طلاق یا سمجھوتہ

ماں باپ کی لڑائی میں بچوں کا کیا قصور
میاں بیوی کا رشتہ ایسا ہے کہ اگر انسان آنکھیں بند کر کے ایک دوسرے کے ساتھ چلے تو پوری عمر خوشی سے چل سکتا ہے۔ لیکن اگر شک کی دیوار حائل ہو جائے تو پھر ایک قدم بھی آگے بڑھانا مشکل ہو جاتا ہے۔ یہ رشتہ اعتبار اور اعتماد کا ہوتا ہے۔ اگر ایک دوسرے پر سے اعتبار اٹھ جاتا ہے تو پھر کچھ بھی باقی نہیں بچتا۔ ایک ایک لمحہ اذیت میں گزرتا ہے۔ خاوند کا اعتبار اور اعتماد ہی عورت کو مضبوط بناتا ہے، ورنہ وہ ٹوٹ کر بری طرح بکھر جاتی اور اسی طرح بیوی کا اعتبار اور اعتماد ہی مرد کو مضبوط بناتا ہے جس سے گھر کی دیگر ذمہ داریوں پربہت گہرا اثر پڑتا ہے۔ دیکھا جائے تو ہزاروں لوگ اپنے کاروبار زندگی کے سلسلے میں ملک سے باہر یا اپنے ہی ملک میں دور دراز علاقوں میں ملازمت کرتے ہیں ۔ کئی کئی مہینوں بلکہ کئی کئی سال تک ایک دوسرے سے نہیں مل پاتے، اس کے باوجود ایک اعتبار اور اعتماد ہوتا ہے، جس کے ذریعے وہ دونوں اتنی دوری برداشت کرتے ہیں اور خوشی خوشی ہر تکلیف سہہ لیتے ہیں ۔ اعتماد ایک ایسی چیز ہے جو نہ پاس رہنے سے ہوتا ہے نہ دور جانے سے ٹوٹتا ہے۔ میاں بیوی کے رشتے کی بنیاد ہی اعتبار پر رکھی گئی ہے۔ یقین اور بھروسہ اس رشتے کو اتنا مضبوط بنا دیتا ہے کہ کوئی اگر توڑنا بھی چاہے تو نہیں توڑ سکتا۔ لیکن جب میاں بیوی کے درمیان کوئی تیسرا شخص آجاتا ہے تو اس رشتے کی جڑیں کمزور ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ اعتماد کی دیواریں گرنا شروع ہو جاتی ہیں اور پھر اس سے بڑے بڑے نقصان اٹھانے پڑ جاتے ہیں ۔ یہ نقصان صرف متعلقہ شخص کا نہیں ہوتا، بلکہ اس کی لپیٹ میں پورا گھر بلکہ میں یوں کہوں گا پورا خاندان آ جاتا ہے۔ وہ بھی ایک نہیں دو دو یوں بھروسہ اور یقین شک میں بدل جاتا ہے۔ یہ شک کیوں اور کیسے ہوتا ہے؟۔ اس کی ایک بڑی وجہ رویے میں تبدیلی ہے، بلاوجہ کی تنقید ہے۔ اگر کوئی مرد کسی بھی دوسری عورت کی طرف راغب ہے تو اس کے رویے میں فوراً تبدیلی آ جائے گی۔ گھر کی طرف سے رفتہ رفتہ اس کی توجہ ختم ہوتی جائے گی ۔ بیوی کے ساتھ ہر وقت لڑنے مرنے کے لیے تیار رہے گا ۔ کل تک جو بیوی کی خوبیاں تھیں وہ اس کو برائیاں نظر آئیں گی ۔ بے زاری اس کے چہرے پر نمایاں رہے گی۔ جبکہ بیوی بے چاری شوہر کی اس بے زاری کو کام کی زیادتی سمجھ کر اس کی خدمت میں لگی رہتی ہے۔ لیکن یہ صورتِ حال زیادہ دیر تک نہیں چلتی، جب معاملہ حد سے تجاوز کر جاتا ہے تو بیوی کے کان کھڑے ہو جاتے ہیں اور جب شوہر سے پوچھ گچھ کرنے پر شوہر صاحب گھر میں طوفان پربا کر دیتے ہیں کہ بیوی اس پر خواہ مخواہ میں شک کر رہی ہے۔ حالانکہ یہ بات حقیقت ہے کہ ایک عورت اگر پوری ایمانداری کے ساتھ گھر بار کوسنبھال رہی ہو، بچوں کو پال رہی ہو، آپ کے دکھ سکھ میں شریک ہو تو پھر وہ یہ زیادتی ہر گز برداشت نہیں کرے گی ۔ ہو سکتا ہے ایسی صورت میں کوئی نقصان کر بیٹھے۔ جس کی سینکڑوں مثالیں ہمارے معاشرے میں موجود ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس سے پہلے گھر کا شیرازہ بکھرے۔ ایک ایسا گھر کہ جس کو محبت کی بنیاد پر بسایا گیا ہو، اس کی ایک ایک چیز کو عمر بھر کے لئے محفوظ کیا گیا ہو ۔ زندگی بھر ایک ساتھ بیتانے کے وعدے کئے تھے کیا یہ رشتہ اس قدر آسانی سے توڑ دیا جائے گا ؟ ازدواجی زندگی میں عقل و شعور اور ساتھ میں صبر و تحمل سے کام لینا انتہائی ضروری ہے۔ بیوی اگر کسی بھی غلط فہمی میں مبتلا ہے تو شوہر کا فرض ہے کہ اس کا شک دور کرے، بیوی اگر ضدی ہے اور اُس کے کان کوئی تسرا بھر رہا ہے اور ہیوی بجائے اپنے خاوند کے کسی تسرے فرد کی بات زیادہ توجہ دے کر اپنا ہی بیڑہ غرق کر رہی ہو بجائے اس کے کہ دونوں ایک دوسرے سے جھگڑتے رہیں اور بات بگڑ جائے۔ اگر خاوند کے دل میں کوئی چور نہ ہو گا تو کبھی بھی بات کو الجھائے گا نہیں اور بد گمانی کو دور کرنے کی کوشش کرے گا۔ لیکن اگر اس میں ذرا بھی ٹیڑا پن ہوا تو کبھی بھی سیدھے طریقے سے بات نہیں کرے گا۔ جھوٹ پر جھوٹ بولتا جائے گا۔ عورت بھی شوہر پر الزام لگانے سے پہلے اچھی طرح جانچ پڑتال کر لے کہ آیا وہ جو کچھ کہہ رہی ہے سچ ہے کہ نہیں۔ لیکن ان باتوں کے لیے صبر و تحمل اور برداشت کی اشد ضرورت ہے۔ ورنہ ہوسکتا ہے معاملہ اور بگڑ جائے ۔ اور پھر بگڑتا جائے گا اور دونوں یعنی میاں اور بیوی کو معمولی معمولی باتیں بھی بری لگنے لگتی ہے بعض اوقات انسان غصے میں اس حد تک چلا جاتا ہے کہ وہ اپنا گھر بھی برباد کر بیٹھتا ہے اسی لیے کہا گیا ہے کہ غصے پر قابو پاؤ اور کبھی بھی اپنا گھر چھوڑ کر یا جلد بازی کوئی بھی فیصلہ نہ کریں اِسی لیے کیونکہ بعد میں پچھتانا نہ پڑے۔ اس بات کا اندازہ فیملی عدالتوں میں جا کر ہوتا ہے جہاں پر معمولی غصے نے کتنے گھر برباد کر دیئے ان کے بچے عدالتوں کے کٹہرے میں کھڑے والدین کو دیکھ کر پوچھتے ہیں کہ ہمارا کیا قصور ہے؟ ہمارے سکول جانے کے دن تھے ہمیں عدالتوں میں لا کر کیوں کھڑا کر دیا گیا ۔ ہمیں کیوں اپنے مسائل اور غصے کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ ماں اور باپ کے پاس کھڑے بچوں کی گھورتی نگاہوں کا سوال ان کے پاس نہیں ہوتا ۔ غلطی دونوں میں سے کسی کی بھی ہو لیکن ان کے اختلافات بچوں کی زندگیوں پر برا اثر چھوڑ رہے ہیں۔ زیادہ تر طلاق کے دعووں میں زیادہ تر خواتین کا مردوں پر الزام ہے کہ وہ بات بات پر تشدد کرتا ہے ،خرچا مانگتی ہوں تو اسے گھر سے نکال دیتا ہے، ایسی صورت میں وہ خاوند کے ساتھ نہیں رہ سکتی اس کو طلاق دلوائی جائے۔ گارڈین عدالتوں میں والدین کی طرف سے بچے کے حصول کے دعوے دائر ہیں دونوں کی خواہش ہے کہ بچہ ان کے پاس رہے۔ دونوں بچوں کی کھینچا تانی میں لگ جاتے ہیں اور بچے ان کے جھگڑے میں رولنگ سٹون بنے ہوئے ہوتے ہیں۔ایسے بچے جن کو ماں یا باپ دونوں میں سے ایک کی شفقت نہ ملے وہ بچے اس معاشرے میں احساس محرومی کا شکار رہتے ہیں ۔ یہ احساس محرومی ساری زندگی ان کے دلوں سے نہیں نکلتی شادی کا بندھن زندگی بھر کا ہوتا ہے اس سے انسان کی نسل چلتی ہے اسی لیے کہا جاتا ہے کہ شادی میں والدین کی رضا مندی کو شامل کرنا ضروری ہے ۔

اس کے لیے دور کی پلاننگ کرنا ہوتی ہے شادی دونوں میاں بیوی سے نہیں ہوتی بلکہ شادی ملاپ ہے دو گھرانوں کا ۔ جب بڑوں کے فیصلے چھوٹے کرنے لگیں تو نقصان ہی نقصان ہوتا ہے یہ کام والدین کا ہوتا ہے انہی کو کرنا چاہیے جذباتی فیصلہ کرنا اپنے لیے بھی نقصان دہ ہوتا ہے اور آنے والے بچوں کے لیے بھی پریشانی کا باعث بنتا ہے بعض دفعہ اپنی پسند کی شادی اپنے لیے بڑے مسائل پیدا کر دیتی ہے اور جب اختلافات کی صورت میں کوئی برا وقت آتا ہے تو کوئی ان کے ساتھ کھڑا نہیں ہوتا۔ فیملی عدالتوں میں زیادہ تر ایسی خواتین کے طلاق کے دعوے دائر ہیں جنہوں نے مرضی سے شادی کی بعد میں اختلافات پر خلع کی بنیاد پر طلاق کا دعویٰ دائر کر دیا ایسی خواتین تنہا عدالتوں میں اپنی جنگ لڑتی نظر آتی ہیں۔ پھر یہ خواتین کہتی ہے کہ انہوں نے محبت کے جذبے میں جو قدم اٹھایا وہ غلط تھا۔ ایک سنی سنائی بات ہے کہ ایک سول عدالت میں طلاق کے ایک دعوے پر ڈگری جاری کرتے ہوئے سول جج نے لکھا کہ دونوں میاں بیوی نے والدین کی مرضی کے بغیر شادی کی ، لڑکے کے والدین نے اس کی بیوی کو قبول نہیں کیا وقتی طور پر لڑکے نے الگ مکان لیا لیکن بعد میں اخراجات بڑھ گئے۔ بچہ پیدا ہونے پر یہ اختلافات مزید بڑھ گئے۔ کیونکہ لڑکا اخراجات برداشت نہیں کر سکتا تھا اس نے عدالت میں کہا وہ خرچہ پورا نہیں کر سکتا ۔ لڑکی کا کہنا ہے کہ اس سے غلطی ہو گئی ۔اس کو معلوم نہیں تھا کہ والدین کی مرضی کے بغیر اٹھایا یہ قدم اس کو بربادی کی طرف لے جائے گا۔ لڑکی کیونکہ گھر آباد ہونا نہیں چاہتی اور محنت مزدوری کر کے بچے کا خرچہ پورا کرنا چاہتی ہے اسی صورت میں عدالت لڑکی کو خلع کی بنیاد پر طلاق کی ڈگری جاری کرتی ہے۔ باپ اپنی استطاعت کے مطابق بچے کو ماہانہ خرچہ دے گا۔ بچہ سات سال سے کم عمر کا ہے لہٰذا ہفتہ کے چار دن یہ ماں کے پاس رہے گا۔ اور دن جمعہ شام سے لے کر اتوار شام تک یعنی تین دن اپنے باپ کے پاس اِس طرح یہ بچہ باپ کی شفقت سے چار دن کے لیے محروم ہو گیا یہ بچہ جو باپ کے بغیر اپنے باقی دن کاٹے گا اس کا مستقبل کیا ہو گا ۔ یہ ایک بچہ نہیں عدالتوں میں چلنے والے بے شمار کیس ایسے ہیں جن میں بچوں کے مستقبل سوالیہ نشان بنے ہوئے ہیں ۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ عدالتوں میں طلاق کے لیے آنے سے پہلے بچوں کے مستقبل کو بھی سامنے رکھنا چاہیے وہ تو ایک دوسرے سے طلاق کے بعد الگ ہو جائیں گے لیکن ان کے بچوں کا مستقبل کیا ہو گا ؟؟

شاہد کے اُتر جائے کسی کے دل میں میری بات

آخر میں ہمیشہ کی طرح وہی ایک بات آپ مُجھے اور میری فیملی اور جتنے بھی میرے چاہنے والے ہیں آپ اپنی دُعاؤں میں ضرور یاد رکھیں اور میں آپکو اپنی دُعاؤں میں

آخر میں دُعایہ شعر

‏ﻣُﺠﮭﮯﮐﺮ عطاء ﺍﮮﻣﯿﺮﮮﺍﻟﻠﻪ _______ ﺗﻮُ ﺑﮩﺖ ﺑﻨﺪ منوان ﮨﮯ
ﻣﯿﺮﯼ ہر ﺻﺒﺢ ﻣﺤﺘﺎﺝ ﮨﮯ __ ﺗﯿﺮﯼ ﺭﺣﻤﺘﻮﮞ کے نزول کی

اللہ حافظ
آَمِيّـٍـِـنْ...آَمِيّـٍـِـنْ...... آَمِيّـٍـِـنْ يَآرَبْ آلٌعَآلَمِِيِنِ
Mohammed Masood
About the Author: Mohammed Masood Read More Articles by Mohammed Masood: 62 Articles with 178247 views محمد مسعود اپنی دکھ سوکھ کی کہانی سنا رہا ہے

.. View More