عالمی سطح پر اکثر ترقی پذیر ممالک میں لڑکیوں کو
لڑکوں سے کم تر سمجھا جاتا ہے۔ محض جنس کی بنیاد پر لڑکیوں اور لڑکوں میں
تخصیص و تفریق ، تعلیم کا حق نہ دینا، کم عمر لڑکیوں کا شادی کے نام پر
جنسی و جسمانی استحصال ،غیر متوازن غذااور قانونی حق و تحفظ نہ دینا وہ
عوامل ہیں جن کو مدّنظر رکھتے ہوئے، اقوام متحدہ کے کمیشن برائے حقوق
خواتین 19 دسمبر2011کے منعقدہ 55ویں اجلاس میں قرار داد پیش کی گئی کہ
لڑکیوں کا عالمی دن منانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ نے اس قرار داد
کی روشنی میں،رائے شماری کے بعد 11اکتوبر 2012کو لڑکیوں کا عالمی دن قرار
دیا۔ 2012 سے متواترلڑکیوں کا عالمی دن منایا جارہا ہے ۔اس سال بھی بین
الاقوامی سطح پر تمام ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ ترقی پذیر ممالک میں بھی یہ
دن منایاگیا۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں بھی اس حوالے سے ایونٹس اور
پروگرامز کا انعقاد کیا گیا لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں لڑکیوں کے عالمی
دن کے موقعے پر ادارہ سماجی بہبود ،محکمہ تعلیم اورتعلیمی اداروں پر بے حسی
کے بادل چھائے رہے اورا ن میں سے کسی نے بھی یہ زحمت گوارا نہیں کی کہ
عوامی سطح پر یا تعلیمی اداروں میں ایسے ایونٹس یا پروگرامز کا انعقاد کرتے
، عوا م اور لڑکیوں میں یہ شعور بیدار کرنے کی کوشش کرتے کہ لڑکیوں کے بھی
وہی حقوق ہیں جو کہ لڑکوں کے ہیں۔ لڑکیوں کے عالمی دن کے موقعے پرشایع شدہ
رپورٹ کے مطابق62 ملین لڑکیوں کی تعلیمی اداروں تک رسائی نہیں ہے۔5-14 سال
کی 160ملین لڑکیوں پر حد سے زیادہ گھریلو کام کا دباؤ ہے۔مزید یہ کہ گزشتہ
سال 60 ملین لڑکیوں کی کم عمری میں شادی ہوئی۔ان 60ملین کم عمر لڑکیوں میں
،پاکستانی کم عمرلڑکیوں کا تناسب 42 فیصد رہا۔24 فیصدکم عمر لڑکیوں کاتعلق
دیہاتی علاقوں سے اور18 فیصدکا تعلق شہری علاقوں سے تھا۔یہ ا عدا دو شمار
افسوسناک ہونے کے ساتھ حیران کن بھی ہیں کہ شہری علاقوں میں بھی کم عمر
لڑکیوں کی شادی کا تناسب 18فیصدکی سطح پر پایا جاتا ہے ،جہاں خواندگی کا
تناسب دیہی علاقوں سے زیادہ ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ عوام میں اس
شعور کی کمی ہے کہ لڑکیوں کے ساتھ بھی ویسا ہی برتاؤ کریں جیسا کہ لڑکوں کے
ساتھ کرتے ہیں۔لڑکیوں کو گھریلو کام کی مشین سمجھنے کی بجائے ان کو بھی
تعلیم کا حق دیں،لڑکیوں کو بھی دسترخوان پر اپنے ساتھ بٹھائیں نہ کے بچا
کچا کھاناا ن کی غذا بنے۔کم عمری کی ،زبردستی کی اور قرآن سے شادی جیسے
رسموں کی روک تھام کریں۔ پاکستان میں کم عمر لڑکیوں کی شادی کے بہت سی
رسمیں اور رواج ہیں۔سب سے قبیح اور قابل مذمّت رسم صوبہ سندھ میں ڈنڈ یا
باڈہ ،پنجاب میں ونی اور خیبرپختون خواہ میں سوارہ کہلاتی ہے۔ان رسومات کی
بنیاد کئی صدیوں قبل، قبائلی علاقوں سے پڑی۔جب قبائل آپس میں جھگڑے اور بات
خون خرابے تک جا پہنچی تو متحارب قبائل کے بڑوں نے جرگہ منعقد کیا اور
قصوروار قبیلے پر یہ جرمانہ عائد کیا کہ وہ اپنی کم عمر لڑکیاں ،متاثرہ
قبیلے کے مردوں کے نکاح میں دیں ،وہ وقت اور آج کا ترقی یافتہ دور، یہ
ظالمانہ اور قبیح رسومات کسی نہ کسی شکل میں ہمارے معاشرے میں تسلسل کے
ساتھ وقوع پذیر ہورہی ہیں۔ان رسومات کے خاتمے کے لیے ہمارے ملک میں قوانین
کی موجوگی کے ساتھ سزائیں بھی تجویز کی گئیں ہیں۔ بچوں کی کم عمری کی شادی
کی ممانعت کا قانون1929ء کی سب سے اہم اور دلچسپ بات یہ ہے کہ بانی پاکستان
قائداعظم محمد علی جناح نے یہ قانون ،برٹش انڈیا قانون ساز اسمبلی سے یکم
اکتوبر 1929ء کو اس وقت منظور کروایا تھا ،جب بذات خود وہ اس قانون ساز
اسمبلی کے رکن تھے ۔یکم اپریل 1930ء سے برٹش انڈیا میں اس قانون پر عمل کا
آغاز ہوا ۔اس وقت بھی یہ قانون نافذالعمل ہے گو کہ اس قانون کو پاکستان
پینل کوڈ310-A(1860)کے ذریعے تحفظ دیا گیا ہے۔اس قانون کی خلاف ورزی کرنے
والوں کو 3سے7سال تک قید کی سزا دی جاسکتی ہے 5لاکھ جرمانہ سزا کے علاوہ
ادا کرنا ہوگا۔498-Bاور498-Cباالترتیب زبردستی کی اور قرآن سے شادی کے لیے
سزائیں اور جرمانہ تجویز کرتے ہیں۔ آئین پاکستان کی شق25 ۔ (1) میں واضح
طور پر لکھا ہوا ہے کہ’’تمام شہری قانون کی نظر میں برابر ہیں اور قانونی
تحفظ کے مساوی طور پرحق دار ہیں‘‘۔ آئین پاکستان کی شق 25۔(2)کے مطابق ’’
جنس کی بنیاد پر کوئی امتیاز نہیں برتا جائے گا‘‘۔
اسی طرحــ25۔الف۔میں درج ہے کہ’’ریاست پانچ سے سولہ سال تک کی عمر کے تمام
بچوں کے لیے مذکرہ طریقہ پر جیساکہ قانون کے ذریعے مقرر کیا جائے مفت اور
لازمی تعلیم فراہم کرے گی‘‘۔
ان تمام قوانین کی موجودگی کے باوجودہمارے معاشرے میں بچوں ،بالخصوص لڑکیوں
سے محض جنس کی بنیاد پر تفریق پائی جاتی ہے۔تعلیم ، حق وراثت اور دیگر
قانونی حقوق سے محروم رکھنے کے علاوہ ، ہمارے معاشرے میں خواتین اور لڑکیوں
کوو ہ مقام بھی نہیں دیا جاتاجو ایک مہذّب معاشرے اور دین اسلام کا تقاضا
ہے ۔ زبردستی اور کم عمری کی شادی کی ممانعت قانون کے علاوہ ہمارے دین میں
بھی ہے لیکن افسوس کہ حکمراں اور عوام نہ دین پر چل رہے ہیں اور نہ قانون
کا احترام کررہے ہیں ۔
11اکتوبر کو لڑکیوں کاعالمی دن منانے مقصد یہی ہے کہ ہم بھی خواتین اور
لڑکیوں کے حوالے سے پائی جانے والی بے رخی اور بے حسی کے عالم سے باہر
نکلیں ،قانون اور دین اسلام نے جو حقوق خواتین اور لڑکیوں کو دیے ہیں اس کی
پاسداری کرتے ہوئے، خصوصاکم عمرلڑکیوں اور لڑکوں میں تفریق نہ کریں ان کے
ساتھ بھی وہی پیار و محبت کا رویّہ اپنائیں جیسا لڑکوں کے ساتھ روا رکھتے
ہیں۔ تعلیم جو کہ فی زمانہ ایک بنیادی اور اہم ضرورت ہے اس سے لڑکیوں کو
محروم نہ رکھیں۔ لڑکیوں کی شادی مکمل جسمانی نشونما اور بالغ ہونے کے بعد
کریں،اس طرح لڑکیوں کی خود اعتمادی میں بھی اضافہ ہوگااور وہ مستقبل میں
ایک مثبت اور مہذّب معاشرے کی تشکیل میں اپنا کردار بخوبی اداکرسکیں گی۔
|