میڈم نے اپنی کلاس میں بچوں سے پوچھا یقین
اور وہم میں کیا فرق ہے؟شاگرد نے جواب دیا میڈم آپ پڑھا رہی ہیں یہ یقین ہے
اور ہم پڑھ رہے ہیں یہ آپ کا وہم ہے۔کہا جاتا ہے کہ وہم کا کوئی علاج نہیں
ہے ۔ہمارے معاشرے کے اکثرو بیشتر افراد وہم کے شکار نظر آئے ہیں۔ہمارے یقین
جو در اصل ہمارے وہم ہیں ایک آسیب کی طرح ہمارے وجود پر مسلط ہیں۔اگر آپ کو
یقین نہیں آتا ہے تو چلیے ہمارے معاشرے میں ایک طائرانہ نظر ہی دوڑائیے۔آپ
کو ایسے لوگ بھی نظر آئیں گے جن کو یہ وہم ہوتا ہے کہ اگر ہم ہیں تو یہ
نظام ہستی قائم دائم ہے۔اگر ہم نہیں ہیں تو یہ نظام درہم برہم ہو جائے
گا۔چلیں زیادہ دور نہیں اگر محلے کے حاجی صاحب حضرات کی بات کرتے ہیں۔یہ
بات ٹھیک ہے اللہ تعالی نے حاجی صاحبان کو توفیق دی ہے کہ وہ اللہ کا گھر
دیکھ آئے ہیں۔لیکن اس کے بعد اپنے آپ کو گناہوں سے پاک صاف سمجھنا اور
دوسروں کو حقیر جاننے کا وہم پا ل لینا کہا ں کی عقل مندی ہے۔اگر حقیقت یہ
نہیں ہے تو جائیے مسجد میں اور دیکھیے پانچ وقت کے نمازیوں کی دلوں کی
حالت۔اگر نماز پڑھنے کے بعد کوئی حاجت مند اگر چندہ کی اپیل کرتا ہے تو
اگلی صف میں بیٹھے حضرات،جن میں کچھ حاجی صاحبان بھی شامل ہوتے ہیں ۔ان کے
تاثرات کچھ یوں ہوتے ہیں ۔سن لئی ہے تیری گل،چل ہون بیٹھ جا تھلے،قاری صاحب
تسی دعا کرواؤ(تمہاری بات سن لی ہے اب نیچے بیٹھ جاؤ ،قاری صاحب آپ دعا
کروائیں)۔ان کو اس بات کا وہم کا ہے کہ ہم تو پانچ وقت کے نمازی ہیں ،ہم نے
تو اللہ کا گھر دیکھا ہے،یہ کم ذات ہمیں بتائے گا کہ اللہ کی راہ خرچ کرنا
چاہیے یا نہیں ۔لیکن اگر ہم اپنے پیارے نبی ﷺ کی احادیث مبارکہ کا مطالعہ
کریں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ اگر کوئی سرخ اونٹ پر بیٹھ کر بھی آپ کے سوال
کرتا ہے تو آپ اسے خالی ہاتھ مت لوٹاؤ۔آپﷺ نے فرمایا ’’تم سے کامل مومن وہ
ہیں جو اخلاق میں سب سے اچھے ہیں‘‘۔کہاں ہے ہمارا خلاق ؟ایسی پانچ وقت کی
نمازوں کا کوئی فائدہ نہیں ہے جس سے ہم عاجزی نہ سیکھ سکیں ۔پہلی صف والوں
کے کو کیا کہنے ہیں لیکن وہم کے شکار ہمارے عالم صاحب بھی ہیں جو امامت کا
فریضہ سر انجام دے رہیں ہیں ۔انہوں نے کسی دینی درسگاہ سے اعلی تعلیم حاصل
کی ہے۔رسول اللہ ﷺ کے اسوہ حسنہ کا مطالعہ کیا ہے۔ اپنے جمعتہ المبارک کے
خطبوں کو یقیناً اس بات کو واضح کیا ہو گا کہ کسی کی بات تحمل سے سننا ،کسی
حاجت مند کی مدد کرنا بہت بڑی نیکی ہے۔امام صاحب کو اس بات کا وہم ہے کہ
میں نے خطبہ دے دیا تو میں پاک صاف ہو گیا۔میرا فرض تھا کہ لوگوں کو
بتانا،لیکن میری آنکھوں کے سامنے میری مسجد کے حاجی صاحب ایک حاجت مند کی
عزت مجروح کر رہے ہیں لیکن یہ چونکہ حاجی صاحب ہیں ،یہ مجھے تنخواہ دیتے
ہیں اگر میں نے ان کو اخلاقیات کا اب سبق دیا تو میری روزی روٹی بند کا
زریعہ ختم ہو جائے۔لیکن رزق توہمارا خالق مالک دیتا ہے۔صرف علم حاصل کر
لینے سے اور دوسروں کو بتا دینے سے ایمان مکمل نہیں ہو جاتا ۔جب تک آپ
حقیقت میں خود اس پر عمل کرکے نہیں دیکھاتے۔امر بالمعروف اور نہیں عن
المنکر پر پورے پورے عمل پیرا نہیں ہوتے۔ہمارے معاشرے میں بہت سے لوگ ایسے
ہیں جن کو لوگوں کے ساتھ ہمدردی کا وہم ہے۔یہ بات بالکل درست ہے کہ ہمدردی،
ایثارکا بہت اعلی درجہ ہے۔مگر جب ہمدردی صرف نام کی ہو تو ایسی ہمدردی کو
ہمدردی نہیں بلکہ ہمدردی کا وہم کہا جاتا ہے۔اس ہمدردی کی حقیقت میں آپ کے
سامنے واضح کرتا ہوں۔اس بیچاری ٹیچر کے ساتھ بہت نا انصافی ہوئی ہے۔پرنسپل
صاحبہ کو پہلے ایک مہینہ بتانا چاہیے تھا ۔ماں باپ کا سایہ شفقت اس کے سر
اٹھ چکا ہے۔وہ خود محنت کرکے اپنے اخراجات پورے کرتی تھی۔یہ ہیں وائس
پرنسپل کے ہمدردی کے الفاظ اس ٹیچر کے ساتھ جس کو بغیر نوٹس کے ڈسمس
(Dismiss) کر دیا گیا۔ایسی ہمدردی کا اس ٹیچر کو کیا فائدہ ۔خیر ان باتوں
میں ہمدردی تو کم تھی تو لفظ بیچاری کو کچھ زیادہ ہی استعمال کیا گیا
تھا۔اگر ہم کو ہمدردی تھی تو ہم سب ٹیچر متحد ہو کر پرنسپل صاحبہ کے پاس
جاتیں اور ان سے بات کرتی ۔اس طرح ٹیچر کو سکول سے نکال دینا بالکل ٹھیک
نہیں ،آپ کو ایک مہینہ پہلے نوٹس دینا چاہیے تھا ۔اگر نہیں تو ہم سب
احتجاجاًاستعفی دیتی ہیں۔لیکن کہاں !ہمارے سوچ پر وہم نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں
۔ہمدردی کے دو بول کہنا ہی ہمارے لیے کافی ہے۔باقی وہی ہماری روٹین ہے۔کسی
کو کچھ فرق نہیں پڑا۔All is well۔ |