پاکستان میں مزدوروں کا ایک مسئلہ کم
از کم تنخواہ پر عمل درآمد ہے ۔ہر بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں
اضافہ کردیا جاتا ہے اور اسکی بنیادی وجہ بڑھتی مہنگائی اور افراط زر کو
قرار دیا جاتا ہے اسکا مطلب یہ ہے کہ تنخواہوں میں اضافہ کوئی رعایت نہیں
بلکہ ضرورت ہوتی ہے ۔ یہ اضافہ اگست کے شروع میں ہی یکم جولائی سے کردیا
جاتا ہے اور اسکی ادائیگی بھی شروع ہوجاتی ہے ۔ لیکن بجٹ ہی موقع پر قومی
اسمبلی مزدوروں کی تنخواہ میں اضافے کا اعلان کرتی ہے یہ اضافہ کم از کم
تنخواہ کی صورت میں کیا جاتا ہے ۔اس سال یہ تنخواہ 13000 روپے ماہانہ مقرر
کی گئی ہے ۔ یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ کم از کم تنخواہ غیر ہنر مند کی
کم از کم تنخواہ ہے ۔ پاکستان میں روزانہ 8 گھنٹے کام کرنے کا قانون ہے
کھانے اور چائے کے وقفے شامل کرکے ہفتہ واری ڈیوٹی کے گھنٹے 45 بنتے ہیں۔
اس سے زائد کام لینے کی صورت میں ورکرز کو اوورٹائم دیا جانا قانون کی
منشاء ہے۔ جس پر کہیں عمل ہوتا ہے اور کہیں نہیں۔صوبائی سطح پر کم از کم
تنخواہ کیلئے ویج بورڈ موجود ہوتے ہیں جو کم از کم تنخواہ میں اضافے کے بعد
اپنے اجلاس منعقد کرتے ہیں اور تمام شعبہ جات میں ہنر مندوں کی تنخواہوں
میں اسی تناسب سے اضافہ کرتے ہیں جس نسبت سے کم از کم تنخواہ میں حکومت نے
اضافہ کیا ہے۔ چاروں صوبوں میں کوئی ایک بھی ویج بورڈ پابندی سے کام نہیں
کررہا اس طرح کم از کم تنخواہ میں اضافے کے باوجود ہنر مند ورکرز کی
تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیا جاتا ۔ ایک جانب ورکرز کے ساتھ یہ ظلم ہے تو
دوسری جانب نجی مالکان کی اکثریت کم از کم تنخواہ کے قانون کے لاگو ہونے کے
باوجود مزدوروں کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں کرتی ۔اور اگر کہیں ماہانہ
تنخواہ 13000 روپے ادا بھی کی جارہی ہے تو وہاں روزانہ کے اوقات کار کی
پابندی نہیں ۔ اب یہ صورت ھال بڑھتے بڑھتے سرکاری اداروں تک پہنچ چکی ہے
اور کئی سرکاری ادارے اپنے کنٹریکٹ اور ڈیلی ویجز مزدوروں کو کم از کم
تنخواہ سے بھی کم تنخواہ دے رہے ہیں ۔اس سلسلے میں افسوس ناک پہلو تو یہ
بھی ہے کہ پڑھے لکھے اور ہنر مند کارکنان کو بھی کم از کم تنخواہ سے کم
ادائیگی کی جارہی ہے ۔ مزدور بے روزگاری کے خوف سے ’’مرتے کیا نہ کرتے‘‘ کے
مصداق یہ ظلم برداشت کرتے رہتے ہیں ۔ یہاں معاملہ یہ ہے کہ نجی سرمایہ
داروں اور فیکٹری مالکان اگر قوانین کی خلاف ورزی کریں تو سرکاری اداروں
میں شکایت کی جاتی ہے لیکن جب خود سرکاری ادارے ہی قوانین کا مذاق اڑانے لگ
جائیں تو کس کے خلاف شکایت کی جائے ۔ ہم زیادہ مثالیں بیان نہیں کرتے لیکن
پاکستان اسٹیل اس کی یونیک مثال ہے جہاں ان پڑھ لیکن کاریگر کارکنان کو آج
بھی 8900 روپے ماہانہ تنخواہ دی جارہی ہے ۔ یہی نہیں بلکہ گریجویٹ ٹیچرز
کوبھی اسی تنخواہ پر رکھا جاتا ہے ۔ ڈیلی ویجز تو اس سے بھی کم پر کام
کررہے ہیں ۔ پاکستان اسٹیل کی اپنے کنٹریکٹ اور ڈیلی ویجز کے علاوہ پاکستان
اسٹیل کے ذیلی ادارے حدید ویلفئیر ٹرسٹ اور پاکستان اسٹیل فیبریکیٹنگ کمپنی
میں بھی کھلے عام قانون کی خلاف ورزی کی جارہی ہے ۔
پاکستان دہشت گردی سے متاثرہ ملکوں میں سر فہرست ہے ۔دہشت گردی کی نرسری کا
الزام بھی ہم پر ہی لگتا ہے۔کسی کے الزامات کو نظر انداز بھی کردیں پھر بھی
ہمیں اپنا جائزہ خود لیتے رہنا چاہیے ۔ضرب عضب کے آغاز سے ہم نے دہشت گردوں
کے خلاف فیصلہ جنگ لڑی ہے اور شاندار کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں ۔لیکن ابھی
تک ہم نے ان عوامل کے خاتمے کی کوشش نہیں کی جن سے دہشت گردوں کو خام مال
مہیا ہوتا ہے۔غربت،جہالت،نا انصافی،عدم مساوات،بے روزگاری ایسے بنیادی
عوامل ہیں جن کی موجودگی میں دہشت گردی کے مکمل خاتمے کا خواب کبھی پورا
نہیں ہوگا ۔اس صورت حال میں کم از کم تنخواہ کے قانون پر عملدرآمد نہ ہونا
ہماری غیر سنجیدگی کا مظہر ہے ۔ نجی اداروں سے شکایت توایک طرف لیکن یہی
رویہ اگر سرکاری اداروں میں اپنایا جانے لگے تو شکایت کس سے کریں؟
|