کے لئے میں ہر گھر کے دروازے پر جانا چاہے
، آج کوئی مرشد کو لاثانی کہتا ہے ،تو اس لئے کہ اب تک جتنی سرکاریں دیکھیں
، ان میں یہ سب سے بڑے لاثانی سرکار ہیں ، صوفی محمد مسعود احمد صدیقی عرف
لاثانی سرکار ،جن کے فیض سے لاکھوں انسان مستفید ہو رہے ہیں ۔اگر اﷲ تعالی
نے کسی انسان کیلئے ان کوو سیلہ بنایا ہے تو کسی کو اعتراض کیوں ؟۔ تمھارا
اسلام تم کو مبارک ، ان کا اسلام اُن کو مبارک ، میرا اسلام مجھے قبول ۔۔۔
جبر و تشدد کے ذریعے تو اسلام پھیلانے کی بھی سختی سے معمانعت ہے ، پھر کسی
برگزیدہ بندے ملنے سے اسلام کو خطرہ ہے یا پھر اُن لوگوں کو جنھوں نے صوفیا
کا چولا تو پہن رکھا ہے لیکن صوفی ازم کی الف ب سے بھی نہیں واقف ۔۔۔ |