بچے پھول کی مانند ، نازک ہوتے ہیں، ہم سب
کو مل کر انہیں مرجھانے سے بچانا ہو گا۔ بچوں کو چائلڈ لیبر سے نکال کر
تعلیم کی طرف راغب کرنا ہوگا۔ حکومت بچوں سے جبری مشقت کے بارے میں ہنگامی
بنیادوں پر کانفرنس بلا کر بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں، ناانصافیوں
اور جبری مشقت کے خاتمے کے لئے ضروری اقدامات کرے۔بچوں کے حقوق کے لئے
حکومت کے ساتھ ساتھ معاشرے کے ہر فرد کو بھی اپنا مثبت کردار ادا کرنا
چاہیے۔تعلیم صحت کھیل اور خوراک ہر بچے کا بنیادی حق ہے۔سب سے پہلے وجہ دور
کی جائے وجہ غربت ہے ، جس کی وجہ سے وہ اس عمر میں کام کرنے پر مجبور ہیں
تاکہ آنے والے وقت میں وہ بچہ ایک اچھا اور باشعور شہری بن سکے اور اپنا
اور اپنے ملک کا نام روشن کرے۔حکومت بچوں سے جبری مشقت کے خاتمے کو یقینی
بنانے اور غریب بے روزگار افراد کو روزگار فراہم کرکے ان کے معصوم بچوں کے
مستقبل کو روشن بنانے کے لئے موثر اقدامات کرے۔
بچوں کا عالمی دن منانے کے بے شما ر مقاصد ہیں جن میں بنیادی طور پر بچوں
میں تعلیم، صحت، تفریح اور ذہنی تربیت کے علاوہ بچوں کی فلاح و بہبود کے
حوالے سے شعور اجاگر کرنا، بے گھر بچوں کو بھی دیگر بچوں جیسی آسائشیں مہیا
کرنا اوّلین ترجیح ہے۔ تعلیمی اداروں میں بچوں کو ان کے حقوق سے آگاہ کرنے
کے لئے خصوصی تقریبات منعقد کی جاتی ہیں اور اساتذہ بچوں میں شعور پیدا
کرتے ہیں کہ ا ن میں اور دنیا کے دوسرے بچوں میں کیا فرق ہے اور وہ کس طرح
خود کو تعلیمی و سماجی لحاظ سے بہتر بنا سکتے ہیں۔ تاکہ ملک بھر کے بچے
مستقبل میں معاشرے کے ایک ذمہ داراور اچھے شہری بن سکیں۔ بچوں کی فلاح و
بہبودکا عالمی ادارہ یونیسیف بھی اس دن کو منانے کے لئے اپنابھرپور
کردارادا کرتا ہے۔ اس دن بچوں میں بہتری اور بھلائی کے لئے، ان کی ذہنی و
جسمانی صحت کیلئے سوچ بچار کی جاتی ہے اور منصوبے تیار کئے جاتے ہیں ملک
بھر میں بچوں کے حقوق کیلئے سرگرم سماجی تنظیموں کے زیراہتمام
سیمینارز،واکس اور دیگر تقریبات کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔بچوں میں تحفے
تحائف تقسیم کئے جاتے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 1989 ء میں بچوں کے منظور شدہ حقوق کا
اعلان کیا تھا جس میں 20 نومبر 1990 ء کو دنیا کے 186 ممالک نے بچوں کا
عالمی دن منانے کی قراردادمنظورکی تھی۔پوری دنیا میں اس دن کے حوالے سے
تقاریب ، اخبارات اور میگزین میں اشاعت خاص کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ٹی وی پر
بچوں کے حقوق کے عالمی دن کی مناسبت سے پروگرام کئے جاتے ہیں۔
پاکستان میں اس وقت بچوں سے چھوٹی فیکٹریوں، ہوٹلوں،کارخانوں، اینٹوں کے
بھٹوں اور دوسرے کاروباری مراکز میں مشقت لی جارہی ہے جو سرا سرظلم ہے۔
معصوم بچوں سے مشقت کی حوصلہ شکنی کرنا اور چائلڈ لیبر ایکٹ کی خلاف ورزی
کے مرتکب افراد کے خلاف کاروائی کرنا وقت کی ضرورت ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ
بچوں کے امور کے لئے وفاقی اور صوبائی سطح پر علیحدہ وزارتیں اور ڈویژن کی
سطح پر آفیسر مقرر کئے جائیں جہاں پر بچوں کی بہتری کے لئے عملی ا قدامات ا
ٹھائے جائیں، ان کو در پیش مسائل کے حل کو فوری عملی جامہ پہنانے کی کوشش
کی جائے ان کی مشکلات کو دور کیا جائے اوران کی داد رسی کی جائے۔ جبکہ بچوں
کے مسائل کے حل میں صرف صوبائی محتسب پنجاب کا چلڈرن کمپلینٹ آفس اور چائلڈ
پروٹیکشن بیورو کا محکمہ قابل تعریف خدمات سرانجام دے رہا ہے۔
ہمیشہ یہی کہا جاتا ہے کہ بچے قوم کا قیمتی سرمایہ ہیں، بچے من کے سچے ہوتے
ہیں ،بچے پھول کی مانند ہیں، ان سے پیارو محبت سے پیش آناچاہئے، کیا ہم
حقیقت میں ان کی قدر وقیمت سے واقف ہیں؟ ان کے بنیادی حقوق پور ے کر رہے
ہیں؟ گھروں، ہوٹلوں اور دیگر کاروباری مراکز میں کام کرنے والے مجبور اور
مظلوم بچوں سے اپنے بچوں جیسا سلوک کرتے ہیں؟ سڑکوں پرگاڑی صاف کرنے، کوڑا
کرکٹ اٹھانے والے اور بھیک مانگنے والے بچو ں کی پڑھائی کی ذمہ داری کس پر
عائد ہوتی ہے؟ ہر کوئی ان کو دیکھتا ہے اور حسب توفیق بھیک دے کر،گاڑی صاف
کروا کر آگے بڑھ جاتا ہے یا ان کو دھتکار دیتا ہے گویا ان بچوں کو یکسر نظر
انداز کردیا جاتا ہے۔کیا ہم اپنے بچوں کے روشن مستقبل کا ہر طریقے سے خیال
رکھتے ہیں؟ کیا ہم بچوں کو ان کی تعلیم ،صحت اور تفریح کی بنیادی سہولتیں
مہیا کررہے ہیں؟ کیا ہم چائلڈ لیبر کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں؟ اب سوال یہ
پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں بھی بچوں کی فلاح و بہبود کیلئے بھی کام ہورہا
ہے یا یہ سلسلہ صرف تقریروں تک ہی محدود رہتا ہے؟
یہ بھی حقیقت ہے کہ حکومت اپنی طرف سے بچوں کے بہتر مستقبل کے لئے اپنی سی
کوشش کررہی ہے لیکن کیا ہم بھی بچوں کی بہتر زندگی کے لئے ملک و معاشرے کی
خدمت کررہے ہیں؟ اکثر بچے اس لئے تعلیم حاصل نہیں کرپاتے کہ سکولوں میں
مارپیٹ اور ڈانٹ ڈپٹ کی جاتی ہے گو کہ اس پراب بہت کنٹرول کر لیا گیا ہے
لیکن دیہی علاقوں اور سرکاری تعلیمی اداروں میں یہ سلسلہ ا بھی جاری
ہے۔جبکہ یہ حقیقت ہے کہ سزا بچوں میں اصلاح پیدا نہیں کرتی بلکہ پڑھائی سے
بیزار کرتی ہے۔ اگر بچوں کی حوصلہ افزائی کی جائے تو یقینا ان کا مستقبل
روشن ہوگا اور اگر مارپیٹ اور ڈانٹ ڈپٹ کی جائے تو بچوں کی نہ صرف ذہنی
جسمانی نشوونما رک جاتی ہے بلکہ ان میں خود اعتمادی بھی جاتی رہتی ہے۔ترقی
یافتہ ممالک میں زیر تعلیم بچوں سے مار پیٹ یا ڈانٹ ڈپٹ سے کام نہیں لیا
جاتا کیا ہمارے ہاں بھی یہی صورت حال ہے؟ ان سوالوں کا جواب ہم سب پر قرض
ہے جو ہمیں دینا ہو گا ۔
ہمیں ایک دن بچوں کا عالمی دن منا کر خاموش نہیں بیٹھناچاہئے بلکہ عملی طور
پر سارا سال ان بچوں کے لئے کام کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اپنی نئی نسل کے
روشن مستقبل کیلئے کام کرنا ہم سب کی اولین ذمہ داری ہے،ہمیں اپنے بچوں کو
وہ تمام بنیادی حقوق مہیا کرنے ہوں گے جن سے وہ محروم ہیں۔جو والدین کسی
مجبوری کے باعث بچوں کو تعلیم نہیں دلو اسکتے یا معاشی مسائل کے سبب بچوں
سے پر مشقت کام کروانے پر مجبور ہیں، حکومت کو ان بچوں پر خصوصی توجہ دینی
چائیے اور ان بچوں کو زیور تعلیم سے آرا ستہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کا وظیفہ
مقرر کرنا چائیے۔بچوں میں ایسا شعور اجاگر کیاجائے کہ جس سے بچے شوق سے
تعلیم حاصل کریں۔ تعلیم حاصل کرنے کی عمر میں محنت مشقت کرنے والے بچوں کو
پیار سے سمجھایاجائے تاکہ ان میں تعلیم حاصل کرنے کا شوق پیدا ہو۔
بلاشبہ بچے ہی ہمارا سرمایہ افتخار ہیں، ہمارا آنے والا کل ہیں، ہماراروشن
مستقبل ہیں، ان کی بہترین پرورش میں عدم توجہی انتہائی نقصان دہ ثابت
ہوسکتی ہے۔ ہمیں نہ صرف اپنے بچوں بلکہ پورے ملک ومعاشرے کے بچوں کی
بہترمستقبل کے لئے مل جل کر اقدامات کرنا ہوں گے۔ |