بات جتنی مختصر اور جامع ہو گی۔
اختلاف کی اتنی ہی کم گنجائش رہے گی۔ زیادہ بولنے سے کبھی زبان پھسل جاتی
ہے تو مضمون کی طوالت سے بھی ایسا ہونا ممکن ہے کہ جذبات کی رو میں بہتے
بہتے اعتراض کی زد میں جا پہنچیں۔ خود کو اجڑ و گنوار کہوں تو بات سمجھ میں
نہیں آئے گی۔ کیونکہ انداز بیان سے تو کوئی اندازہ نہیں لگا پائے گا کہ
تعلیم کا میدان کہاں تک سر چکے جو اس سر درد کے مرض میں مبتلا رہے ہوں تو
چوٹی سر کرنا محاورے میں استعمال اچھا لگتا ہے۔
پہاڑوں سے بہتے بہتے میدانوں تک پھیلتے پانی جب آنکھوں سے آنسو بن برس
جائیں۔ تو خوشیاں دیکھنا تو درکنار سوچنا بھی بیکار ہو جاتا ہے۔ قافلے بے
سروسامانی کے نشان، سر پہ گھٹڑیاں بندھی زندگی بھر کی پونجی کے ساتھ، سوال
کرتی آنکھیں خاموش زبان سے شاعری کے مجموعہ کلام پر بھاری پتھر سے کاری ضرب
لگاتی ہیں۔
دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی امن کی فاختائیں۔ رحم کی صدائیں۔ درگزر کی ادائیں۔
محبت کے گیت۔ کھیت کھلیان باغ دلکشا۔ نہ دیکھوں پھر کبھی اجڑے دیار ۔ بچھڑے
یار۔ مدد کے طلبگار۔ نہیں ہوش کون ہے کس کا دلدار۔ بس امید کی ایک آس ہے۔
چہرے تصویر یاس ہے۔ لٹے پٹے قافلے ہیں۔ آٹا دال چاول کے مہنگے لوٹتے گھاؤ
ہیں۔ پچیس ہزار میں پچاس میل کی مسافت کا بار ہے۔
ہزار ہزار دیگوں میں بٹتی مرغ بریانی ہے۔ پھر بھی بھوکے اکثر بےیارومددگار
ہیں۔ بے چارے تعلیم میں بھی بہت پیچھے ہیں۔ علم سے نابلد اجڑ و گنوار ہیں۔
کلاس روم کے نام سے بھی تھے جو نہ آشنا آج سکولوں میں حاضری رجسٹر پر
پسماندہ حال ہیں۔ خواندگی کی شرح شرمندگی کی سطح پر۔ پہلے ہی سکولوں میں
پناہ لی ہوتی۔ تو ان پڑھ گنوار نہ رہتے۔ ہر الیکشن میں انگوٹھا لگانے سے
انگوٹھا چھاپ نہ کہلائے ہوتے۔
گھروں سے بے گھر مہاجر ہیں تو سکولوں میں رہتے پناہی۔ صفحہ ہستی سے مٹنے
والے اپنے گھروں کو جو نہ واپس لوٹ سکیں۔ اسی زمین پر رہیں گے بے گھر ہاری
کسان بن کے مہاجر یا پناہی۔
ہر طرف لاشیں ہیں۔ نہیں رہتی اب نئی خواہشیں۔ زندگی امن سے جی لیں یہی اب
ہیں فرمائشیں۔ کون جینے دے گا۔ پانی اترنے کی دیر ہے۔ زندگی صرف انہی کی
اندھیر ہے۔ جنہیں پہلے جینا بیزار تھا اب وہی زندگی کے طلبگار ہیں۔
ایک معافی پہ پھر وہی بنائیں گے نئی سرکار۔ جو آج نظر آتے ہیں لاچار۔ مدد
کے لئے آقاؤں کا ہے انہیں انتظار۔ آج سیاست پر بات نہیں کرنا تھی پھر بھی
ایک آدھ فقرے کے لئے معذرت۔ کیونکہ وہی مسیحا ہیں۔ بااختیار ہیں زور آور
ہیں۔ ان کی مدد کے بغیر تسلی و تسفی نہیں۔ شکوہ انہی سے سب کرتے ہیں۔ قوم
کو ایک کرنے کا تہیہ اب وہ آپس میں مل بیٹھ کر کرتے ہیں۔ ووٹوں پر جو تقسیم
کرتے تھے۔
ہر لیڈر کی اپنی قوم ہے پنجابی پختون سندھی پٹھان۔ جو ان میں نہیں وہ متحد
ہے۔ 14 اگست ان سب کی آزادی کا دن۔ جب سب اکٹھے جشن مناتے ہیں۔ صرف عید کے
چاند پر اتفاق نہیں کرتے ۔ تین دن تک اپنی ڈیڈھ اینٹ کی مسجد الگ بناتے
ہیں۔
جب الگ الگ ہو چکے تو اب یکجہتی کی ضرورت آن پڑی۔ اب قطرہ قطرہ دریا بننے
میں دیر کر رہا ہے۔ دوسروں پر انحصار کی بجائے خود کے بازو کو ہی طاقت
بنایا ہوتا۔ استعمال کے بعد نہ انہیں بھلایا ہوتا۔ تو متاثرین کو خالی
پلاٹوں سے بھی بے سروسامانی کے کیمپ اٹھائے جانے کو نہ کہا جاتا۔ 5 ہزار
روپے من تک آٹا نہ بکتا۔
اگر انہیں سیاست کے میدانوں کے بڑے شکاری نہ لکھوں تو پھر کیا لکھوں۔ جانتا
ہوں کہ سیاسی حالات پر لکھنا بوریت پیدا کرنے کا سبب ہے۔ اختلافی موضوعات
کو جو پزیرائی حاصل ہے وہ کسی دوسرے موضوع کو نہیں۔ خاص کر لسانی اور
مذہبی۔ یہ کسی مفروضہ کی بنیاد پر نہیں کہہ رہا۔ بہت سی باتیں کچھ کھلی تو
کچھ ڈھکی چھپی بیان کر چکا۔ اب اگر بات یہیں ختم نہ کروں تو پھر اعتراضات
کی ایک لمبی لسٹ ہے۔ تجربات اتنے سنجیدہ ہیں کہ غیر سنجیدگی طاری نہیں
ہوتی۔ |