بھوپال میں پچھلے دنوں ہوئی قتل کی سنگین واردات نے
ملک کی تاریخ میں ایک اور سیاہ باب کا اضافہ کردیاہے۔بیک وقت آٹھ مظلوموں
کو منصوبہ بند طریقے اور سازش کے تحت انتہائی بے صبری کے ساتھ اجتماعی طور
پر شہید کیا گیا ہے۔قتل توہو گیا ،سازش بھی کامیاب ہوگئی ،قاتلوں نے بے جان
جسموں پر دوبارہ ٹریگر دبا کر مشق بھی دہرالی تب رہی سہی دل کی بھڑاس
نکالنے ہماری انٹیلی جنٹ میڈیا کے مخصوص ماہرین بھی اپنے فرائض کی انجام
دہی میں مصروف ہوگئے۔اپنی دوراندیشی اور ذہانت کو ظاہر کرنے کے لیے انہوں
نےمقتولین کے لیے وہی رٹے ہوئے الفاظ دہرانا شروع کردیے"آتنک وادی ،خطرناک
دہشت گرد ، دیش دروہی ،"اور نجانے کیا کیا۔خیر۔۔۔ من گھڑ ت کہانیاں سنانے
کی جس طرح سے انھیں عادت سی ہوگئی ہے ٹھیک اسی طرح ہمیں بھی ایسی جھوٹی
کہانیاں سننے کی عادت ہوگئی ہے لیکن یہ بات بھی سچ ہے کہ ہم نے نہ پہلے ان
کہانیوں پر یقین کیا ہے اور نہ کبھی کریں گے۔اجتماعی قتل کی اس واردات کو
جہاں "مڈبھیڑ "اور "انکاؤنٹر " کہہ کر ایکدوسرے کی پیٹھ تھپتھپائی جارہی
ہے وہیں واقعہ کی ویڈیو اور آڈیو کلپس ایک کے بعد ایک منظر عام پر آکر
حقیقت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کو ناکام بناتی چلی جارہی ہیں ۔لیکن پھر بھی
طرہ یہ کہ کہیں کوئی رویش کمار" آتنک وادی" کی جگہ" ملزم " کا لفظ استعمال
کرنا چاہے تو اسے سزا کی تنبیہ کی جاتی ہے۔"انکاؤنٹر "یہ لفظ کچھ سالوں
پہلے تک شاید ہی کبھی سنائی دیتا تھا اور اگر سنائی بھی دیتا تو ہر
انکاؤنٹر کی اپنی الگ حقیقت ہوتی ،لیکن عشرت جہاں اور ان کے ساتھ تین
نوجوانوں کے قتل کے بعد بے گناہ ،بے قصور ،اور بے ضرر نہتے شہریوں بالخصوص
قیدیوں کو قتل کرنے کا ایک سلسلہ چل نکلا ہے ،جو آہستہ آہستہ بڑھتا ہی
جارہا ہے۔سہراب الدین اور ان کی اہلیہ کو قتل کیا گیا انکاؤنٹر کا نام دے
کر ،خواجہ یونس کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے کب قتل کردیا گیا یہ قاتل اچھی
طرح جانتے ہیں ،اورنگ آباد کے نعیم شیخ کہاں غائب کردیے گئے یہ کوئی بتانے
کو تیار نہیں ،اورنگ آباد میں ہی حمایت باغ انکاؤنٹر کے نام پر ایک مظلوم
کو بے دردی سے قتل کردیا گیا ، ڈکیتی کا جھوٹا الزام لگا کر تلنگانہ میں
قتل کردیے گئے نوجوان انکاؤنٹر کے پردے کے پیچھے کہیں گم ہوگئے ،حیدرآباد
میں لے جاکر پانچ نوجوانوں کو ہتھکڑی سمیت گولیاں ماری گئیں ،اس وقت بھی
وہی فرار کی جھوٹی کہانی سنائی گئی جو بھوپال میں قتل کیے گئے مظلومین کے
متعلق سنائی جارہی ہے۔لیکن اس باراس کہانی کا منظر بدلنے کے لیے مقتولین
میں ایک پولس کانسٹبل کو بھی شامل کیا گیا ہے ۔تاکہ سب کی نگاہ آٹھ
مظلوموں سے ہٹ کر" وردی" پر چلی جائے۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی منہاج انصاری کو
ناکردہ گناہ کی سزا میں پولس تھانہ میں قتل کردیا گیا، کب تک جھو ٹ کے
اوراق پلٹائے جاتے رہیں گے ،ایک شخص جو یہ جانتا ہے کہ جو الزام اس پر
لگایا جارہا ہے وہ اس نے کیا ہی نہیں ،اور سب سے بڑی بات کہ وہ "اسلام "
جیسے سچے مذہب پر عمل کرتا ہے تو اس مصیبت سے چھٹکارہ پانے کے لیے وہ سب سے
پہلے اس خالق کائنات سے مدد طلب کرتا ہے جو حقیقت میں اس کا مددگار ہے۔اور
یہی وجہ ہے کہ خطرناک سے خطرناک سازشیں ان مقتولین و مظلومین کے خلاف رچنے
کے بعد بھی ان کے باوردی قاتلوں کو اب انھیں آزاد فضا میں جینے دینے پر
مجبور ہونا پڑرہا تھا اس لیے انھوں نے آناً فاناً اپنے خلاف آگے اٹھ کھڑے
ہونے والے سوالوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے قتل کی اس واردات کو بنا جھجکے
انجام دے دیا اور اپنے دل کی کہانی عوام کو سنا کرخوش کرنے کی ناکام کوشش
کرنے لگے ۔ان کی من گھڑت باتوں سےکون خوش ہیں اور کون نہیں اس پر ہمیں بحث
کرنے کی ضرورت نہیں اور نہ ہمیں یہ یاد دلانا ہے کہ اس پورے واقعے میں جھوٹ
کہاں کہاں ظاہرہے، لیکن ہم یہ ضرور یاد دلانا چاہتے ہیں کہ ظلم کو انجام
دینے والے خود کبھی سکون سے نہیں رہ سکتے،دنیا میں چاہے انھیں جتنی مہلت مل
جائے ،اپنے ظلم کو کارنامہ کہنے میں یہ لوگ چاہے جتنی بھی دولت خرچ کرلیں
مگر اس کائنات کا بادشاہ انھیں آخرت کے دن کوئی مہلت نہیں دینے والا ان کی
من گھڑت کہانیاں پوری دنیا کے لوگوں کے سامنے انھیں ذلیل و رسوا کریں گی ۔
اور میڈیا کے وہ نمائندے جواپنے حلق پھاڑ پھاڑ کر بے گناہوں کو آتنک وادی
کے طور پر ثابت کرنے کی کوشش میں لگےہوئے ہیں، یہ جان لیں کہ ترنگے میںلاش
کے لپیٹنے سے قاتل کا جرم نہیں چھپ جاتا ،مرتے دم تک قاتلوں کو قاتل اور بے
گناہ شہیدوں کو ہم شہید ہی کہیں گے ۔کتنی عجیب بات ہے کہ 20 دنوں تک طلبا ء
کی آواز دہلی پولس سن ہی نہیں پارہی تھی لیکن جیسے ہی چند سیاستدانوں نے
ان کی آواز میں اپنی آواز شامل کی دہلی پولس نجیب احمد کی تلاش میں ادھر
ادھر دوڑنے کی کوشش کررہی ہے ۔اور جن نیوز چینلوں کو پڑوس کے ملک سے بھیجے
گئے ایک کبوتر کی خبر منٹوں میں مل جاتی ہے انھیں 20 دنوں بعد یہ پتہ چلا
کہ راجدھانی دہلی میں ایک یونیورسٹی سے طالب علم دن دہاڑے لاپتہ ہوا
ہے؟واقعات تکلیف دہ ضرور ہیں لیکن ہمیں بھی جلد سے جلد ان سے سبق سیکھنے کی
ضرورت ہے ۔اب تک ہم مصلحتوں کی دیوار اپنے گرد کھڑی کرتے رہے ہیں لیکن کہیں
ایسا نہ ہو کہ اس دیوار کی وجہ سے بزدلی ہمیں اپنے اندر سمیٹ لے۔ہمیں ان
ماؤں اور بہنوں کی تقلید کرنی چاہیےجنہوں نے بھوپال میں ہوئے اس ظلم کے
خلاف اپنے گھروں سے باہر نکل کر آواز ا ٹھائی ،ان کی آواز بھلے ہی ایوان
اقتدار تک نہ پہنچی ہو لیکن ہم تک ضرور پہنچ چکی ہے جب تک ہمارا ضمیر زندہ
ہے ایسے ہر ظلم کے خلاف ہمیں کم سے کم اپنی آواز ہی بلند کرتے رہنا چاہیے
۔سقوط اندلس و بغداد کے رونما ہونےکی وجہ جہاں حکمرانوں کی نااہلی اور عیش
پرستی دکھائی دیتی ہے وہیں بزدلی اور کم ہمتی کاسیاہ باب بھی ہمیں دکھائی
دیتا ہے ۔ہمیں اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ اگر دور زوال کی یہ تاریخ
دوبارہ دہرائی گئی تو ہمیں اپنے پروردگار کی رحمت سے بھی محروم ہونا پڑے
گا۔اللہ رب العزت ہمیں اس بات کی توفیق عطا فرمائے کہ ہم ظلم کو ظلم کہنے
میں باطل کی کسی طاقت سے خوف زدہ نہ ہوں۔ایک دن مرنا تو ہر کسی کے لیے طئے
ہے ،اسلیے کیوں نہ ایک خوش نصیب موت کی تمنا کی جائے۔ |