الیکشن میں دھاندلی ہو یا حکومتی
غلط بیانی، بدکلامی ہو یا بد انتظامی ہمیشہ ہی افسوس کا اظہار کیا۔ عوامی
ترجمانی کا کبھی بھی دعویدار نہیں رہے۔ کیونکہ سیاست ہو یا سیاسی چالبازی
کے جراثیم کبھی پنپ نہیں پائے۔ مگر ایک بری عادت نے کبھی ساتھ نہ چھوڑا۔
سوچنے کی عادت جو شروع سے تھی لیکن آج سوچ کے تمام دروازے بند محسوس ہو رہے
ہیں۔ حالات سے کبھی گھبرائے نہیں۔ مسائل سے نپٹنا اور حالات سے مقابلہ کرنے
کی اپنی سی سعی کرتے ہیں۔
علامہ اقبال کے اس شعر کو ہمیشہ پلو سے باندھ کے رکھا کہ زرا نم ہو تو یہ
مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔ ایک نہ ایک دن ہمیں ضرور احساس ہوگا۔ بحیثیت قوم
ہمارے اندر جو خامیاں رہ گئی ہیں۔ ضرور جلد یا بدیر ان پر قابو پا لیا جائے
گا۔ لیکن سیالکوٹ میں دو نوجوانوں پر تشدد کے دن دیہاڈے سینکڑوں کے ہجوم کے
سامنے پیش آنے والے واقعہ نے انسانی تاریخ میں رونما ہونے والی وحشت و
بربریت کی داستانوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ ہسٹری چینل پر صدیاں پرانے مخالفین
پر ڈھائے جانے والے مظالم کے لئے جو طریقے اختیار کئے جاتے تھے۔ میرے اوسان
خطا کرنے کے لئے کافی تھے۔ ظلم و بربریت کی جو داستان قومی اور انتظامی سطح
پر تماشا دیکھنے سے رقم کی گئی ہے۔ شائد اگلی صدی میں انہیں بھلانا ممکن
نہیں ہوگا۔ آخر ایسی بھی کیا جرم کی انتہا ہو گئی کہ دیکھنے والے صرف
تماشائی ہونے تک اپنا حق ادا کرتے رہے۔ سانس لیتی زندگی سے لیکر موت سے
ہمکنار مردہ جسم مسلسل بربریت کی انتہا تک جا پہنچے۔
کئی دہائیوں سے مردہ باد مردہ باد کے نعرے لگانے والی قوم آج خود کو مردہ
قوم کی شرمساری کی آغوش میں پناہ لینے لگی۔ ظلم کرنے والے ہمیشہ سے بچوں و
خواتین کو تنہائی میں اپنی درندگی کا شکار کرتے رہے ہیں۔ ایسے ظالموں کو
کیفر کردار تک پہنچانے میں اجتماعی سطح پر قومی ذمہ داری کو ادا کیا جاتا
رہا ہے۔ مگر یہ واقعہ کسی بند کمرے یا اندھیری رات کی سرگوشی نہیں ہے۔ دن
دیہاڑے اجتماعی منظر کشی کا نمونہ خاص ہے ۔ جو ہمارے لئے سوالوں کے انبار
چھوڑ گیا ہے۔ کیوں ہمارا معاشرہ بےحسی کی تصویر بنتا جا رہا ہے۔ اور ادارے
مجرمانہ غفلت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ آج لکھنے کی طاقت نہیں۔ لفظ شرمندہ ہیں۔
ہاتھوں میں ڈنڈے لئے مارنے والوں کو دیکھتے خون کھول رہا ہے۔ زمین پر بے
بسی سے لیٹے خون میں لت پت ایک لمحے کو بھی زخم سہلانے کی مہلت نہیں پا رہے
تھے۔
دنیا کے کسی بھی مہذب ملک میں بھرے مجمع میں ایسی خوفناک بربریت کا شائد یہ
پہلا واقعہ ہو۔ جہاں قانون کے محافظ خود قانون کی دھجیاں اڑانے والوں کو
تحفظ دے رہے ہیں۔ اور بین الاقوامی سطح پر انصاف کی دہائی دینے والی قوم کے
سینکڑوں افراد خود ہی انسانیت کی تذلیل کے عینی شاہد ہوں۔
برسوں پہلے کے ایک واقعہ نے میرے اندر طلاطم پیدا کر دیا۔ جسے میں اپنے ایک
طنز ومزاح کے مضمون تھوڑی سی لفٹ کرا دے میں بیان کر چکا ہوں۔ تئیس سال
پہلے گورنمنٹ کالج لاہورمیں ایم اے میں داخلہ لینے کے چند روز بعد ہمارے
ڈیپارٹمنٹ کے سامنے آٹھ دس لڑکے دو مخالف پارٹی کے لڑکوں کو گھونسوں اور
لاتوں سے پیٹ رہے تھے۔ اور بیسیوں لڑکے خاموش تماشائی بنے خون آلود چہروں
پر نظریں جمائے وہیں کھڑے تھے۔ مجھ سے یہ منظر دیکھ کر رہا نہ گیا اور بیچ
میں کود پڑا۔ دونوں لڑکوں کو بحفاظت نکال کر لے گیا۔ کہنے والے کہتے رہے کہ
پرائی آگ میں کیوں کودے۔ خطرناک گروپ ہے اب اس کا خمیازہ تمہیں بھگتنا پڑے
گا۔ لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا۔
سیالکوٹ کے واقعہ نے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ آج ہم اس مقام پر کھڑے
ہیں کہ دل سے برا جاننے سے ہی اپنی فرض منصبی کو ادا کر رہے ہیں۔ روکنے
والے سینکڑوں ہاتھ ظلم کرنے والے چند ہاتھوں کے ہاتھوں یرغمال ہیں۔ اور
حکومت صرف نمائشی واقعات میں پانچ پانچ لاکھ کے چیک دینے سے غریبوں کی عزت
بحال کرنے کی ذمہ داری سے عہدہ برا ہونے کو ترجیح دیتی ہے۔
آج مجھے اپنے یہ اشعار شدت سے یاد آ رہے ہیں۔
دغاء انسان سے اُٹھ میرا وفاء ایماں گیا
ظاہر سیرت فرشتہ اندر دیکھا ہو حیراں گیا
نام خدا سے ہے جنکو ملتا مقامِ عزت جہاں
قلبِ سیاہ سے جلتا دیا خود اپنے پہ قرباں گیا
نام سے شہرت نہیں تو در سے گھر نہیں
جو خود کو نہیں بھولا دور اس سے لا مکاں گیا
ایک جسم و جاں میں رکھتے دو الگ فریب روپ ہیں
سوکھے پھول ہیں سب نام رکھا گلستاں گیا
خوش قسمت ہیں گل و گلزار عداوت خار رکھتے ہیں
ہر بشر عظیم کا ہاتھ اپنے ہی گریباں گیا
میرا فرش ملک ادنیٰ تیرا عرش فلک عظیم
حاکمیتِ فرعون نہ رہی مگر چھوڑ نفرت نشاں گیا
اسلاف اسلام تو ہے مجھے سفینہ محبت مقام مصطفےؑ
زمام رفعت مقام میں کھوتا بھٹکا انساں گیا |