تشدد، جرم ،دھمکی اور خواجہ سرا

عام تاثر یہی ہے کہ مرد اور عورت خدا کی تخلیق ہیں ان کو اللہ نے دنیا میں اپنا نائب بنا کر بیجھا اور اپنی عبادت کے لیے ان کو تخلیق کیا پوری تاریخ عالم اور سارے مذاہب میں بس مرد اور عورت کا ذکر ہی ملتا ہے کہیں بھی خواجہ سراوں کا ذکر موجود نہیں نہ کوئی شرعی آزادی اور رعایت کہیں درج ہے۔

یہ ناچ گانا کر اپنا پیٹ پالتے ہیں اور اپنی مشکل ترین زندگی کی گاڑی کو چلانے کی کوشش کرتے ہیں بچپن میں ان کو والدین کی بھرپور مزاحمت ہوتی ہے۔ اور ان کی مکمل سرزنش کی جاتی ہے ان کو عجیب و غریب حرکتوں سے روکنے کی پوری کوشش کی جاتی ہے۔ اگر پھر بھی وہ اپنی حرکتوں سے باز نہ آئیں تو ان کو گھر سے نکال دیا جاتا ہے۔تب ان کی دیکھ بھال ایک گرو کرتا ہے وہ ان حالات سے گزر چکا ہوتا ہے اس لیے ان کا دکھ سمجھتا ہے اور ان کا مکمل ساتھ دیتا ہے جبتک وہ اپنی روزی روٹی چلانے کے قابل نہیں ہو جاتے ۔

خواجہ سراؤں کی سب سے بڑی خوبی جذبہ محبت اور مخلص پن ہے نہ صرف اپنے گرو کے بڑھاپے کا سہارا بنتے ہیں بلکہ اپنے والدین کو بھی مکمل سپورٹ کرتے ہیں جو کبھی اپنی عزت اور سٹیٹس کی وجہ سے ان کو گھر سے نکال دیتے ہیں ۔

عام طور پر ان کا پیشہ ڈانس کرنا ہے کیونکہ وہ اعلیٰ تعلیم ہونے کے باوجود بھی لوگوں کی جلی کٹی باتوں کا سامنا کرتے ہیں اور ان کو معاشرے میں ایک عام انسان کے حقوق بھی حاصل نہیں ۔ ان کے پاس روزی روٹی کمانے کا واحد طریقہ فنکشنز میں ڈانس کرنا ہوتا ہے وہاں بھی ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا جاتا ہے جس کو برداشت کرنا ان کو آتا ہے مگر ان کا دل خون کے آنسو روتا ہے جب ان کو دنیا کا کوئی بھی انسان قبول نہیں کرتا وہ اپنی آواز کس کو سنائیں ۔کون ان کی داد رسی کرے گا؟ایسا ایک واقعہ کچھ دن پہلے سیالکوٹ کے علاقے میں پیش آیا جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر موجود تھی مگر حقائق سے پرداہ نہیں اٹھا تھا اس ویڈیو میں ایک نوجوان اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ ایک خواجہ سرا کو چارپائی پر الٹا لیٹا کر تشدد کرتا ہے اور اپنے بیلٹ کے ساتھ اس کو مار مار کر ہلکان کر دیتا ہے گالیاں اور دھمکیاں دیتا ہے اور کہتا ہے آئندہ اگر ایسا کچھ ہوا تو وہ جان سے مار دے گا ۔۔۔۔۔۔

یہ ویڈیو کا آنکھوں دیکھا حال ہے آپ سب بھی یہی تاثر لو گے جو میں نے لیا مگر کچھ پہلو اور بھی ہیں جن کی طرف میں حکومتی اداروں اور عوام کی توجہ کروانا چاہتا ہوں ۔

ہر شہر میں خواجہ سرا موجود ہیں ان کو شادی بیاہ پر ڈانس کے لیے بلایا جاتا ہے جو وہ کما کر لاتے ہیں اس کا کچھ حصہ گرو کو دیا جاتا ہے باقی وہ خود رکھ لیتے ہیں اب حقیقت کچھ اس طرح ہے کہ گرو کے علاوہ بھی ایسے عناصر موجود ہیں جو ان سے کمیشن لیتے ہیں جو ان سے پیسے بٹورتے ہیں کیونکہ مظلوم اور بے یارومددگار یہ لوگ بہت بےبس ہوتے ہیں خواجہ سراوں پر کئے جانےوالے گھریلو تشدد کی یہ ایک بھیانک اور انتہائی خطرناک شکل ہے، صرف پنجاب ہی نہیں پاکستان کے مختلف شہروں اور دیہاتوں میں ان پر تشدد عام ہے۔

پاکستانی معاشرے میں خواجہ سراوں کو چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی بات مختلف طریقوں جسمانی، ذہنی تشدد کا نشانہ بنانا اور تشدد کے بعد قتل ایک عام بنتی جارہی ہے وہیں ریاستی ادارے بھی اس تشدد کی فضا کو کم کرنے اور قوانین ہونےکے باوجود اس پر عملدرآمد کرانے میں مکمل ناکام دکھائی دیتے ہیں۔
خواجہ سراوں پر تشدد کے حوالے سے پاکستان میں الماس بوبی کا کہنا ہے کہ’ہرسال ملک بھر سے خواجہ سراوں پر تشدد کے کیسز کے جو اعداد و شمار مرتب کئےجاتے ہیں افسوسناک بات یہ ہے کہ اسمیں اضافہ ہوتا جا رہا ہے‘۔

حکومتی سطح پر اسکے خلاف کوئی بل اور قوانین اسمبلیوں میں نہیں لاے گئے، اور ملک بھر میں خواجہ سراوں پر تشدد میں ہونے والے مسلسل اضافے پر تمام حلقوں کیلئے سوچنے کا مقام ہے‘۔

جب تک معاشرے سے قبائلی اور جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ ممکن نہیں ہوگا اور طبقاتی نظام سے چھٹکارہ حاصل نہیں ہوگا تب تک مظلوم طبقوں پر ظلم ختم نہیں کیا جاسکتا۔ معاشرتی سطح پر اگر خواجہ سراوں کو تحفظ کا بل منظور کیا جائے انہیں ایک عزت اور مقام دیا جائے اور انھیں ان کے جائز حقوق فراہم کئےجائیں تو خواجہ سراوں پر تشدد میں کمی آسکتی ہے‘۔

ہو سکتا ہے ان لوگوں کے خلاف میڈیا کے دباوٴ پر ایف آئی آر درج ہو جاے ملزم گرفتار ہو جائیں کل کو ضمانت پر ان کو رہائی مل جاے گی ۔کبھی کسی نے سوچا ہے کہ ان کے خلاف کھڑے ہس گئے ہیں اب ان لوگوں کو ڈرایا دھمکایا جاے گا کیس واپس لیا جاے گا اور دوبارہ پھر وہی کام شروع ہو جاے گا ۔

ہم کب تک بے حس رہیں گے سب لوگ برا تو کہتے ہیں مگر میڈیا ہاوس کوئی حکومتی ادارہ ان کے لیے تھانے کھڑا نہیں ہوا ؟ کیونکہ وہ ایک مظلوم جنس ہے ان کا خاندان بھی ان کو سپورٹ نہیں کرتا کوئی انسانی حقوق کی این جی او ان کو پرموٹ نہیں کرتی کیونکہ مختاراں مائی تھوڑی ہے
Ahmar Akbar
About the Author: Ahmar Akbar Read More Articles by Ahmar Akbar: 21 Articles with 14559 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.