ہماری پہچان ہمارا دین

اللہ پاک تو ستّر ماوں سے زیادہ محبت کرتا ہے اس لیے دین کے لیے اتنا ہی کافی ہے ہم نے کلمہ پڑا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے جو بھی کلمہ پڑھتا ہے وہ جنت میں جائے گا کیا اس کی مثال اس جیسی نہیں ہے جو یہ کہے کہ میں بہت ہی اعلی سکول میں داخلہ لی لیا ہے اس لیے میں اب گریجویٹ ہو ہی جاوں گا کیا داخلہ لے لینا ہی کافی سکول کالج میں یا اس کے قوانین پر بھی عمل کرنا ہوتا ہے یونیفارم بھی پہننا ہو گا اور پیرید بھی سارے اٹینڈ کرنے ہونگے جو پیریڈ چھوٹ جائے گا تو اساتذہ کی باز پرس کا جواب بھی دینا ہوگا ؟
بسم اللہ الرحمان الرحیم محمد فاروق حسن کی طرف سے اہل پاکستان کے نام اور سلامتی ہو ان پر جو راہ ہدایت کے پیروکار ہیں

مسلمان کی پہچان حدیث مبارکہ کے مطابق یہ ہے کہ مسلمان نماز پڑھتے ہیں اور زکواۃ ادا کرتے ہیں اور قرآن وحدیث پر ایمان لاتے ہیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت گزار ہوتے ہیں اللہ رب العالمین کا فرمان ہے

واقیمو الصلوۃ واتوالزکوۃ ۔۔۔۔۔۔۔ القرآن : اور نماز قائم کرو اور زکواۃ ادا کرو سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ اللہ کا حکم ہے کہ نماز قائم کرواور زکواۃ ادا کرو یہاں قائم کرنے سے مراد ہے کہ جیسے قیام امن یعنی امن قائم کرنا اور امن قائم کرنا حکمرانوں پر فرض ہے حکمران کس طرح سے امن وامان قائم کرتا ہے ظاہر ہے عدل وانصاف کے ذریعہ سے اور عدل وانصاف کیسے قائم کرتا ہے ظاہر ہے کہ حکمران حکم جاری کرتا ہے سب لوگ قانون پر عمل درامد کریں جو قانون کو توڑے گا اس کو سزا ملے گی اور سزا سے بچنے کے لیے رعایا قانون پر عمل درامد کرتی ہے جو قانون پر عمل نہیں کرتا وہ امن وامان کو قائم کرنے میں مداخلت کرتا ہے اور وہ قابل دست درازی ء پولیس مجرم قرار پاتا ہے

اسی طرح سے اللہ نے نماز قائم کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ مسلمان حکمران ملک میں یہ حکم جاری کرے کہ ہمارے ملک کا قانون اسلامی ہے اس لیے اللہ کے حکم کے مطابق نماز ادا کرنا سب مسلمانوں پر لازم ہے جو شخص نماز ادا نہیں کرے گا اس کو سزا ملے گی جو بھی نماز ادا نہیں کرے گا وہ نماز کے قائم کرنے میں مداخلت کا مرتکب ہورہا ہے اور وہ قابل دست درازی ء پولیس مجرم قرار پائے گا اور اس کو پکڑ کر لے جائے گی یا وہیں اس کو سزا دےدی جائے گی تاکہ سب لوگ آگاہ ہوجائیں کہ جو بھی نماز ادا نہیں کرے گا اس کو پولیس سزا دے گی

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ مسلمان اور کافر میں فرق نماز کا ہے یعنی نماز مسلمان کی پہچان ہے اور جو کافر مسلمانوں کی اس پہچان کو مسخ کرنے کوشش کرے گا وہ بھی مجرم ہوگا مثال کے طور پر کوئی کافر یہودی ہندو عیسائی مجوسی یا کیمونسٹ بے دین مسجد میں بغیر اسلام قبول کیے ہی چلا جائے اور نماز ادا کرے اور قرآن پاک کی تلاوت کرے وہ در حقیقت شعائر اسلامی کا مذاق اڑاتا ہے اس لیے وہ بھی قابل دست درازی ء پولیس مجرم ہے اور پولیس پر لازم ہے کہ اس کو سزا دے کیوں کہ یہ معاملہ بھی نماز کے قائم کرنے میں مداخلت کا ہے کیوں کہ نماز مسلمان کی پہچان ہے

نماز کو قائم کرنے سے مراد ہے کہ حکمران نماز کو ادا کرنے کا حکم دے اور رعایا نماز کو سیکھے اور اپنے اہل وعیال کو سکھائے نماز کو ادا کرے اور اپنے اہل وعیال سے نماز ادا کرائے چنانچہ چاہے کوئی وزیر ہو گورنر ہو یا شھر کا حاکم ہو یا ناظم ہو چاہے کسی سرکاری یا غیر سرکاری ادارے کا سربراہ ہو اس پر لازم ہے کہ وہ اپنے ماتحت تمام لوگوں سے نماز کی پابندی کرائے اگر وہ تمام لوگ اس کی بات نا مان کر نماز کی ادائیگی میں کوتاہی کریں تو ان کو سزا دی جائے اگر پھر بھی نا مانیں تو ان کو پولیس کے حوالے کردیا جائے کیوں کہ اللہ کا فرمان ہے کہ اے ایمان والوں اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو جھنم کی آگ سے بچاو جس کا ایندھن پتھر اور انسان ہوں گے اس لیے اگر جھنم کا ایندھن بننے سے بچنا ہے تو اپنے ماتحت لوگوں کو بھی اور اپنے اہل وعیال کو بھی نماز کا پابند بنائیں

نماز ہماری سب مسلمانوں کی پہچان ہے شناخت ہے نماز کو قائم کرنے سے یہ بھی مراد ہے کہ اپنی شناخت کو قائم کیا جائے شناخت صرف شناختی کارڈ سے ہی نہیں ہوتی بلکہ مسلمانوں کی اصل شناخت یہ ہے کہ مسلمان نماز پڑھتے ہیں یہاں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ کونسی نماز پڑھیں ہنفیوں والی نماز پڑھیں یا وہابیوں والی یا شیعوں والی نماز پڑھیں یا صوفیوں والی نماز پڑھیں یا بریلویوں والی میں یہاں یہ مثال بیان کرنا چاہوں گا کہ آپ مسلمانوں کے گھر میں پیدا ہوئے ہیں آپ کو قرآن وحدیث سے جو نماز ثابت ہے اس طریقہ سے نماز پڑھنی چاہیے کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس طرح نماز پڑھو جس طرح مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم نے نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا اور احادیث کی صورت میں محفوظ کر دیا ایسے سوال اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب انسان قرآن وحدیث کی تعلیم حاصل نا کرے حالانکہ جب آدمی نماز پڑھتا ہے اور دن میں پانچ بار نماز پڑھتا ہے اور مسجد میں دن میں کئی بار جاتا ہے تو اس کو نماز کے بارے میں بہت ساری باتیں معلوم ہوجاتی ہیں

میں تو کہا کرتا ہوں کہ جو آدمی باقاعدگی سے نماز پڑھتا ہے اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے لائق اور قابل اور ہونہار سٹوڈنٹ کی مثال ہے جو روزانہ ہر پیریڈ میں حاضر رہتا ہے کیوں کہ نماز میں بھی اتنا ہی وقت لگتا ہے جتنا کسی سکول کالج یا یونیوسٹی کے ایک پیریڈ میں وقت لگتا اور آزما کر دیکھ لیں باقاعدگی سے نماز پڑھنے والے کوتعلیم بھی اتنی ہی حاصل ہوتی ہے جتنی سکول کالج یا یونیورسٹی میں پیریڈ اٹینڈ کرنے والے سٹوڈنٹ کو حاصل ہوتی ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ اور بہتر نتائج نکلتے ہیں رہی بات ہنر اور مہارتیں حاصل کرنے کی تو اس کواسلام میں سارے مذاہب سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے جو سٹوڈنٹ سکول میں حاضر ہی نہیں ہوتا یا سکول کے قوانین کو فالو ہی نہیں کرتا اور یونیفارم ہی نہیں پہنتا اس نے امتحانات میں خاک پوزیشن لینی ہے بلکہ ایسے سٹوڈنٹ کو نااہل قرار دے کر چلتا کر دیا جاتا ہے جو یہ کہے کہ میں بہت ذہین ہوں میں تمام اسباق یاد کرلیتا ہوں اچھے مارکس لیتا ہوں لہذا میں یونیفارم نا بھی پہنوں تو کوئی ہرج نہیں ہے میچنگ کیپ یا شوز نا بھی پہنوں تو کیا ہرج ہے کوئی بھی سکول اس کی اس دلیل کو نہیں مانے گا ایسے سٹوڈنٹ کو سکول میں داخلہ ہی نہیں دیا جائے گا

تو کیا کبھی ہم نے یہ بھی سوچا ہے کہ ہم اگر اسلام کی بنیادی چیزوں کو اور قوانین کو نہیں مانیں گے تو اللہ تعالی ہمیں اسلام میں داخلہ عطا فرمائے گا ہم یہ کہیں کہ ہم داڑھی نا بھی رکھیں گے تو کیا ہرج ہے ہم اسلامی پردہ نا بھی اختیار کریں گے تو کیا ہرج ہے ہم جیسے بھی ہیں مسلمان ہیں ہم اللہ کی عبادت کرتے ہیں اور مسجد میں جاکر ٹکریں نہیں بھی مارتے تو کیا ہرج ہے ہم حق حلال کی کمائی کرتے ہیں اور اپنے مان باپ کی خدمت کرتے ہیں اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پالتے ہیں اور اللہ اللہ تے خیر سلہ اللہ نے حقوق العباد کو معاف نہیں کرنا اپنے حقوق اللہ معاف کر دے گا اللہ پاک تو ستّر ماوں سے زیادہ محبت کرتا ہے اس لیے دین کے لیے اتنا ہی کافی ہے ہم نے کلمہ پڑا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے جو بھی کلمہ پڑھتا ہے وہ جنت میں جائے گا کیا اس کی مثال اس جیسی نہیں ہے جو یہ کہے کہ میں بہت ہی اعلی سکول میں داخلہ لی لیا ہے اس لیے میں اب گریجویٹ ہو ہی جاوں گا کیا داخلہ لے لینا ہی کافی سکول کالج میں یا اس کے قوانین پر بھی عمل کرنا ہوتا ہے یونیفارم بھی پہننا ہو گا اور پیرید بھی سارے اٹینڈ کرنے ہونگے جو پیریڈ چھوٹ جائے گا تو اساتذہ کی باز پرس کا جواب بھی دینا ہوگا

اگر ہم سچے اور ایماندار مسلمان ہیں تو ہمیں نماز قائم کرنی ہوگی اور اپنے اندر سے کرپشن ختم کرنی ہوگی جتنے بھی چینل ہیں ان میں یہی خبر ہوتی ہے کہ کرپشن بہت ہے خاتمہ ناممکن ہے تو جو لوگ کرپشن کرتے ہیں ان کو کیسے روکا جاسکتا ہے ملک ترقی کی بجائے تنزلی کی طرف جارہا ہے ہم تباہی کے دھانے پر ہیں ان باتوں سب اقرار بھی کرتے ہیں اور اپنے آپ کو مجرم بھی نہیں مانتے کیا جو 90 فی صد کرپشن کرتے ہیں کیا وہ مجرم نہیں ہیں یہ سب سکولوں میں کالجوں میں پڑھے ہوتے ہیں لیکن کرپشن میں سب ملوّث ہوجاتے ہیں اس کا صاف مطلب ہے کہ سکولوں میں کالجوں میں کرپشن سے بچنے کی تعلیم ہی نہیں دی جاتی اور نماز قائم کرنے سے انسان کو ہر قسم کی تعلیم حاصل ہوتی ہے بلکہ نماز گناہوں سے بھی روکتی ہے

ہنر اور مہارت جو ہے اس کے لیے اپنے بچے کو کام سکھانے کے لیے کسی اچھے سے استاد کے حوالے کریں جو کام بھی سکھائے اور ہنرمند بھی بنائے اور کام کرنے کی تنخواہ بھی دے سب سے بہتر ہے کہ سکولوں اور کالجوں میں اسلام اور جہاد کی تعلیم و تربیت دی جائے اسلامی کھیل کھلائے جائیں اور اسلحہ کی تربیت دی جائے کیوں کہ مسلمان کے لیے سب اہم چیز یہ ہوتی ہے کہ وہ اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنا اور اس کے لیے قرآن و حدیث کی تعلیم ضروری ہے ہمیں اچھی طرح یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنا امریکہ اور اس کی اقوام متحدہ کی اطاعت سے زیادہ آسان ہے اللہ ہم سب کو سمجھ اور عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین
محمد فاروق حسن
About the Author: محمد فاروق حسن Read More Articles by محمد فاروق حسن: 40 Articles with 49847 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.