چلو چلو مال روڈ چلو
(Syed Amjad Hussain Bukhari, Buner)
منٹو کے افسانے ہوں یا مستنصر حسین تارڑ کے
سفر نامے، فیس بک کے سٹیٹس ہوں یا ٹوئٹر کی ٹوئٹس، لاہور ی کھانے ہو ں یا
ڈاچی ایکسپریس کے نظارے، لاہور کا چڑیا گھر ہویا باغ جناح کی رومانس آپ کو
جا بجا مال روڈ کا تذکرہ ملے گا، مگرپاکستانی نیوز چینلز کا شاید ہی کوئی
بلیٹن ہو جس میں مال روڈ کی داستان نہ ہو۔پنجاب اسمبلی کا مال روڈ پر ہونا
اس کی ساری رومانس کو داغ دار کر رہا ہے۔آئے روز ہونے والے دھرنوں سے ایک
جانب شہریوں کو جہاں شدید پریشانیوں کا سامنا ہے۔ ٹریفک جام روزانہ کا
معمول بنا ہواہے۔ وہیں اسمبلی کے باسیوں کے کانوں پر تو جوں تک نہیں رینگتی
انہیں اپنی مراعات اور دھندلیوں کے شور شرابے میں عوام کے شکوے اور شکایات
پر کان دھرنے کی فرصت ہی میسر ہی نہیں۔ مال روڈ پر پہلا دھرنا کس نے دیا؟
کیوں دیا؟ یہاں دھرنے کا خیال کس کا تھا؟ تاریخ دان اور روای اس پر تاحال
خاموش ہیں۔ اس تحریر کا لکھنے کا خیال مجھے کل ایک دھرنے کے مناظرسے لطف
اندوز ہونے کے بعد آیا۔ میں اور میرا دوست عمر پریس کلب سے کھانے کے بعد
اچھرہ کی جانب عازم سفر تھے کے دھرنے کی وجہ سے رش میں پھنس کر رہ گئے۔
کافی تگ و دو کے بعد ہماری موٹر سائیکل مقام دھرنا تک پہنچی، عمر سے مشاورت
کے بعد ایک جگہ موٹر سائیکل پارک کر کے دھرنے کی کوریج کے لئے آنے والے
صحافی دوستوں کے ہمراہ مناظر دیکھنے لگ گئے۔ میڈیا کے دوست میٹر چل رہا ہے۔
جنریٹر آن ہے۔ ہاں گاڑیوں کے انٹینے آن کر دئیے ہیں جیسے جملوں کے شور میں
مگن تھے۔ جب کہ میری نظر نوجوان ڈاکٹروں کے دل کش دھرنے میں گشت کر رہی
تھیں ۔میری پہلی نظر خوبرو خواتین ڈاکٹرز کے ایک گروپ پر پڑی۔ سر پہ رنگ
برنگ چھتریاں تانے، آنکھوں پر خوبصورت چشمے سجائے سیلفیاں لے رہی تھیں۔ چند
ایک ہیڈ نرسز اپنی ڈھلتی ہوئی عمر پر شکوہ کناں بڑھاپے کا سہارا لئے منرل
واٹرکی بوتلیں غٹ غٹ پی رہی تھیں۔چند نوجوان ڈاکٹرز موٹر سائیکل سواروں کے
ساتھ ہاتھا پائی میں مصروف اور کچھ بریانی کے ڈبوں پر ہاتھ صاف کرنے میں
مگن تھے۔ لیکن نوجوان طبیبوں کا ایک گروپ اپنے مطالبات کے حق میں بینر لئے
بیٹھا ہوا تھا۔دھرنے سے زیاد ہ کسی فئیرویل پارٹی کا منظر مال روڈ پر
دیکھنے کو مل رہا تھا۔ اب آتے ہیں یہ دھرنا کیوں دیا جارہا تھا۔ میو ہسپتال
میں مریض اور اس کے رشتے داروں پر ڈاکٹرزنے تشدد کیا جو کہ بعدازاں ثابت
ہوگیاجس پر ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن میو ہسپتال کے صدر کو ٹریننگ سے فارغ
کرکے ایک سال کے لئے میو ہسپتال سے نکال دیاگیا ۔ محکمہ سپیشلائزڈ ہیلتھ
کیئر نے وائے ڈی اے کے ڈاکٹرز، ایک نرس اور دیگر سٹاف کیخلاف کارروائی کرنے
کا نوٹیفکیشن جاری کیا۔ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن میو ہسپتال کے صدر ڈاکٹر
شہریار نیازی، ڈاکٹر مظہر رفیق کی جانب سے مریض اور اس کے رشتے داروں پر
تشدد کرنے پر پی جی ٹرینی شپ ایک سال کے لئے معطل اور انہیں میوہسپتال سے
نکال دیا گیا ، ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر صدف دستگیر کا تبادلہ کردیا گیا۔نرس
لبنیٰ ثمرکو جنرل ہسپتال جب کہ ڈیٹا آپریٹر افتخار احمد کو میو ہسپتال سے
شاہدرہ ہسپتال تبدیل کردیا گیا اور پروفیسر ڈاکٹراصغرنقی کواس حوالے سے
وارننگ جاری کی گئی ہے۔اسی طرح میو ہسپتال کے پولیس چوکی انچارج اے ایس آئی
ریاض احمد کیخلاف کارروائی کیلئے ڈی آئی جی آپریشنز لاہور کو لکھا گیا۔
اپنے صدر کے خلاف ینگ ڈاکٹرز کا لہو بھی گرم ہو گیا اور وہ انتظامیہ کے
خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔دھرنا دینے کے لئے مال روڈ کا انتخاب کیا گیا۔جمہوری
ممالک میں احتجاج کرنا لوگوں کا حق ہے وہ اپنے مطالبات منظور کرانے کے لئے
ارباب اختیار سے احتجاج کریں۔ مگر پاکستان میں الٹی گنگا بہتی ہے، چوری اور
سینہ زوری عروج پر ہے۔ انہیں نوجوان طبیوں ہی کو دیکھ لیجئے، ڈاکٹر تو قوم
کے مسیحا ہوتے ہیں۔ زخموں پر مرہم رکھتے ہیں مگر یہ نوجوان دوائی کی جگہ
دھلائی کرتے ہیں۔اگر ان کے خلاف قانون حرکت میں آئے تو قانون ہی کو سبق
سکھانے کے لئے نکل پڑتے ہیں۔ نوجوان مسیحاؤں کے اس عمل کی وجہ سے صر ف میو
ہسپتال کے اندر دو مریض جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں،سینکڑوں آپریشنز منسوخ
کئے جا چکے ہیں، ایمرجنسی اور بیرونی مریضوں کے شعبے مکمل بند ہیں۔ جہاں
ہسپتال میں مریض خوار ہو رہے ہیں وہیں دوسری جانب لاہور کی مرکزی اور اہم
شاہراہ کے بند ہونے سے لاہوری شدید اذیت میں مبتلا ہیں۔ڈاکٹرز کا مطالبہ کا
ہے کہ ان کے صدر صاحب کو بحال کیا جائے ، جبکہ محکمہ صحت کی انتظامیہ اپنے
فیصلے پر قائم ہے جو کہ درست فیصلہ ہے اور آئندہ مریضوں کے ساتھ ایسا سلوک
ہونے سے روکنے کے لئے بہترین طریقہ ہے۔پنجاب حکومت کا اس سارے معاملے کے
دوران خاموش تماشائی بن کر رہنا ناقابل فہم ہے۔ دھرنا ختم کرانے کے لئے
کوئی انتظامات نہیں کئے جارہے ۔ گذشتہ روز پنجاب حکومت کے ترجمان زعیم
قادری سے جب اس حوالے سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹرز تعلیم
یافتہ ہیں۔ ان پر سختی کرنا اور ان کے خلاف کارروائی کرنا اچھا نہیں لگتا۔
یہ جواب جہاں سنجیدہ لوگوں کے لئے مضحکہ خیز ہے وہیں گڈ گورننس کے دعوؤں کی
قلعی بھی کھول رہا ہے۔جناب کیا سب ڈنڈے ، تشد د ، جیل اور تھانے ان پڑھ
شہریوں کے لئے ، پنجاب کے نابینا افراد کے لئے ہیں، کسانوں کے لئے ہیں۔ جو
چار جماعتیں پڑھ لے وہ جب چاہئے ریاست کی رٹ کو چیلنج کرے، عام افراد کی
زندگی اجیرن بنا دے، ڈگریوں کے بل بوتے پر جس پر چاہے چڑھ دوڑے۔؟نہیں حضور
ایسا بالکل بھی نہیں ہونا چاہئے ۔ ریاست کے ہر شہری کو آئین یکساں حقوق
فراہم کرتا ہے۔مظاہرین کے جائز مطالبات پورے کرنا جہاں آپ کا فرض بنتا ہے
وہیں اپنی یونینز کے سہارے پرحکومت کو بلیک میل کرکے، عوام کو رسوا کرکے
ناجائز مطالبات پیش کرنے والوں کی گوشمالی کرنا بھی آپ ہی کی ذمہ داری
ہے۔پنجاب حکومت کے عہدیداران ایک بارے ہسپتالوں میں خوار ہونے والے مریضوں
اور ان کے لواحقین کو خوار ہوتے دیکھ لیں تو شاید انہیں احساس ہو کہ جب درد
ہوتا ہے تو اس کا احساس کیسا ہوتا ہے۔ میو ہسپتال پنجاب کا سب سے بڑا
ہسپتال ہے اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کے طلبہ وطالبات کے لئے ایک
درسگاہ بھی ہے۔ محکمہ صحت ہی کے افراد لاہور کے گرد ونواح سے آئے ہوئے بے
بس اور مجبور مریضوں کی حالت زار دیکھ لیں۔ایمرجنسی گیٹ کے سامنے دھوپ اور
دھول میں بیٹھی ہوئی عورتوں پر ایک نظر ہی ڈال لیں تو شاید ان کی آنکھیں
کھل سکیں کہ نجی کلینکس میں علاج معالجے کے لئے جن کے پاس پیسے نہیں ہوتے
ایک دوا کے لئے لوگ کتنے جتن کرتے ہیں۔ینگ ڈاکٹرز کا یہ احتجاج نیا نہیں ہے،
گذشتہ سال بھی کئی دن تک ان کا احتجاج چلتا رہاجو کہ وزیراعلیٰ کی ذاتی
مداخلت کے بعد ہی ختم ہوا تھا۔بہرحال اس احتجاج کے پیچھے جو بھی محرکات ہیں
اور جو لوگ مریضوں کی رسوائی اور اذیت کا باعث بنے ہیں ان کو قرار واقعی
سزا دی جائے ، مگر ہسپتالوں میں موجود مریضوں کے لواحقین کو بھی اپنے رویوں
پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔ ڈاکٹرز ، نرسز اور دیگر سٹاف کے ساتھ آپ کا بہترین
رویہ ہی آپ کے مریض کی بہترین نگہداشت کا ضامن ہے۔ اگر آپ کی پہنچ حکام
بالا تک ہے تو ذرا ان مریضوں کا بھی سوچئے جن کی پہنچ صرف ہسپتال کے مین
گیٹ تک ہی ہے۔ |
|