امن کے پیامبرو

اسلام ایک دین فطرت ہے جس کی تعلیمات امن و اآشتی اور انسانی ہمدردی پر مبنی ہیں۔ یہ ایک ایسا مذہب ہے جو انسانی اقدار و حقوق کی نہ صرف حفاظت کرتا ہے؛ بلکہ اس کا پر زور داعی و علمبردار بھی ہے۔اس نے دنیا کو اس وقت انسانی حقوق سے روشناش کرایا جب کہ نام نہاد متمدن تہذیبیں اور قیصر وکسری جیسی سوپر پاور طاقتیں انسانیت کی دھجیاں اڑارہی تھیں۔ ان کے ظلم وبربریت سے انسانیت شرمسارتھی۔ نسل انسانی ان کے سفاکیت کی مشق ستم بنی ہوئی تھی اور پوری انسانیت سسک رھی تھی ۔اسلام کے ہر پیغام میںانسانی ہمدردی و بشری دوستی کی جھلک ملتی ہے؛ یہاںتک کی جنگ وجدال کے موقع پر بھی یہ اپنے پیروکاروںکو اس بات کا پابند بناتا ہے کہ انسانیت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹنے پائے اور حکم دیتا ہے کہ بچوں،بوڑھوں،مریضوں،عورتوں؛ یہاںتک کہ فصل وباغات کو بھی کو ئی گزند نہ پہونچائے، قید یوںکے ساتھ عمدہ سلوک کیا جائے ، مقتول دشمن کی نعشوں کی بے حر متی سے مکمل گریز کیا جائے اور اس آفاقی پیغام ۔۔۔من قتل نفسا بغیر نفس اوفساد فی الارض فکا نماقتل النّاس جمیعًا ومن احیا ھافکا نّمااحیا النّاس جمیعًا (۔۔۔جو شخص کسی شخص کو بلا معاوضہ دوسرے شخص کے یا بدون کسی فساد کے جو زمین میں اس نے پھیلایا ہو قتل کر ڈالا تو گویا اس نے تمام آدمیوں کو قتل کرڈالااور جو شخص کسی شخص کو بچالیوے تو گویا اس نے تمام آدمیوں کو بچا لیا:سورہ المائدہ آیت نمبر ۳۲) کے ذریعہ نسل انسا نی کو دوام بخشا ہے۔
لیکن آج بڑے افسوس کے سا تھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ اس انسانیت نواز مذہب کو ایک بڑی سازش کے تحت دہشت گردی اور ظلم و بر بریت سے جوڑا جارہا ہے اور عالمی ذرائع ابلاغ اس کا اس شدت سے سے تشہیر کررہا ہے کہ آج جہاں کہیں بھی دہشت گردی ،خون خرابہ، فساد و خونریزی کے واقعات رو نما ہوتے ہیں؛ تو سادہ لو ح عوام کا دماغ بلا تامل اسلام اور اس کے پیروکاروں کی طرف جاتا ہے۔ اسلام کو اس طرح ان لوگوں نے بدنام کیا ہے،جن کے ہاتھ معصو موں کے خون سے رنگے ہو ئے ہیں، جنھوں نے دنیا میں بے پناہ تباہی وتخر یبی کاروائی کرکے بے شمار عورتوں کے عزت ونامو س کوپامال کیا اور ان کی ہی وجہ سے لاکھوںبچے یتیم اور عورتیں بیوہ و بے سہارا ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جنھوں نے اپنے سیاسی تسلط کے لئے دنیا کو دو جنگ عظیم کا تحفہ دیا اور ساتھ ہی ساتھ ناگا ساکی اور ہیرو شیما جیسے روح فرساں، دہشتناک اور انسانیت کو شرمسار کر دینے والے سانحہ کو انجام دیا جو انسانی تاریخ کا ایک سیاہ ترین باب ہے ستر سال سے زیادہ عرصہ ہونے کے باوجود جیسے آج بھی جاپان کے باسی بھول نہیں پائیں۔ ان کی اس بدترین کارناموں کی فہرست پر ابھی بھی لگام نہیں لگا ہے؛ بل کہ آج بھی ہر نئے دن کا سورج ان کے ظلم و بربریت کی ایک نئی روداد لئے طلوع ہوتا ہے۔ابھی تو امریکی انتخابات میں اسلام مخالف شخص ڈونلڈ ٹرمپ جیت گیا اور اس کے بعد اس بربریت میں اضافے کا بھی خطرہ ہے -

اگر ہم اسلامی تاریخ پر ایک نظر ڈالتے ہیں اور اسلام کی تعلیمات کا ان نام نہاد امن کے پیا مبروںکے اعمال سے موازنہ کر تے ہیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جا تی ہے کہ ان لو گو ں نے دنیا کے اقوام پر جنگ و جدال کو اس لئے مسلط کیا تاکہ دنیا کے خزانوں پر ان کا قبضہ ہو جا ئے دنیا کے سارے وسائل ان کے زیر نگیں ہو جا ئے اور پو ر ی دنیا پر بالواسطہ یا بلاواسطہ ان کا تسلط قائم ہو جائے۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم اور اسی طرح مو جو دہ وقت میں شام، یمن،افغانستان،فلسطین کشمیر برما عراق وغیرہ اس کی زندہ مثال ہے ۔ جب کہ اسلام ظلم و بربریت کے استیصال، انسانی حقوق کی حفاظت اور مظلوموں اور درماندوں کے حقوق کی بازیابی کیلئے جنگ کی مشروط اجازت دیتا ہے۔ اگر بغیر جنگ و جدال کے یہ مقاصد حاصل ہو جائیں؛ تو اس کی چنداں ضرورت نہیں اور اگر جنگ کی نوبت آہی جائے تو انسانی و اخلاقی حدود سے تجاوز کی با لکل اجازت نہیں دیتااور قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک وحسن معاشرت و نرمی کے برتائو کا حکم دیتا ہے جس کا اس کے پیروکاروں نے ہمیشہ عملی مظاہرہ بھی کیا ہے ۔ غزوہ بدر کے موقع پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین نے قیدیوں کے ساتھ جو حسن سلوک کا معاملہ کیا اس کی شہادت کے لئے ابو عزیز بن عمیر جو کہ حضر ت مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہہ کے بھائی ہیں اور لشکر کفار کے علمبردار تھے کا بیا ن کافی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب مجھے بدر سے گرفتارکرکے مدینہ لارہے تھے؛ تو میں انصاریوںکی ایک جما عت کے حراست میں تھا، کھانا کھانے بیٹھے تو روٹی مجھے دیتے اور خو د کھجوریں کھا کر گذارہ کر لیتے۔ میںشر ماکر رو ٹی ان میںسے کسی کو دیتا تو وہ پھر مجھے واپس کر دیتے۔ سینکڑوں جنگی قیدیوں نےصحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہ اجمعین کے حسن سلوک کی وجہ سی اسلام قبول کیا، کیا دنیا نے انسانی تا ریخ میں اس قسم کے حسن اخلاق کا کبھی مشاہدہ کیا تھا؟ یقینا جواب نفی میں ملے گا۔
آج کے نام نہاد متمدن اور امن پسند وں نے مد مقابل افواج کے سا تھ ایسی درندگی،اخلاق سوزی اور حیوانیت کا مظاہرہ کیا ہے کہ انسان تو انسان حیوان بھی شرما جائے بدنام زمانہ ــــ ـ’’گوانتاناموبے‘‘جیل اس کی ایک جھلک ہے جو حد درجہ ظلم وبربریت،سفاکیت،درندگی ودہشتناکی کی آماج گاہ بنی ہوئی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اسلام ان کے ہر طرح کی کوششوں کے باوجود بھی اس صفحہ ہستی پر تا قیامت باقی رہے گا اوریہی ایک مذہب ہے جو اقوام عالم کو ظلم وجور کی مسلسل غلامی سے نکال سکتا ہے اور در ماندہ وسکون واطمینان کی متلاشی دنیا کوایک ابدی سکون فراہم کر سکتا ہے۔ آج اسلا م کی مبنی بر فطرت تعلیمات کو پڑھ اور برت کر دنیا ہرطرح کی اخلاقی ،سماجی اور ذہنی پستی سے نجات حاصل کر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے نام نہاد مہذب و مثقف لوگ اسلام کے صاف ستھرے چہرے کو مسخ کرنے اور اسے بدنام کر نے کیلئے طرح طرح کے ہتھکنڈے اختیار کر رہے ہیں؛ کیوں کہ انھیں چڑھتے سورج کی طرح اذعان کامل ہے کہ ان کے ناپاک عزائم کی تکمیل میں صرف اور صرف اسلام اور اس کے پکے سچے پیروکار ہی حائل ہیں۔
Inayat Kabalgraami
About the Author: Inayat Kabalgraami Read More Articles by Inayat Kabalgraami: 94 Articles with 94098 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.