مقام حیرت ہے کہ عوامی حلقوں میں اضطراب
،غصہ ،باغیانہ افکار اور روز افزوں نفرت کے بڑھتے ہوئے مناظر دیکھ کر بھی
سیاستدانوں کو کوئی فرق نہیں پڑ ھ رہا، بلکہ ان کی ہٹ دھرمی اور ضد بڑھتی
جا رہی ہے اکھاڑ پچھاڑ ، کھینچا تانی ، سنجیدہ ڈائیلاگ،کھلم کھلا جگت بازی
کا مظاہرہ الغرض ہر طرح سے اخلاقی گراوٹ کا سرعام مظاہرہ دیکھ کرعقل محو
حیرت ہے کہ کیا واقعی یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے کہ جس کوحاصل کرتے وقت
یہ عہد کیا گیا تھا کہ یہ دنیا میں اسلام کا ایک مضبوط ترین قلعہ ہوگا
بلاشبہ پاکستان دوسری بڑی اسلامی ریاست ہے مگر افسوس کہ اسے وہ حکمران میسر
نہ آسکے جواس نیت اور ارادے کے ساتھ حلف اٹھاتے کہ وہ فنا ہو کر وطن عزیز
کو بقا ئے دوام دیں گے یہی وجہ ہے کہ حالیہ حالات دیکھ اور سن کر دل بے
ساختہ کہہ اٹھتا ہے ۔۔درد اتنا ہے کہ ہر رگ میں ہے محشر بر پا ۔۔۔اورسکون
ایساکہ مر جانے کو دل چاہتا ہے !
ایک طرف حکمرانوں کی انانیت ،سفاکیت ،منافقت اور ہوس ہے اور دوسری طرف
اپوزیشن جماعتوں کی رو گردانیاں ،من مانیاں ،ریشہ دوانیاں اور بے ایمانیاں
ہیں اور جو بچ جاتے ہیں وہ کمال کے موقع پرست اور جہاندیدہ کہلاتے ہیں وہ
ان دونوں کی اس تفکرانہ اور بچگانہ حالت سے بھر پور فائدہ اٹھاتے ہیں ان کا
دین اور مذہب صرف پیسہ اور مفادہے انھیں نہ اپنی عزت و آخرت کی فکر ہے اور
نہ ملک و قوم کا کوئی احساس دراصل ان کی وفاداریاں ’’پیسہ پھینک تماشہ دیکھ
‘‘ تک ہی محدودہیں ان سب نے مل جل کر ایسا جال بُن دیا ہے کہ پورے کا پورا
نظام تباہ و بر باد ہو کر رہ گیا ہے ۔ملک قرضوں میں ڈوبتا جا رہا ہے ،کرپشن
کا شور دنیا میں مچ چکا ہے ، بجلی ،پانی ،گیس صحیح طور پر میسر نہیں ،خوراک
خالص نہیں ،ہسپتالوں میں ادویات اورجراحی آلات نہیں ،مریضوں کے لیے بستر
نہیں ،سفارشوں کے بغیر نوکریاں نہیں رہیں ، بھوک اور ننگ نے ڈیرے ڈال رکھے
ہیں ،مہنگائی کا عفریت بری طرح سب کو جکڑے ہوئے ہے ،تعلق داروں کو کھلے عام
عہدوں پر فائز کیا جا رہاہے اور اہلیت و قابلیت والے جو تیاں چٹخاتے پھر
رہے ہیں ہماری یونیورسٹیوں اور کالجز کو عالمی رینکنگ میں شامل ہی نہیں کیا
جاتا، سکولوں کے حالات بھی سوالیہ نشان ہیں ،دہشت گردی نے ملک کی کمر توڑ
کر رکھ دی ہے اور حکمران ہیں کہ فیتے پہ فیتہ کاٹ رہے ہیں،قوم کی امانت
قومی خزانے سے اربوں روپوں سے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر اشتہارات کی بھر
مار کر دی گئی ہے اور یہ ثابت کیا جا رہا ہے کہ جیسے ہم پیر س یا امریکہ
میں ہی رہ رہے ہیں یہ الگ بات دو بارشیں ہوں تو یہ کاغذی پیرس جب ڈوب جاتا
ہے تو دو دن تک بجلی نہیں آتی بدیں وجہ کسی کو سمجھ نہیں آرہی کہ ہم کہاں
جا رہے ہیں کہ وہ کونسی ترقی ہے جو صرف انہی منصوبوں کے ذریعے ممکن ہے جو
تاحال التوا کا شکار ہیں اور اب تک عوام کے اربوں نہیں کھربوں روپے کھا گئے
ہیں ۔
ہم اقبال ڈے منا رہے ہیں اور اسی سوچ میں گم ہوں کہ مفکر پاکستان کی روح کے
اضطراب اور درد کا عا لم کیا ہوگا کہ جس سر زمین کا خواب دیکھا ا سی سرزمین
پر ان کے پوتے ’’ولید اقبال‘‘ کو گھسیٹا گیا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا
،بہنوں اور بیٹیوں کو مرد اہلکار بازوؤں سے پکڑ کر وحشیانہ انداز سے وین
میں ڈالتے رہے ، بزرگوں ،جوانوں اور بچوں کے ساتھ خلاف آئین قیدیوں سے بھی
بدتر سلوک کیا گیاکہ انھیں گھروں سے نکال کر گرفتار کیا گیا، کھانا اور
پانی بھی روکا گیا اور بعد ازاں اس ظلم و استبداد کو برپا کرنے والوں کو نہ
صرف انعامات سے نوازا گیا بلکہ ان کی تنخواہیں بھی بڑھا دی گئی ہے کہ انھوں
نے عدالتوں کے حکم کو نہ مانتے ہوئے نہتے شہریوں پر جو ظلم توڑا وہ قابل
ستائش جانا گیا اور اس پر حکمران ترجمان کہتے ہیں کہ جو سیاسی کارکن ڈنڈے
نہیں کھا سکتا وہ کوئی دیگرکام کرے افسوس صد افسوس کہ یہ سب دیکھتے ہی میری
آنکھوں کے سامنے میاں صاحب کی آصف زرداری کے خلاف چلائی گئی تحریک فلم کی
طرح چلنے لگی کہ قانون کی کیسے دھجیاں اڑائی گئیں تھیں اور کیسے ہر چیز اور
رکاوٹ کو عبور کیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ ہم آمریت نہیں چلنے دیں گے
جبکہ یہ تو جمہوریت تھی تو اس میں یہ سب کچھ کیوں ہوا ؟ آج سوال ہی یہ ہے
کہ جس حکمران جماعت پر ایک تہائی عوام نے اعتماد کا اظہار کر کے انھیں
بھاری مینڈیٹ دیا تھا وہی عوام اگر آپ سے یہ سوال کر رہے ہیں کہ بین
الاقوامی سطح پر کہا جا رہا ہے کہ آپ نے ’’کرپشن ‘‘کی ہے! اگر آپ نے کرپشن
نہیں کی تو ’’ثابت‘‘ کر دیں یا جواب دے دیں تو اس میں اتنا’’ حشر‘‘ اٹھانے
کی ضرورت کیا تھی اور انہی لوگوں کو جن کے ووٹ سے آج آپ محلوں میں’’ راج‘‘
کر رہے ہیں انھیں نفرتوں سے دھتکارنے اور جانوروں کی طرح سلوک کرنے کی کیا
وجہ تھی جبکہ آئین اور جمہوریت دونوں اس احتجاج کو درست قرار دے رہے تھے
۔کل آپ کہتے تھے آج میں کہتی ہوں کہ
دیپ جس کا محلات میں ہی جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
ایسے دستور کو ،صبح نور کو
میں نہیں مانتا ،میں نہیں مانتا!
ریاستی جبر اور طاقت کا استعمال بلاشبہ نیا نہیں ہے اور نہ ظلم و بر بریت
کی داستان نئی ہے بلکہ یہ کہنا چاہیئے کہ کھوپڑیوں کے میناروں سے جو داستان
شروع ہوئی وہ ہر دور میں ہر ریاست میں کسی نہ کسی شکل میں دہرائی جا رہی ہے
اور تب تک دہرائی جاتی رہے گی جب تک غریب اپنے حق کو نہیں پہچانے گا !مگر
وہ کیسے پہچان پائے گا کہ مجوزہ نظام رشوت اور سفارش سے ایسا پرا گنددہ ہے
کہ اس میں ایک مخصوص طبقے کو بیوروکریسی اور حکمرانوں تک رسائی حاصل ہے
اورباقی سب اپنے جائز مفادات کے لیے بھی اس طبقے کے مرہون منت ہیں یہی وجہ
ہے کہ معاشرہ روز افزوں جنگل کی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے جس کا جو دل
چاہتا ہے وہ کرتا ہے حتہ کہ نام نہاد علماء کرام منظر عام پر رہ گئے ہیں
جبکہ حقیقی مستند علماء کرام نے اس تعفن زدہ ماحول سے کنارہ کر لیا ہے
کیونکہ پر تعیش ذہنیت کے حامل لبرلز مذہب کی درست بات کرنے والوں کو طالبان
کہہ کر منہ بند کروا دیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ تھوڑی بہت جو اصلاح کی گنجائش
تھی وہ بھی ختم ہوتی نظر آرہی ہے مغربی یلغار نے اقدار و روایات کی دھجیاں
اڑا دیں ہیں دشمن ہمارے خیالات پر ہی نہیں ہماری سرحدوں پر بھی نقب لگا چکا
ہے وہ جب چاہتا ہے کاروائی کرتا ہے اور اپنے مضموم مقاصد حاصل کرتا ہے اور
ہمیں خبر بھی نہیں ہوتی اورہو بھی تو کیسے ہم نے سفارتکاری کے نام پر دشمن
کو خود موقع دیا ہے چونکہ ہمارے اکثر بر سر اقتدار خود سب سے بڑے مفاد پرست
ہیں ۔
اب ایسا بھی نہیں کہ میں مبالغہ آرائی سے کام لے رہی ہوں پچھلے دنوں
وزیراعظم پاکستان رحیم یار خان میں خطاب کے دوران غریب مریضوں کا تذکرہ
کرتے ہوئے خود بھی آبدیدہ ہوگئے تھے اور فرمایا کہ ہم اقتدار میں مفاد کے
لیے نہیں آئے اقتدار تو آنی جانی چیز ہے یہ عوام کی امانت ہے اور ہم اس میں
خیانت نہیں کرنا چاہتے وہ لوگ جوقرض چکانے کے لیے اپنا گھر تک بیچ دیتے ہیں
اور اپنا علاج نہیں کرواسکتے یہ صحت پروگرام ان کے لیے ہے حکومت اب پچاس
نئے ہسپتال بنا رہی ہے جہاں ایسے غریب مریضوں کو اپنی جیب سے دھیلا تک نہیں
خرچ کرنا پڑے گا غریبوں کے علاج کے لیے جتنا بھی لگانا پڑا حکومت لگائے گی
ہمیں پچھلی حکومتوں نے لوڈ شیڈنگ اور دہشت گردی جیسے مسائل دئیے ،مسلم لیگ
ن کے سوا کسی دوسری جماعت نے موٹر وے یا ہائی ویز پر کام نہیں کیا اور اب
ملک بمشکل ترقی کی راہ پر گامزن ہوا ہے اس لیے کسی کو اس میں رکاوٹ بننے
نہیں دیں گے یہ خطاب سن کر اور میاں صاحب کو روتے دیکھ کر اکثریتی عوام بھی
ایک بار پھر دھاڑیں مار مار کے روپڑے بلاشبہ اس موقع پر میاں صاحب ایک نرم
دل انسان واقع ہوئے ہیں ایسے ہی پانامہ تفصیلات میں اپنے حالات بتاتے ہوئے
بھی انھوں نے پوری قوم کو رلانے کی کوشش کی تھی اور خود بھی آبدیدہ ہو گئے
تھے اس رقت آمیز منظر کے چند منٹ گزرنے کے بعد جب حواس بحال ہوئے تو ہماری
آنکھوں کے سامنے موجودہ ہسپتالوں کے حالات گھوم گئے ابھی چند دن قبل ہی
مجھے ایک دوست کی عیادت کے لیے لاہور کے ایک معروف ہسپتال جانے کا موقع ملا
وہیں مجھے ایسے پریشان حال خاندانوں سے بات کرنے کا موقع ملا جن کے مختلف
میڈیکل کیسسزتھے اور کوئی ان کی فریاد نہیں سن رہا تھا ویسے یہ المیہ ہے
کسی بھی ہسپتال میں متعلقہ عملہ کسی عام مریض کی نہیں سنتا جبتک کہ فائل نہ
بن جائے چاہے اس دوران مریض اﷲ کو ہی پیارا کیوں نہ ہو جائے ایسے بہت سے
سنگین روح فرسا واقعات ہیں جو روزانہ رونما ہوتے ہیں مگر ارباب اختیار کی
طرف سے اس مد میں آج تک کوئی فعال کام نہیں کیا گیا آپ کسی بھی سرکاری
ہسپتال میں چلے جائیں ایک ایک بستر پر تین تین مریض بے یارو مددگارتڑپتے
دکھائی دیتے ہیں اس پر لوڈ شیڈنگ بھی معمول پر ہوتی ہے ،بعض اوقات جنریٹر
بھی نہیں چلتے ، پورے وارڈ میں ایک یا دو ائیر کنڈیشن ہی چلنے کے قابل ہوتے
ہیں اُن کو چلانا بھی ایکسپرٹ کا کام مانا جاتا ہے، صفائی کا نظام بھی
انتہائی ناقص ہے اور نرسیں تو درکنار ڈاکٹرز بھی کسی کی بات نہیں سنتے
مسیحائی تو دور کی بات ہے یہاں انسانی احساس کا بھی فقدان ہے کہ اگر کوئی
درد سے چلائے تو جلاد نما نرس آگے بڑھتی ہے اور کہتی ہے اوہ بی بی! کیا
تکلیف ہے ،اب تیری آواز نہ آئے درد خود ٹھیک ہو جائے گا ۔اس سب میں سب سے
زیادہ قابل رحم حالت ورثا کی ہوتی ہے جو بڑی بڑی پرچیاں اٹھائے باہر سے
ادویات خریدتے نظر آتے ہیں اور ہزاروں کے ٹیسٹ کرواتے دکھائی دیتے ہیں ٹیسٹ
تو وہ’’ ٹیکس‘‘ ہے جو مریض کے ہسپتال میں داخل ہوتے ہی اس پر لاگو ہو جاتا
ہے کیونکہ ہر ٹیسٹ میں پچاس فیصد حصہ لازماً ڈاکٹر کا ہوتا ہے مگر زیادتی
کی انتہا یہ ہے کہ خون سمیت ادویات بھی تمام مریضوں کو نہیں دی جاتیں بلکہ
وہ بھی عملہ رکھ لیتا ہے حالانکہ اپنا سب کچھ بیچ کر غریب آدمی ان چیزوں کو
خرید رہا ہوتا ہے آکسیجن ماسک کی کمی کے باعث بھی ہلاکتیں کسی سے پوشیدہ
نہیں ہیں بلکہ اکثر مریض بستروں کی کمی کے باعث زمینوں پر یا کوریڈور میں
پڑے دکھائی دیتے ہیں یہ تو شہری ہسپتالوں کی حالت ہے اور دیہاتی ہسپتالوں
کی حالت بھینسوں کے باڑے سے کم نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ کوئی ڈاکٹر دیہاتوں
میں ٹکتا نہیں ہے اور بالفرض اگر ٹک جائے تو دیر یا بدیر کر کے بھاگ جاتا
ہے یہی وجہ ہے کہ مریض کو شہر لانا پڑتا ہے اور وہ راستے میں ہی دم توڑ
دیتا ہے ہمیں یہ سب یاد آیا تو میاں صاحب کے آنسو ؤں پر اعتبار آیا بلاشبہ
صحت عامہ رونے کے’’ قابل ‘‘ہے اور اس پہ ان کا رونا بنتا ہے تمام سرکاری
ہسپتالوں کو’’ مسمار‘‘ کر کے نئے ہسپتال بنانے چاہیں جو کہ تمام بنیادی
ضروریات سے مزین ہوں جہاں غریب کم از کم آسانی سے مر تو سکے اور شاید یہی
خواب میاں صاحب کا لگتا ہے ۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ ان رواں سنگین حالات کا ذمہ دار کون ہے ؟ جو لوگ یہ
کہتے ہیں کہ سب اچھا ہے یا وہ جو جھوٹی رپورٹس پیش کرتے ہیں ؟ یا وہ لوگ جو
ان محکموں کے کرتا دھرتا ہیں یا وہ جو ان ہسپتالوں میں بیٹھے ان کو چلا رہے
ہیں بلاشبہ اگر ہمارے وزیراعظم کے دل میں قوم کا درد ہے اور وہ اتنے نرم دل
اور محب وطن ہیں تو قصوروار تو وہ وزراء ہیں جو ان تمام چیزوں کو چلا رہے
ہیں مگر دکھ کی بات تو یہ ہے کہ اکثریتی محکمے یتیم ہیں کہ ان کے وزرا ہی
نہیں ہیں اور ان مشیروں کے سپرد ہیں جنھیں اپنے ان حکمرانوں کے گھر کے
کاموں کو سرانجام دینے سے فرصت نہیں یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی کوئی ذمہ داری
بھی نہیں سمجھتے ۔کون پوچھے کہ یہ وزراء کیوں مقرر نہیں کیے گئے لیکن جو
جانتے ہیں انھیں سبب کا سبب پتہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ پرانے وقتوں کے قصے
،کہانیوں کی ایک بات بہت اہم ہے کہ بادشاہ کے ساتھ ایک وزیر با تدبیر ضرور
ہوتا تھا جو بادشاہ کو درست مشورہ دیکر اس کے لیے درست راہ متعین کرتا تھا
کہیں نہ کہیں بادشاہ بھی قوم کا درد رکھتا تھا اسے اپنا مفاد نہیں ملک و
قوم کا مفاد عزیز ہوتا تھایہی وجہ تھی کہ حق و انصاف کا بول بالا ہوتا تھا
اور راوی چین ہی چین لکھتا تھا پھر یوں ہوا کہ بادشاہ عیش پسند ہوئے اور جو
بندہ پسند آتا یا جو بڑا خوشامدی یا قصیدہ گو ملتا اسے وزیر یا کسی ادارے
کا سربراہ بنا لیا جاتا یا درباریوں میں شامل کر لیا جاتا بادشاہ نشہ
اقتدار میں مست مئے پندار رہتا اور وزیر اس کی حماقتوں پر مبنی ذہانت و
فطانت اور امور سلطنت میں نا اہلیت پر واہ واہ کرتے رہتے مگر تاریخ گواہ ہے
کہ ایسے بادشاہوں کی سلطنتیں برباد ہو گئیں اس لیے اس مد میں میرٹ پر اور
خلوص نیت سے کام کرنیو الوں کو بھرتی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ نہ آپ کو اور
نہ عوام کو رونا پڑے ۔آج پھر مجھے وہ بچہ یاد آگیا ہے جس کا ذکر میں پہلے
بھی کر چکی ہوں کیونکہ بچے غیر سیاسی ہوتے ہیں ایک بچے سے اردو گرائمر کے
استاد نے پوچھا کہ میں تمہیں چند جملے پوچھتا ہوں بتاؤ قواعد کی رو سے یہ
کس زمانے سے ہیں ؟ میں رو رہا ہوں ،تم رو رہے ہو ،ہم رو رہے ہیں ۔بچے نے بے
ساختہ کہا! سر یہ تو ’’ن لیگ ‘‘ کا زمانہ ہے ! تو جو نہیں رو رہے اور
دعوتیں اڑا رہے ہیں ان کے بارے اکثریتی تجزیہ نگار اور مبصرین کی رائے ہے
کہ حکمران جماعت نے ہر شعبے میں نقب لگائی ہے اور انہی لوگوں کو ذمہ داران
بنا دیا ہے جو کہ سالہا سال سے ان کے وفا دار تھے جو کہ تاحال نقابوں میں
ہیں اکا دکا ہی صریحاً اقرار کرتے ہیں مگر وہ کیا کہتے ہیں کہ
ہمیشہ ہی نہیں رہتے کبھی چہرے نقابوں میں
سبھی کردار کھلتے ہیں کہانی ختم ہونے پر !
اور یہ کردار کھلیں گے تو ان کے لیے بھی زمین کم پڑ ھ جائے گی کیونکہ
پگڑیاں اچھالنے والے اور وطن عزیز کو باپ کی جاگیر سمجھنے والے سبھی ’’شہد
‘‘ کھاتے نہیں پیتے ہیں اور جب حلال و حرام کا فرق ختم ہو جائے اور بے شرمی
عام ہو جائے تو رحمت خداوندی جوش میں آجاتی ہے اب یقیناً اس ہنگامے کا
انجام بھی ہونے والا ہے جلد یا بدیر مگر یہ طے ہے کہ تاحال خان صاحب کو
مایوسی ہوگی کیونکہ جو جابر ہوتے ہیں وہ اگر معاملات کا حل نکال لیں تو
انصاف اڑ جاتا ہے ۔
تمہارا شہر ، تم ہی مدعی ،تم ہی منصف
مجھے یقیں ہے میرا ہی قصور نکلے گا !
بہر حال یہ افسوسناک ہے کہ بین الاقوامی میڈیا لکھ رہا ہے کہ اسلامی
جمہوریہ پاکستان کے وزیر اعظم اور ان کے بچے ’’کرپشن ‘‘ کی جواب دہی میں
سپریم کورٹ میں ٹرائل پر ہیں آپ بے شک اس الزام سے بری الزمہ بھی ہوجائیں
مگر جگ ہنسائی تو ہمیشہ رہے گی ۔اسی لیے ن لیگ کے جناب ظفر علی شاہ نے بھی
کہا ہے کہ موجودہ حالات میں میاں صاحب کی شخصیت متنازعہ ہو چکی ہے اسلئے
انھیں اب پیچھے ہٹ جانا چاہیئے اور بہتر ہے کہ کسی دیگر کو وزیراعظم بنا
دیں تاکہ پارٹی کا اقتدار اور ساکھ دونوں بچ جائے اور پارٹی کو کلین چٹ بھی
مل جائے کیونکہ صرف ایک خاندان پر الزام ہے اور ان کے مطابق پارٹی کے
اکثریتی لوگوں کی یہی رائے ہے تو مناسب یہی ہے کہ اب قوم سے اس نوعیت مذاق
بند ہو جانے چاہیئے اور کچھ سنجیدہ اقدام اٹھانے چاہیئے ۔ |