اک بے وفا کا شہر ہے

گھرکی صفائی کے دوران ایک پرانی کیسٹ ہاتھ آئی جو دیکھنے میں تندرست لگی ،اسے ٹیپ ریکارڈر میں ڈالاتو ایک ایسا گیت سنائی دیاجس نے چند لمحات میں عشروں پر محیط ماضی کی خوبصورت وادیوں میں دھکیل دیا کہ واپسی پر بھی مدت تک دل پر اس سفرنامے کے اثرات نمایاں رہے اور من بوجھل رہا ۔دیس میں خزاں کا موسم آتے ہی روزمرہ معمولات بدل جاتے ہیں ساون کی بارشوں کی بندش کے ساتھ ہی سماء خوشگوار ہو جاتا ہے ’’اسوو‘‘ کا مہینہ ،فصل کٹائی کی تیاریاں ہو رہی ہیں راولاکوٹ’’ قصاب گلی‘‘ کی رونقیں بحال ہو گئیں یہ ابتداء سے لوہاروں اور ترکھانوں کے چھوٹے چھوٹے کارخانے اور زمینداروں کی ضرورت کی ایشا ء کا مرکز رہا ہے، دورافتادہ گاوٗں سے آئے زمیندار اپنے دوستوں سے ملتے ہیں محفلیں سجتی ہیں ان دنوں گلی میں واقع ’’چاچاعلی مہاند‘‘ کا ہوٹل’’ جو ان کے لئے کسی فائیوسٹار سے کم نہیں‘‘ میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ملتی ۔’’چاچا‘‘ واقعی بادشاہ آدمی ہے۔سارا سال ہم ہائی سکول والے انہیں تنگ کرتے ہیں اور ان دنوں توقیامت سی بھیڑ ہے ۔چائے بندھ،اوردال چاول ’’ہاف پلیٹ‘‘ مشہور ڈش ،کھائیں گے سب لیکن پیسے دیئے نہیں دیئے اس اﷲ کے بندے کو کوئی ’’بھار‘‘ نہیں ۔اس کے ماتھے پہ کبھی کسی نے شکن نہیں دیکھی اور کبھی نہیں سنا کہ اسے نقصان ہوا ہو۔یوں لگتا ہے یہ ہوٹل نہیں اس کا گھر ہے اور سب لوگ مہمان۔ ادھر کھیتوں کھلیانوں میں انوکھی رونقیں ہیں ایسا منظرشائد ہی دنیا کے کسی دیس میں ہوتا ہو ۔ پہاڑوں کی ڈھلوانوں میں بنائے گئے دل کو چھولینے والے کھیت اور ان میں رنگ برنگے لباس میں ملبوس بچے بوڑھے مردوزن یوں پھیلے ہیں جیسے آسماں سے ستارے اتر ائے ہوں ۔گاوں گاوں کے سینکڑوں کی تعداد میں لوگ اکٹھے ہو کر’’کہائی لگاتے‘‘ بالترتیب ایک دوسرے کی فصل و گھاس سنبھالتے ہیں خوشی غمی کا مل کر سامنا کرتے ہیں ،دوستویہ اس زمانے کی بات ہے جب گھر کچے اور لوگ سچے ہوا کرتے تھے ۔ہرکوئی ’’محبت ومروت‘‘کا چلتا پھرتا روپ ہوا کرتا تھا ۔سادہ سے کچے گھروں میں رہن سہن بھی سادہ تھا ۔ہر کوئی اپنے نصیب سے خوش ومطمعین تھا۔ ہماری زمینیں ہی ہماری پالنہار تھیں ،چائے پتی و چینی کے علاوہ ہر شے اپنی دھرتی ماں مہیا کرتی ۔گھروں میں گیہوں کی روٹی تبھی پکتی جب کوئی مہمان خاص ہوتا ۔سکولنگ کو ایک اضافی سا مسئلہ سمجھا جاتا تھا ۔فصل کٹائی بجھائی اور دوسرے زمینداری کاموں کے دوران کئی روز تک بلا جھجک سکول سے روک دیا جاتا ،اس زمانے کے طلبہ بھی بڑے مظلوم تھے صبح صادق سے پہلے اٹھ کر مال مویشیوں کے چائے پانی کا اہتمام کرنا ’’ہوم ورک ‘‘میں شامل تھاپھر خود کے لئے خودی چائے بنانی اور رات کی بچی ہوئی مکئی کی روٹی کیساتھ ناشتہ کر کے بستہ کندھے پررکھا اور سکول روانہ ہوگئے ۔ماؤں کو دن بھر مال مویشی کے ساتھ ساتھ کھیتوں میں کام کرنا ہے اس لئے دوپہر کا کھانا صبح سویرے ہی تیار کر لیا جاتا تھا ۔بچوں کو ہوم ورک نہ کرنے کی پاداش میں سکول اساتذہ کے ہاتھوں خوب خاطرمدارت ہوتی ۔سکول سے واپسی پر ٹھنڈی چائے سے صبح کا ٹھنڈا کھانا کھا کر سیدھے کھیتوں میں اپنے والدین کے پاس جا کران کا ہاتھ بٹاتے ۔عصر کے بعد مال مویشی سمیت تمام لوگ گھروں کو لوٹتے ۔پھر کھیتوں کے نکر پر فٹبال کی رونقیں ،اکثر پھٹے پرانے فٹبال میں کپڑے ٹھونس کر قابل استعمال بنایا جاتا۔پاوں مین جوتے نا ہونے کے باعث پیر زخمی اور شلواروں کے پانچے پھٹے ہوتے۔گولہ نما اس فٹبال سے کھیلتے رات ہو جاتی،تو وادیوں میں ماوٗں کی آوازیں گونجتی اور یوں سبھی گھروں کو لوٹتے ۔ماں چولہے کے پاس رونق افروز ہوتی اور سبھی اردگرد’’پیڑی کھیڑے ‘‘پر بیٹھ جاتے اورکھانا شروع ۔جونہی روٹی چولہے سے نکلتی اسے کیچ کر لیا جاتا ،گھی مکھن ،لسی،چٹنی،کڑم کی سبزی سے بھرپور ’’ڈنر‘‘پھر وہیں ایک محفل لگ جاتی ۔ساتھ میں بیک گراونڈ میں ریڈیو پر’’ دیس پنجاب پروگرام‘‘ اور ماں آنگن میں چارپائیاں سنوارتی ۔اس زمانے میں ریڈیو والا گھر آسودہ گھروں میں شمار ہوتا تھا سکول ہوم ورک نام کی کوئی چیز شیڈول میں ہی نہیں ۔کھانے سے فراغت کے بعدشغل مذاق اور ریڈیو پروگرام۔ہماری انٹرٹینمنٹ میں سب سے بڑی رکاوٹ تب ہوتی جب کوئی نوکری سے چھٹی آیاہوتا ۔چونکہ ہمارے زیادہ تر لوگ فوجی ہوتے تھے اس لئے ان کا ریڈیو پر قبضہ ہو جاتا اور عین گیت سنگیت کے وقت وہ بی بی سی کی اردو سروس سننے لگتے ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ریڈیو پر سینکڑوں سٹیشنز کی فریکونسیز کا مکسچر بن جاتا کانوں پڑھی آواز سنای نہ دیتی پھر بھی رات گئے تک اس سے جھگڑا جاری رہتاشائد کوئی گانا سننے کو مل جائے۔ وہ وقت آج بھی یاد ہے کہ گھر میں بڑے بھائی چھٹی آئے تھے اور بی بی سی شب نامہ سے فارغ ہوئے ،ریڈیو ہمارے قبضہ میں آیا تو ہم فوراً گانا شانا ڈھونڈنے لگے جلد ہی محمد رفیع کا جو وعدہ کیا وہ نبھانا پڑھیگا۔اسے ٹیون کرنے کی کوشش میں تھوڑی سوئی گمائی تو۔۔یہ وادیاں یہ پربتوں کی شہزادیاں ۔۔مذید ہلائی تو پنچھی بنوں اڑتی پھروں۔۔۔لیکن سب چینلز ایک دوسرے سے یوں گتھم گتھاہوئے تھے کہ کان پڑھی آواز سنائی نہ دیتی ۔اتنے میں کہیں سے ملکہ ترنم نورجہان کی مدھر آواز گونجی ! اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو۔ ۔پوری توانائی خرچ کرتے لڑجھگڑ کر اس گانے کا کچھ حصہ سن پائے تو کچھ اطمینان ہوا۔ آج عشروں بعد اس گانے کے چند اشعار سماعت سے ٹکرائے تو ہمیں اپناو ہ بیتازمانہ یاد آگیا۔آہا۔۔۔نہ جانے کہاں گئے وہ دن وہ ہمارا خوبصورت دیس پیارکرنے والے لوگ اور پیاراشہرجو ہم سے پیار کرتا تھااور ہم بھی اس پر جان چھڑکتے پل پل مرتے۔اس کے کھیت کھلیان گلی محلے باغ باغیچے جھیل جھرنے اوروہ خوبصورت نظارے ہم سے کیو ں خفا ہوئے ، اسقدر دوریاں کیسے بڑھیں ،بے وفاکون ہوا ،کون رقیب ٹھہرے؟ کون ہیں جنہوں نے برسہا برس نسل درنسل چاہنے والوں کو اپنے محبوب وطن سے اس کی خوبصورت فضاوں و بہاروں سے دوررہنے پر مجبور کر دیا کون ہیں جنہوں نے دیس باسیوں کو ملکوں ملک ہجروفراق میں جینے پر مجبور کر دیا؟ اس ایک سوال کے جواب کی تلاش میں کہ ہم ’’کون ہیں‘‘ چھ لاکھ سے زائد لخت ہائے جگر قربان ہوگئے،ستربرسوں سے ہمارا بس ایک مطالبہ رہا کہ دنیا کے منصفو ہماری محبت ہمیں لوٹا دو، ہمارے خواب ہماری آزادی لوٹا دو، لیکن ہماری مظلومیت ومحکومیت کی صدا اقوام عالم کے کان تک شائد اس لئے نہ پہنچ سکی کہ ہماری آواز قدیم زمانے کے اس ریڈیو کے جیسی ہے جس میں سامعین سمجھ ہی نہیں پا رہے کہ گانا کون سا چل رہا ہے اور یہ چینل کون سا ہے ؟ رنگون ، آکاش وانی ، ریڈیوسیلون ہے، ویبت بھارتی یا ریڈیو جموں کشمیر ؟۔۔۔بس اک بے وفا کا شہر ہے اور۔۔۔ ہم ہیں دوستو !
Niaz Ahmed
About the Author: Niaz Ahmed Read More Articles by Niaz Ahmed: 98 Articles with 74866 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.