سماج کا اپرادھی

لوگ کیا کہیں گے ؟ یہ جملہ زمینی خداؤں کا بنایا ہوا ،ایک بت ہے جس کی پرستش کے لیے عوام کو ہر دور میں مجبور کیا جاتا رہا ہے اور اس پرستش کے نتیجے میں عوام کی جھکی ہوئی گردنیں زمینی خداؤں کی تنی ہوئی چھاتیوں کو مزید چوڑا کرنے کا سامان کر تی ہیں ۔ہم میں سے ہر ایک کے اندر دوشخصیتیں بیک وقت بستی ہیں ۔ایک عادی مجرم کی ہے جبکہ دوسری خدا کی ۔جہاں مفادات ،اور عیش کوشی کا موقع ہو ہم اپنے اندر کا مجرم خود پر حاوی کر لیتے ہیں جبکہ دیگر لوگوں کے لیے بالخصوص جب ہماری اپنی ذات کو نفع پہنچنے کا امکان کم ہوتو ہمارے اندر کا خدا فوراََ امر بالمعروف و نہی ان المنکر کا حکم جاری کر دیتا ہے ۔ہمارے معاشرے میں انسان کا سب سے بڑا المیہ ہی سماج کے فرضی رسوم کا غلام ہونا ہے ۔اس غلامی میں ہم جکڑے بھی ہوئے ہیں اور ساتھ میں دوسروں کو جکڑنے کا سامان بھی کیے ہوئے ہیں ۔دو رخ شائد ہماری نفسیات کا حصہ بن چکے ہیں ۔بیک وقت ہم مظلوم بھی ہیں اور ظالم بھی ۔اس سارے معاملے کی وجہ سے آجکل ہمارے رویوں میں منافقت در آئی ہے۔منافقت کا زہر ہمارے اندر کے انسان کو دھیرے دھیرے ختم کرتا چلا جا رہا ہے ۔لفظ منافقت کی تلخی ،کڑوا پن اور سختی دور کرنے کے لیے اس کو مصلحت پسندی، محتاط رویے ، خوش مزاجی ،نرم طبیعت اور مہذب جیسے الفاظ کی ڈھال بنائی گئی ہے جس میں چھپ کر ہر انسان دوسرے پر پشت سے وار کرتا ہے ۔ لوگ کیا کہیں گے ؟ کاش مجھے وہ لوگ مل جاتے جن کے کیا کہنے کا خوف ہر با شعور اور حساس انسان کو وہ سب نہیں کہنے دیتا جو اس کے اندر کا انسان چلا چلا کر کہہ رہا ہوتا ہے۔ بات بظاہر سیدھی سی اور صاف ہے لیکن در حقیقت اتنی گنجلگ ہے کہ مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہو رہی کہ پہلی دفعہ مجھے بار بار، رک کر سوچنا پڑ رہا ہے اور لکھے ہوئے کو مٹا کر مزید وضاحت اور مربوط انداز میں تحریرکرنے کے لیے کئی جتن کرنے پڑ رہے ہیں ۔اپنے ادرگرد ہونے والے واقعات کو موضوع بنا کر اب تک بے شمار کالم نویسوں نے ایک ہی مضمون کو سو رنگ میں باندھا ہے لیکن یہ سامنے کی بات دیدہ دانستہ ہر شخص فراموش کر دیتا ہے کہ بحثیت مسلمان ہمارا سب سے بڑا المیہ منافقت ہے ۔زندگی کے ہر معاملے میں خواہ اس کا تعلق نجی زندگی سے ہو یا اجتماعی زندگی سے ہم میں سے ہر ایک منافق ہے ۔میرے خیالات سے کسی کو اتفاق نہیں ہے لیکن میرے ساتھ تعلقات کے پاس میں وہ مجھے خواہ مخواہ بانس پر چڑھائے گا کہ آپ بالکل درست کہہ رہے ہیں میں حیران ہوں یہ بات پہلے کسی کے دماغ میں کیوں نہ آئی ۔جبکہ اگر کوئی ایسا ذریعہ ہوتا کہ انسانی خیالات بھی قوت سماعت کے دائرہ میں آجاتے تو میری تعریف کرنے والے کے اصل الفاظ جو مجھے سنائی دیتے وہ یہ ہوتے’’ جان چھوڑو ، لگتا ہے یہ ذہنی مریض ہے ، کون سا پہاڑ گرایا ہے ؟ اب بس نہیں کرے گا اس فضول موضوع کو ‘‘ اسی طرح سے معاملات زندگی میں ہم اپنے سے جڑے ہر فرد کے ساتھ کسی نہ کسی موقع پر منافقت کرتے ہیں اور یہ کسی کے ساتھ کیا جانے والا سب سے بڑاظلم ہے ۔اگر آپ کے ساتھ میں متفق نہیں ہوں تو مجھے سادہ لہجے اور صاف الفاظ میں بتا دینا چاہیے کہ ’’ میرا نقطہ نظر آپ سے قطعی مختلف ہے اور آپ کی سوچ بھی عقلی دلائل یا زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتی ‘‘ یہ تو ایک مثال تھی رویوں کی منافقت کی اس سے بھی زیادہ زہریلی اور ضرر ،رساں منافقت تعلقات میں پائی جاتی ہے کوئی انسان آپ کو عادات ، اطوار ،معاملات، طور طریقوں، خیالات یانظریات کی بنیاد پر نا پسند ہے تو آپ کا یہ حق ہے کہ آپ اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کھلے الفاظ میں کریں اور اس کو باآور کروائیں کہ آپ کا اس کے ساتھ چلنا محال ہے لہذا وہ اپنا راستہ ناپے اور آپ اپنا۔ لیکن یہاں بھی معاشی ،معاشرتی ،خانگی ،لسانی ،مذہبی اور اس قسم کی دیگر بنیادوں پر آپ اس کے خلاف نہیں بولیں گے اس کو حتی الاامکان خوش کریں گے جبکہ در پردہ جب بھی موقع ملا ،اس کو کاری ضرب بھی لگائیں گے اور موقع کی مناسبت سے اس کو زیادہ سے زیادہ نقصان بھی پہنائیں گے ۔ یہی منافقت رویوں کے علاوہ ہمارے معاملات میں بھی ملتی ہے ہم اپنے مفادات کی خاطر کسی کو بھی نقصان پہنچانے سے دریغ نہیں کرتے لیکن کمال ڈھٹائی سے اپنی اس حرکت کے منکر بھی ہیں ۔ہم رشوت لیتے ہیں ،سود خور ہیں ،کام چور ہیں ،بد دیانت ہیں ،قانون شکن ہیں ، بحثیت مسلمان مذہبی معاملات میں کوتاہیاں کرتے ہیں مذہب کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔ لیکن جب باری آتی ہے ذمہ داری لینے کی تو ہماری پہلی اور آخری توجیح ہوتی ہے کہ ایک میرے ایسا کرنے سے کیا نقصان ہے سب کرتے ہیں ۔لطف اس بات کا ہے کہ جو جتنا بڑا چور ہے وہ ہی چوری کے خلاف احتجاج میں اتنا بڑا مقرر بھی ہے۔ حضرت علی ؓ کا قول ہے معاشرہ کفر پر قائم ہو سکتا ہے لیکن ظلم پر نہیں ۔ اور ظلم کی بنیاد ہی منافقت ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم اپنی ذات کے ساتھ بھی مخلص نہیں ہیں ہمیں غرض ہے تو فقط اس سے کہ ہم جس شعبہ زندگی میں ہیں اور جس مقام پر ہیں اس سے آگے بڑھنے کے لیے اور زیادہ سے زیادہ مال و دولت اکٹھا کرنے کے لیے کون کون سے ہتھکنڈے بروئے کار لائے جا سکتے ہیں ۔ منافقت کی اس سے بڑی مثال کیا ہو گی کہ ہم میں سے اکثر اس بات کے معترف ہیں کہ ان کے رویے ، افکار ،عادات اور کردار ہر لحاظ سے خرابی کی جانب زیادہ ہے لیکن بات کویہ کہہ کر ختم کر دیا جاتا ہے کہ چھوڑو جی اتنا تو چلتا ہی ہے ۔ منافقت کی اس چادر کو جس نے بھی چاک کرنے کی کوشش کی ہے وہ سماج کا اپرادھی ہے ۔کیونکہ سماج کے ناخدا فیصلہ کر چکے ہیں کہ’’ لوگ کیا کہیں گے ؟‘‘ کی آڑ میں کسی بھی اپرادھی کی آواز کا گلا گھونٹ دیا جائے ۔قارئین آج سے فیصلہ کر لیں کہ ہم نے اپنے اندر کی منافقت کو ختم کرنا ہے ۔معاشرے کے منافقین کا راز فاش کرنا ہے اور ببانگ دھل حق اور سچ کہنا ،سننا بولنا، لکھنا ،پڑھنا ،اور برداشت کرنا ہے ۔ لوگ کچھ بھی کہتے رہیں ہمیں وہ کرنا ہے جو درست ہے جو آپکی عقل ،ضمیر اور مذہب درست کہتا ہے ۔راہنمائی کی ضرورت ہر انسان کو ہر دور میں رہی ہے لیکن راہنما جب آپ کو گاڑی کی ٹیل لائٹ کے پیچھے لگانے کی کوشش کرے اس کو فی لاالفور اﷲ کی امان میں دیتے ہوئے اپنی عقل اور فطرت کے مطابق فیصلہ کریں ۔منافقانہ رویوں کے خلاف جہاد ،اور معاشرے کے ان اصولوں کے خلاف بغاوت کریں جو اس لیے بنائے گئے ہیں کہ فوائد ایک مخصوص طبقے کے علاوہ کسی تک نہ پہنچیں ۔یاد رکھیں اختلاف آپ کا حق ہے اور یہ حق ایسا ہی ہے جیسے کہ ہر انسان کو خدا کی تخلیق کی گئی کائنات میں سانس لینے کا حق ہے ۔اپنے خیالات کو سانس لینے دیں پنپنے دیں ۔ لوگ کیا کہیں گے کے خوف سے باہر آکر دیکھیں زندگی بہت خوبصورت اور پر کشش ہے ۔ سماج کو اب تک پجاری ملے ہیں لیکن اب اس سماج کو اپرادھی ملنے ضروری ہیں ۔ اگر زندگی خود جینا چاہتے ہیں تو یہ اپرادھ کرنا ہو گا ورنہ پوجا پاٹھ میں تو سب لگے ہیں آپ بھی سر نہیواڑ کر آنکھیں بند کر لیں اور جب کوئی انا الحق کی صدا سنائی دے اس کا گلا دبوچ لیں ۔
Mubashir Hasan Shah
About the Author: Mubashir Hasan Shah Read More Articles by Mubashir Hasan Shah: 3 Articles with 1906 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.