لوگ دودھ پی رہے ہیں یا زہر

 اس دور کا ایک اہم مسٔلہ اشیاء میں ملاوٹ ہے جس کی روک تھام کا مناسب انتظام نہیں ہو رہا اسلام ہرقسم کی ملاوٹ کے سخت خلاف ہے کیونکہ اشیاء کی ملاوٹ انسانی صحت کیلئے نقصان دہ ہے کئی قسم کی بیماریاں جنم لیتی ہیں ،نبی ٔ اکرم ﷺ کا فرمان ہے کہ "جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں "ہمارے ملک کی اکثر دوکانوں پر یہ فرمان لکھا ہے اور اس فرمان عالی شان کے نیچے بیٹھ کر ہم اس کی خلاف ورزی بڑے فخر سے کرتے ہیں ہمیں یہ خیال نہیں آتا کہ ہم اس نبی ﷺ کی امت ہیں جو تمام جہانوں کیلئے رحمت ﷺ،جن ﷺ کو دشمن بھی صادق اور امین کہتے تھے اور آج بھی کہتے ہیں ۔کیا ایک مسلمان کی حیثیت سے اسلام اور نبی ﷺ کے احکامات کا مذاق اٹھا کر ہم کامیاب ہو سکتے ہیں ہرگز ہرگز نہیں ،ذلت ورسوائی ہمارا ایسے ہی مقدر رہے گی جیسے آج ہے ۔مندرجہ بالا فرمان رسولﷺ پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اسلام کو ایک انسان کی صحت کس قدر عزیز ہے کہ جوعنصر انسانی صحت کے خلاف اقدام کرے اسے اسلام سے ہی خارج قرار دے دیا ہے ۔یہ ہے ایک عام انسان کی قدر اسلام کے نزدیک ۔۔۔۔مگر جس ملاوٹ سے لاکھوں انسانوں کی صحت تباہ ہو رہی ہے اس کا تدارک نہیں ہو پار رہا تقریباً سب اشیاء میں ملاوٹ جاری ہے ،ملاوٹ کرنے والے کون ہیں ؟ ان کے سرپرست کون ہیں؟ باخبر لوگوں کو سب معلوم ہے عملی اقدام کیوں نہیں ہو رہے اس کا بھی باخبر لوگوں کو علم ہے ؟اخباری سطح پر ملاوٹ کی تدارک کیلئے شتہاری مہم جاری ہے لیکن خاتمہ کیوں نہیں ہو رہا؟

دودھ اﷲ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے ۔اسے اﷲ کا نور کہا جاتا ہے احادیث کا مفہوم ہے کہ اگر کسی کو دودھ پیش کیا جائے تو اس کا انکار نہیں کرنا چاہیے اﷲ قرآن مجید میں فرماتے ہیں کہ ہم تمھیں خون اور گوبر کے ہوتے ہوئے خالص دودھ دیتے ہیں جس میں گوبر اور خون کی بو تک نہیں ہوتی ۔ دودھ انسانی صحت کیلئے بے حد مفید ہے ،دودھ کے بہت بے شمار فائدے ہیں ، آج کے دور کا ایک اہم مسٔلہ ملاوٹ شدہ دودھ ہے ،جس کا سلسلہ روکنے کا نام نہیں لے رہا ،محکمانہ سطح پر اقدام ہو رہے ہیں مگر ناکافی ۔۔۔ اخباری اشتہاری مہم ،دودھ کانفرنسز کا اہتما م کیا جا رہا ہے ،اشتہاری مہم میں ایک کی مثال دیتے ہیں ایک بھینس کے گلے میں کتبہ ڈالا گیا ہے جس کا مفہوم ہے کہ اﷲ نے مجھے خالص دودھ دیا تم اس میں ملاوٹ کرکے مجھے بدنام کیوں کر رہے ہو؟ ایسا اشتہار ایسے معاشرے میں کامیاب ہوتا ہے جہاں انتظامیہ خود اس کام میں ملوث نہ ہو ،جب اشتہار دینے والے اور اوپرایوانوں بیٹھے بڑے ذمہ داروں کا بڑا کاروبار ہی ملاوٹ پر مبنی ہو تو پھر ایسے اشتہار پر اثر ثابت نہیں ہو سکتے۔ ویسے بھی ہمارے معاشرے میں تعلیم کی کمی کے باعث بھی ایسی اشتہاری مہم کا گر ثابت نہیں ہوتی۔

ایک رپورٹ پیش کی جارہی ہے جو دودھ میں ملاوٹ کے حوالے سے ہے جو متعلقہ محکمے کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے ، دودھ کی پیداوار کے حوالے سے تحقیق یہ ہے کہ پنجاب میں روزانہ 4 لاکھ لیٹر دودھ حاصل ہوتا ہے جو لاہور فروخت کرنے کیلئے لایا جاتا ہے جبکہ اسے 80 لاکھ لیٹردودھ کیسے بنایا جاتا ہے؟ گوالوں کی جادو گری پر محکمہ لائیو اسٹاک بھی حیران وپریشان ہے کہ کونسا وہ جادو ہے جو 4لاکھ لیٹر دودھ کو 80 لاکھ لیٹربنا دیتا ہے۔76 لاکھ لیٹر دودھ بنانے کیلئے 20 فیصد پانی ہی نہیں ملایا جاتا بلکہ دودھ کو دودھیا بنانے کیلئے ہر قسم کے کیمیکلز کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے ۔جس سے عوام مہلک امراض کا شکار ہو رہے ہیں ۔تفصیلات کے مطابق پنجاب بھر سے روزانہ لاہور لائے جانے والے دودھ میں پانی اور کیمیکلز کا استعمال کرکے لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے ۔پنجاب بھر سے روزانہ لاہور لائے جانے والے دودھ کی مقدار 4لاکھ لیٹر تک ہوتی ہے مگر شہر بھر میں اسے روزانہ 80 لاکھ لیٹر تک بڑھا کر فروخت کیا جاتا ہے ۔لاکھوں لیٹر یہ دودھ کہاں سے آتا ہے ؟یہ دودھ ہوتا ہے یا کچھ اور ،متعلقہ محکمے اور ادارے چکرا گئے ہیں شہر میں لانے والے دودھ چند لاکھ لیٹر کی مقدار 20 گنا تک بڑھانے کے لئے صرف پانی ہی نہیں بلکہ دودھیا اور دودھ جیسا تاثر قائم رکھنے کیلئے ہر قسم کے کیمیکلز کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے ۔مضر صحت دودھ کی فروخت پر محکمہ لائیو اسٹاک بھی حیران وپریشان ہے ۔ماہرین کے مطابق اس میں یوریا کھاد ،سرف اور فارملین سمیت 19 قسم کے کیمیکلز سے تیار کیا جاتا ہے جس سے پیٹ کی بیماریاں اور کینسر جیسے امراض لاحق ہو رہے ہیں ۔(بشکریہ جرأت،لاہور 17 اکتوبر :2016)مندرجہ بالا رپورٹ ا س امر کا بین ثبوت ہے کہ زندہ دلان لاہور دودھ کے نام پر زہر پی رہے ہیں ۔جس سے لوگوں کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے ،گلی گلی محلہ محلہ کھولی گئی دودھ کی دوکانوں کے معیار کو چیک کیوں نہیں کیا ،اگر چیک کیا جا رہا ہے تو ان جرائم پیشہ انسانیت دشمن عناصرکا خاتمہ ابھی تک کیوں نہیں ہو سکا ؟ اس انکشاف کے بعد اداروں کو چاہیے کہ دودھ کے نام پر زہر فروخت کرنے والوں کے خلاف ہنگامی بنیادوں پر اقدام کریں تاکہ ان کا قمع قلع ہو سکے ۔ایسے عناصرکسی رعائیت کے مستحق نہیں ہیں جو عوام کی جانوں سے کھیل رہے ہیں ۔حکومت پنجاب سنجیدگی سے اس معاملے پر غور کرکے ایکشن لے۔٭٭ (نوٹ)غلام عباس صدیقی کایہ کالم بیک وقت ماہنامہ نظام حیات لاہور میں بھی شائع ہوتا ہے۔
 

Ghulam Abbas Siddiqui
About the Author: Ghulam Abbas Siddiqui Read More Articles by Ghulam Abbas Siddiqui: 264 Articles with 244030 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.