ضرورت

 اﷲ تعالیٰ کا شکر ہے کہ پاکستانی قوم کو اپنی ایک اہم ضرورت کا علم ہوگیا، وہ یہ کہ ’’شرح خواندگی میں اضافہ کے لئے تعلیمی بجٹ میں چار فیصد اضافہ کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔ اس ضرورت کا انکشاف صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان جناب ممنون حسین نے اس وقت کیا، جب تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت کے وزیر مملکت میاں بلیغ الرحمن اُن سے ملنے ایوانِ صدر گئے۔ یہ ملاقات نہایت خوشگوار ماحول میں ہوئی، کیونکہ حُسنِ اتفاق سے دونوں حضرات کے نظریات میں کمال درجے کی یکسانیت اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے، دونوں پاکستان میں تعلیم عام کرنے کے مشن کو نہایت جذباتی انداز میں آگے بڑھانے کے لئے کوشاں رہتے ہیں،دونوں کے حکومتی عہدوں کے آغاز ہی سے بڑے گہرے مراسم ہیں، وجہ سیاسی تعلق بھی ہوگا، مگر اصل وجہ تعلیم کی بہبود ہے۔ میاں بلیغ وزیر مملکت ہوتے ہوئے تعلیم کو اس قدر بلند مقام پر لے گئے ہیں، اگر وہ پورے وزیر ہوتے تو پاکستان میں تعلیم مزید بلند پرواز ہوتی۔ پاکستان میں تعلیمی ترقی کی دوسری اہم ترین وجہ صدرِ مملکت ہیں، کہ انہوں نے اپنی مملکت کے وزیر کو ہر قسم کی مدد اور تعاون کی یقین دہانی کروائی ہے۔ خوش قسمتی نے عوام کے ہاں ڈیرے ڈال دیئے ہیں، کہ اُن کے اِن دونوں سرپرستوں کے عہدے مملکت سے جڑے ہیں۔ صدر مملکت نے تعلیم پر چار فیصد خرچ کرنے کو ملک کی ضرورت بتایا، اور یہ مشورہ بھی دیا کہ سرکاری اور نجی ادارے مل کر پالیسیاں بنائیں، تاکہ معیارِ تعلیم میں بہتری لائی جاسکے۔

صدر مملکت نے ایک اور بے حد اہم ضرورت کی نشاندہی بھی کی، انہوں نے کہا کہ ’’اداروں میں رضاکارانہ کام کرنے کے رجحان کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے‘‘۔ پاکستان کے آئینی سربراہ کی زبان سے ادا ہونے والے اس جملے کی بڑی اہمیت ہے۔ اگر اپنے ہاں لوگوں میں رضاکارانہ طور پر کام کرنے کا جذبہ پیدا ہو جائے تو بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ بے حد سرکاری اخراجات میں کمی آسکتی ہے، وہ لوگ جو کئی دہائیوں تک سرکاری خزانے سے تنخواہ لینے کے بعد اب ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے ہیں، اور اﷲ تعالیٰ نے انہیں اچھی اور قابلِ رشک صحت سے بھی نوازا ہے، ان کی آمدنی بھی معقول ہے تو اگر وہ مختلف اداروں میں اپنی بلامعاوضہ خدمات پیش کرنے کے لئے تیار ہو جائیں تو اس سے بڑھ کر اور کونسی خوش قسمتی ہو سکتی ہے۔ اس صورت میں متعلقہ ادارے کو تجربہ کار مشیر میسر آسکتا ہے، اسی طرح سکولوں کالجوں میں بھی ریٹائرڈ اساتذہ خدمات سرانجام دے سکتے ہیں۔ مگر اپنے ہاں گنگا الٹی بہتی ہے۔ یہاں زندہ ہاتھی لاکھ کا ہوتا ہے اور مرنے کے بعد وہ سوا لاکھ کا ہو جاتا ہے، نوکری سے فارغ ہونے کے بعدا نہیں پہلے سے زیادہ تنخواہ پر نئی ملازمت مل جاتی ہے۔ واضع رہے کہ صدر صاحب کا یہ مشورہ صرف دوسروں کے لئے ہے، ورنہ پاکستان میں ایک شخصیت پر اگر سب سے زیادہ قومی خزانے سے رقم خرچ ہوتی ہوگی تو وہ صدرِ پاکستان ہیں۔ اپنے عہدے کے لئے نہ تو ’’رضاکارانہ‘‘ کام کرنا چاہتے ہیں اور نہ ہی کروڑوں روپے سالانہ خرچ کو کم کرنے کا منصوبہ دکھائی دیتا ہے۔ تاہم رعایا کا فرض ہے کہ وہ صدر مملکت کی ایک ایک بات پر عمل کریں اور رضاکارانہ کام کرنے کے رجحان میں بہتری لائیں۔ جناب ممنون حسین نے تعلیمی پروگرام پر عملداری کے لئے تمام وسائل بروئے کار لانے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔

ایک اور ضرورت بھی زیر بحث لائی گئی، کہ قائد اعظم یونیورسٹی (اسلام آباد) کی چار دیواری مکمل کی جائے، اور مزید اہم یہ کہ یونیورسٹی کی زمین ناجائز قابضین (؟)سے چھڑوانے کے لئے اقدامات کی ضرورت ہے۔ دونوں اہم شخصیات نے صرف ’’ضرورت‘‘ کی بات کی، کیونکہ اس سے بڑھ کر دونوں کے اختیار میں اور کچھ بھی نہیں۔ ان کی بتائی ہوئی ضرورتوں کو کون پورا کرے گا ؟ اس بارے میں کچھ معلوم نہیں۔ ایوانِ صدر کا بجٹ شاید صدر صاحب کی ضرورت پوری کرتا ہے، مگر تعلیم کا بجٹ نہ تو صدر صاحب بناتے ہیں اور نہ ہی تعلیم کے چھوٹے وزیر۔ جو لوگ بجٹ بناتے ہیں ، ان کی اپنی ترجیحات ہیں۔ چلیں یہ تو بے اختیار لوگ ہیں، یہاں تو اپنے وزیر اعظم بھی اپنے نشریاتی خطاب میں فرما رہے ہوتے ہیں کہ ․․․’یہاں تھانے بکتے ہیں، یہاں دفاتر میں کوئی کسی کی بات نہیں سنتا، یہاں سکولوں میں کمرے ، چار دیواری نہیں، حتیٰ کہ استاد بھی نہیں، یہاں انصاف نہیں ملتا ․․․وغیرہ وغیرہ‘‘۔ کوئی بااختیار ہو یا بے اختیار، پروٹوکول اور مراعات میں کوئی کمی نہیں۔ یہی ان کی ضرورت ہے، عوام کی کیا ضرورت ہے، کسی کو فکر نہیں۔
 
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 428346 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.