کشمیر کا چمن جو مجھے دلپذیر ہے

ایک خطہ جسے دنیا جنّت نظیر کے نام سے جانتی ہے ۔پہاڑوں و آبشاروں کی سرزمین۔جہاں لہلاتے کھیت ،بہتے چشمے اور دل چھولینے والے مناظر دل ودماغ کی دنیا کو مسخر کردیں ۔وہ سرزمین جو قدرت کی تخلیق کا عظیم شاہکار ہے۔جہاں صبح کا سورج زمین پر سجے کائنات کے مختلف رنگوں سے دل و دماغ کو تسکین بخشتاہے ۔چہچہاتے پرندے ،جھرنوں کی آوازیں ،سادہ لباس میں ملبوس انسانوں کی مصروفیت ،اپنی ہی دنیا میں مگن پہاڑوں و کوہساروں کے دامن میں کھیلتے خوبصورت حسین چہرے اور صحت مند بچے ایک روح پرورمنظر پیش کرتے ہیں۔

لیکن اچانک کی تڑتڑ اور ڈز ڈز کی آوازیں حسن کی حسین تصویر وادی کشمیر میں حرکت کرتی ہر شئی کا ساکت کردیتی ہے ۔اور کام کرتی عورتیں ،ہل چہلاتے مرد ،کھیلتے بچے غم و ملال اور زندگی کی روح سے عاجز ایک مجسمہ دکھائی دینے لگتے ہیں ۔جیسے کسی نے ان کا سب کچھ چھین لیاہو۔لمحہ بھر میں کسی نے انکی خوشیاں اچک لی ہوں ۔

ایسا بھلاوہ کیوں کرنہ سوچیں کہ جب انکی نظر اپنے گھر پر پڑتی ہے تو وہ راکھ کا ڈھیر بن چکاہوتاہے ۔ماں جب گھر کے کھیلتے بچے کو دیکھتی ہے تووہ بے سود ہمیشہ ہمیشہ کی نیند سوجاتاہے ۔ایک خونی منظر ۔جس سے دل دہل جائیں ۔آنکھیں بھیگ جائیں ۔

محترم قارئین :اس کرب اس تکلیف کو آپ اس شدت سے محسوس نہیں کرسکتے جس شدت سے ہم کشمیری محسوس کرسکتے ہیں ۔کیونکہ جس پر گزرتی ہے وہ محسوس کرتاہے دیکھنے والے سننے والے تجزیہ یا تبصرہ یا اندازہ لگاسکتے ہیں ۔یہ جس ماحول کی منظر کشی کی یہ ایک دن کا نہیں بلکہ نصف صدی سے زائد بیت گیا۔کشمیری اس المناک حادثہ سے گزر رہے ہیں ۔

لکھتے لکھتے میری آنکھیں بھیگ گئی ہیں ۔میں بتا نہیں سکتامیری ماں دھرتی نے کتنے ستم برداشت کئے ہیں ۔یہاں ایک شکایت جس کو بیان کرنا میں اپنا حق سمجھتاہوں کہ پاکستان کی عسکری طاقت کشمیری کی آزادی کے لیے سنجیدہ ہے لیکن پاکستان کی جمہوری طاقتیں مسئلہ کشمیر کو اپنے لیے جمہوری تاش اور پتے کے طور پر استعمال کرتی رہی ہیں جو کہ میں سمجھتا ہوں ایک انسانیت سوز رویہ ہے ۔ایک قلمکار کی حیثیت سے صرف اتنا ہی کہوں گا میرے وطن کی آزادی کی دعا کیجئے گا۔بہت ظلم ہوگیا۔ہم نے خون کی صورت میں آزادی کا کفارہ اداکیاہے۔دیکھیں ہمیں کب آزادی ملتی ہے ۔کشمیری قوم ذہین بھی ہے اور محنت کش بھی باجرائت بھی ہے اور باضمیر بھی ۔پاکستان ہماری جان ہے ۔پاکستانی ہماری آن ہیں ۔بس شکوہ فقط اتنا ہے ۔کہ پاکستانی قیادت رسم دور سے نقل کر عملی دور میں آجائے اور سفارتی سطح پر کاغذی کاروائی سے نکل کر عملی اقدامات کی طرف آجائے تو مجھے آزادی کا سورج طلوع ہوتا ہوادکھائی دے رہاہے ۔میں تو بس اتنا کہتاہوں :
تیری وادی وادی گھوموں، تیرا کونہ کونہ چوموں
میرے خوابوں کی تعبیر، میرے جموں اور کشمیر
ہم کشمیری بچوں کی اک فوج بنائیں گے
پھر سری نگر سے آگے ہم قدم بڑھا ئیں گے
کشمیری بچوں دوڑو، سب کھیل کود کو چھوڑو
بولو نعرہ تکبیر، میرے جموں اور کشمیر

محترم قارئین :اب بہت ظلم ہوگیا ۔اب بہت گھر اُجڑ گئے ۔اب بہت عصمت ریزی ہوگئی ۔اب اتنظار کی گھڑیاں ختم ہوگئیں ۔اب امن کی آشا کے دیوانوں کی ہم ایک نہیں سنیں گے ۔اب ہم تجارت کے نام پر کشمیریوں کے خون سے سودے بازی کرنے والوں بہروپیوں کو بے نقاب کریں گے ۔اب ہماری بس ہوگئی ۔بس اتناکہوں گا۔کشمیر کا چمن جو مجھے دلپذیر ہے۔
DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 381 Articles with 593933 views i am scholar.serve the humainbeing... View More