مینی پولیشن

ہر انسان ہیرا پھیری نہیں کر سکتا کیونکہ اس کام کیلئے ذہانت کے علاوہ ہر سوال کے جواب کا پہلے سے تیار رہنا ضروری ہوتا ہے کئی لوگ کوشش کرتے ہیں لیکن مات اسلئے کھا جاتے ہیں کہ جواب نہیں بن پڑتا تو آئیں بائیں شائیں کرنا شروع کر دیتے ہیں کالم کو عام باتوں میں ضائع کرنے کی بجائے اصل موضوع پر لکھتا ہوں ،اردو میں ہیرا پھیری ،دھوکا بازی اور انگریزی میں مینی پولیشن کہا جاتا ہے ۔انسانی نفسیات کو سمجھنا آسان نہیں ماہرپروفیسر بھی کبھی کبھی دھوکا کھا جاتے ہیں کیونکہ انسانی دماغ جسم کا ایسا حصہ ہے جو ہر سیکنڈ میں ایک نئی سوچ پیدا کرتا ہے ہر لمحے دماغ کے اندر کچھ نہ کچھ گردش کرتا رہتا ہے اور یہ ہی وہ عمل ہوتا ہے جب روز مرہ زندگی میں انسان کو اپنے معاملات حل کرنے کیلئے اس نفسیاتی عمل یعنی ہیرا پھیری کا سہارا لینا پڑتا ہے،نفسیاتی نقطہ نظر سے اسے مینی پولیشن کہا جاتا ہے ،کیونکہ زندگی کے معاملات اچانک صرف اتفاق سے ہی حل ہوتے ہیں جبکہ حالات گھمبیر ہو جائیں تو انسان یا تو دل برداشتہ ہو جاتا ہے یا پھر اپنی سوچ اور احساس سے مینی پولیشن کا سہارا لیتا ہے۔ہم کیا اور کیسے سوچتے ہیں ،کیا اور کیوں محسوس کرتے ہیں اور کن حالات میں ہمارے رویئے کبھی یک دم تو کبھی کچھ دیر بعد تبدیل ہوتے ہیں کیونکہ ان تمام عوامل کا تعلق انسانی نفسیات سے ہے اسلئے دیکھا اور سوچا جائے تو ہر انسان کسی نہ کسی وقت کبھی نہ کبھی تاک اور گھات لگا کر بیٹھا ہوتا ہے کہ اب ہیرا پھیری کا موقع ہے یا انجانے میں کرجاتا ہے کبھی کبھار وہ نہیں جانتا کہ ایسا کیوں کر رہا ہے لیکن قابل ذکر اور اہم بات یہ ہے کہ تقریباً ہر انسان اپنے مفاد کی خاطر مینی پولیشن کرتا ہے اور جو اس بات سے انکار کرتا ہے وہ شاید کسی دوسری دنیا سے تعلق رکھتا ہے کیونکہ انسان کا ضمیر ہی اسے اچھے یا برے کام کی ترغیب دیتا اور یہ بھی ضمانت دیتا ہے کہ کر جا جو ہو گا دیکھا جائے گا۔ہیرا پھیری کے پیچھے ان گنت معمے پوشیدہ ہوتے ہیں کبھی تو دھوکا کھانے والا فوری سمجھ جاتا ہے اور کبھی طویل مدت بعد عیاں ہوتا ہے کہ فلاں فلاں میرے ساتھ ہاتھ کر گیا ہے،انسانی نفسیات میں یونیورسل نمونے موجود رہتے ہیں اور ہر لمحے ان گنت تجربات کی تحقیق بھی کرتے ہیں کہ بالفرض ایسا نہ ہوا تو ایسے کروں گا ایسے گھی نہ نکلا تو یہ حربہ آزماؤں گاوغیرہ قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ کسی انسان کی سوچ کو پڑھنا آسان نہیں لیکن بات کرنے کا انداز،چہرے کا اتار چڑھاؤ یعنی فیس ایکسپریشن اور سب سے بڑھ کر باڈی لینگویج ظاہر کرتی ہے کہ کوئی گھپلا ہے یعنی دھوکا بازی ،مینی پولیشن کی جا رہی ہے۔ ہیرا پھیری عام طور پر ایک معصوم مسکراہٹ سے شروع ہوتی ہے اور انسانی رویئے ، خیالات ،احساسات اور مخصوص میکانزم کے تحت دوسروں کو متاثر کیا جاتا ہے جسے عرف عام میں مکھن لگانا بھی کہا جاتا ہے ،دانستہ یا غیر ارادی طور سے دھوکے بازی بھی کی جاتی ہے اگرچہ دوستانہ مسکراہٹ ہیرا پھیری میں شمار نہیں ہوتی لیکن کوئی انسان اس معصومانہ مسکراہٹ کے عقب میں چھپے زہر کو بھی نہیں جان سکتا کیونکہ عام طور پر ہمدردی حاصل کرنے کا پہلا وار یا اوزار ہی مسکراہٹ ہوتی ہے اور کوئی انسان کسی کے جذبات یا احساسات سے قطعاً آگاہ نہیں ہوتا کہ وہ ہمدردی رکھتا ہے یا مفاد پرست ہے اور عام طور پر سادہ سی مسکراہٹ پر کئی لوگ اپنا سب کچھ نچھاور کرنے پر بھی تیار ہو جاتے ہیں اور سب کچھ کھو دیتے ہیں۔روزمرہ زندگی میں تقریباً ہر انسان ان گنت ہیرا پھیری کے مواقع حاصل ہونے پر ان سے فائدہ اٹھاتا ہے مثلاً آعلیٰ درجے کی مینی پولیشن سیاست،میڈیااور ایڈورٹائزنگ کے علاوہ کسی بھی سرکاری یا غیر سرکاری اداروں سے تعلق رکھنے والے چیف یا مالکان کرتے ہیں ہر کوئی یہی چاہتا ہے کہ کسی بھی طرح دوسرے کو نفسیاتی گزند پہنچائے اور جو کچھ بھی حاصل ہو سکے مفت کا مال سمجھ کر ہڑپ کر جائے کئی لوگوں کو تو بھاگتے چور کی لنگوٹی بھی خزانہ لگتی ہے اسے بھی نہیں چھوڑتے دیکھا جائے تو مینی پولیشن ایک ڈرٹی گیم ہے اس ڈرٹی گیم میں جسے ہیرا پھیری ،دھوکے بازی کے علاوہ مفاد پرستی بھی کہا جا سکتا ہے اور ایسی گیم کرنے والے نفسیاتی مرض میں مبتلا ہوتے ہیں مثلاً ایک چیف اپنے ماتحت یا ورکر سے کچھ حاصل کرنے کیلئے اسکی چاپلوسی کرتا ہے یا ایک بیوی اپنے شوہر کو کیسے اپنے شکنجے میں جکڑتی ہے وغیرہ،چیف کی مینی پولیشن کچھ ایسے بھی ہوتی ہے کہ آپ میری فرم میں واحد فرد ہیں جس پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے اسکی ان باتوں میں اخلاق اور پیار کچھ زیادہ ہی سمٹ آتا ہے وہ چاہتا ہے کہ نفسیاتی طور پر اتنا زچ کرے کہ آپ نہ چاہتے ہوئے بھی اسکی ہر جائز و ناجائز باتوں پر بے چوں چراں عمل کرتے رہیں اور اسے ایک عظیم اور بہترین بزنس مین کہیں،ایسے لمحات بہت مشکل ہوتے کہ چیف کو انکار کیا جائے کیونکہ کوئی انسان کبھی اپنی جوب سے ہاتھ نہیں دھونا چاہتا،بیوی بھی کچھ ایسے ہی نفسیاتی گھاؤ لگاتی ہے ہر قسم کی پینترے بازی اور حربوں کو آزمانے کی کوشش کرتی رہتی ہے کہ جب تک اسکا مقصد پورا نہ ہو جائے۔موجودہ دور میں مینی پولیشن ہر مقام پر ہوتی ہے ہر کوئی یہی چاہتا ہے کہ دوسرے کو زیادہ سے زیادہ کسی بھی طریقے سے زیر کرے اور اپنا مقصد حل کرنے کیلئے ہر قسم کا رسک لینے کو تیار رہتا ہے ،ایک مثال میڈیا کی بھی ہے کیونکہ کوئی کتنا بھی مضبو ط اعصاب کا مالک کیوں نہ ہو میڈیا میں اتنی طاقت ہے کہ وہ فوری یا بدیر اسے ڈھیر کر دیتا ہے،ایسا مواد پبلش اور نشر کیا جاتا ہے کہ شاید ہی کوئی اپنے جذبات اور احساسات پر قابو رکھ سکے اور انجانے میں ایک دلدل میں پھنس جاتا ہے جو اسے شدید نقصان پہنچاتی ہے،دنیا بھر کے کسی بھی میڈیا کو کوئی غرض نہیں کہ کون کمزور ہے اور کون طاقتور ان کا کام ہے دولت کمانا کوئی جئے یا مرے،دوسری طرف سیاست بھی ایک ایسی ڈرٹی گیم ہے جس کی ہر سیکنڈ میں ایک نئی چال شروع ہوتی ہے بیان بازی، نعرے بازی اور کئی بازیاں کھیلنے کے بعد جوڑ توڑ کرکے انسانوں کو گمراہ کیا جاتا ہے جمہوریت کے نام پر اصل رائے اورد لائل کو فروغ دینے کی بجائے ذاتی مفاد کیلئے انسانوں کے جذبات اور احساسات کو شدید مجروح کیا جاتا ہے دنیا بھر میں مثالیں موجود ہیں۔ہر انسان کی خواہشات ہوتی ہیں جنہیں وہ کسی بھی حالت میں پورا کرنا چاہتا ہے اور کبھی ایسا بھی وقت آتا ہے کہ سیدھے طریقے کی بجائے انگلی ٹیڑھی کرنی پڑتی اور کامیابی اسی وقت حاصل ہوتی ہے جب ہیرا پھیری یعنی مینی پولیشن کا سہارا لیا جائے لیکن اگر انسان اپنے مقاصد کے حصول کیلئے اخلاق ، تہذیب، اور شعور سے کام لے تو کبھی ہیرا پھیری، دھوکے بازی یا مینی پولیشن کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔
Shahid Shakil
About the Author: Shahid Shakil Read More Articles by Shahid Shakil: 250 Articles with 246006 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.