آخر کب تک

چراغ اور گلاب دو بھائی تھے اور یہ دونوں بھائی پاکستان بننے سے پہلے لاہور میں مو جو د بھوبتیا ں گاؤ ں کے قریب رہتے تھے دونوں بھائی سادہ طبعیت کے مالک تھے وجہ یہ ہی تھی کہ انکے والدین سادہ اور نیک تھے اس لیے انہوں نے چراغ اور گلاب کو بھی نیک تربیت دی تھی دونوں بھائیوں کی شادی انڈیا کے علاقے امرتسر میں ہوئی تھی یہ خاندان ہر لحاظ سے خوشحال تھا اور خداتعالیٰ کی نعمتوں اور برکتوں سے مالا مال تھادونوں بھائی بہت محنتی ، ایماندار اور خوش اخلاق تھے جسکی وجہ سے پورے گاؤ ں میں یہ گھرانہ عزت کی نگاہ سے دیکھاجاتا تھا خاندان میں اضافہ ہوا دونوں بھائیوں کی اولاد ہوئی سب بہت خوش تھے ادھر ملکی صورت بدلی تو پاکستان اور انڈیا الگ ہوگئے بہت سے لوگ ہجرت کرکے انڈیا سے پاکستان آئے اور بہت سے لوگ پاکستان سے ہجرت کر کے انڈیا چلے گئے مگر چراغ اور گلاب اور انکے بزرگوں نے پاکستان میں رہنے کو تر جیح دی کیونکہ اس خاندان کو پاکستان کی سر زمین سے خاص اُنس تھا اور یہ کسی قیمت پر بھی پاکستان کو نہیں چھوڑنا چاہتے تھے جبکہ دونوں بھائیوں کی بیویوں کے میکے انڈیا میں تھے انکو یہ دکھ تھا کہ وہ اپنے بہن ، بھائی اور خاندان والوں کو نہیں مل سکیں گی خیر دونوں بھائیوں نے انکو سمجھایا اور اس بات پر آمادہ کیا کہ پاکستان ہی ہمارے لئے جینا مرنا ہے کیونکہ یہ ہمارا ملک ہے خاندان والوں نے بھوبتیاں سے ہجر ت کر کے کلمہ چوک لاہور کے قریب "جیون ہا نہ" گاؤں میں ڈیرے ڈال لیے یہاں پر آنے کے بعد گلاب کا بھائی چراغ فوت ہوگیا خاندان کے لئے یہ بہت بڑا صدمہ تھا خیر گلاب نے ہمت نہ ہاری اور محنت جاری رکھی کھیتوں میں دن رات کام کیا بڑے بھائی کی اولاد اور اپنی اولاد کی بہت عمدہ طریقہ سے پرورش کی اور یہاں پر بھی بہت جلد گلاب نے شہرت حاصل کرلی اس کی محنت ، شرافت اور حسن اخلاق کی آج بھی جیون ہانہ کے علاقے میں مثال دی جاتی ہے مختصر یہ کہ گلاب نے پہلے بھائی کے بچوں کی شادیاں کی پھر اپنے بچوں کی اس طرح خاندان میں افزائشِ نسل کے ساتھ ساتھ نسل کشی بھی ہوتی رہی مطلب یہ کہ خاندان میں اموات بھی ہوتی گئی اس خاندان نے اپنی جائیداد میں سے ایک کھیت کوبطور قبر ستان مقرر کیا یہ قبر ستان"مسیحی قبرستان عثمان بلاک جیون ہانا گارڈن ٹاؤن " کے نام سے
موجو د ہے وقت کے ساتھ ساتھ پاکستان میں ترقی ہوگئی سکول، کالج ، یونیورسٹی، ہسپتال وغیرہ بنتے گئے سو سب سے پہلے اس قبرستان کی جگہ پر پنجاب یونیورسٹی نیوکیمپس والوں نے کافی رقبہ پر اپنا قبضہ جمایا جس پر گلاب اور چراغ کے خاندان اور مقامی مسیحی براداری نے احتجاج کیا مگر انکی کوئی شنوائی نہ ہوئی اور قبرستان کی جگہ قبضہ میں چلی گئی چونکہ وقت کے ساتھ ساتھ آبادی میں بھی اضافہ ہوا اور اموات میں بھی اور اس قبرستان میں قبروں کیلئے جگہ ختم ہوگئی اس گاؤں میں جب کوئی مرتا ہے تو اس کی تدفین کے لئے بہت سی مشکلات درپیش آتی ہیں ابھی لوگ اس پریشانی سے نکلے ہی نہیں تھے کہ 10 جون 2010کو حکومت پنجاب نے بغیر کوئی اطلاع دئیے مسیحی قبرستان پر بلڈوزر چلا دیا جب لوگوں کو پتہ چلا تو وہاں پہنچ کر صورت حال دیکھ کر حیران وپریشان ہوگئے آپ یوں سمجھ لیں جیسے سکتہ میں آگئے ہوں کیونکہ انکے پیاروں کی قبروں کی اس طرح بے حرمتی کی گئی جس کے بارے میں وہ کبھی خواب میں بھی نہیں سوچ سکتے تھے احتجاج کیا گیا نیو کیمپس روڈ بلاک کر دی گئی اور انصاف کے لیے اعلیٰ احکام کو کہا گیا جلد ہی LDAکے اعلیٰ آفسر ان اور مقامی MPA (N) PP-152صاحبان وہاں آئے اور بلڈوزر رُکوادیا گلاب اینڈ چراغ فیملی کے علاوہ باقی مقامی مسیحیوں نے اس کو 9/11قرار دیا کیو نکہ ان کے عزیزوں کی آخری آرام گاہ کی اس قدر بے حرمتی کی گئی تھی کہ کو ئی بھی باشعور انسان اس بات کو کبھی بھی برداشت نہیں کر سکتا مگر پھر بھی مسیحی برادری نے حوصلہ رکھا اور آفسران بالا اور MPAصاحب نے کہا کہ ہم آپ کو قبرستان کے لئے جگہ دیتے ہیں آپ اپنے عزیزوں کی باقیات کو وہاں شفٹ کر دیں اور ہمیں یہا ں پر روڈ بنانے دیں مگر تمام علاقہ کے لوگوں نے اس آفر کو آڑے ہاتھوں لیا اور واضح پیغام دیا کہ اس بات کو کسی بھی صورت قبول نہیں کیا جاسکتا یہ تنازعہ بڑھتا جا رہا تھا اس دوران ایک نوجوان جو کہ چراغ اور گلاب فیملی کا چشم و چراغ ہے آگے بڑھا اور ملک کے قانون اور آئین کو اقلیت کے حقوق کے حوالے سے بڑی ہی باریک بینی سے پڑھا اور اس کے بعد عدالت میں کیس دائر کروایاجس میں LDAاور TEPA کے خلاف درخواست دی اور Stayلیا جس سے روڈ کا کام روک دیا گیا اس نے اپنے ساتھ برادری کے چند افراد کو لیا اور ہمت نہ ہاری حالانکہ بہت دفعہ اس کی دل آزاری بھی کی گئی کہ آپ گورنمنٹ کے خلاف کیس نہیں جیت سکتے چھوڑدو مگر اس نوجوان میں ایسے بزرگوں کا خون ہے جنہوں نے مشکل سے مشکل دور میں بھی حوصلہ نہ ہارا اور کبھی مایوس نہ ہوئے دوسرا یہ کہ وہ اپنے عزیزوں کی قبروں کی بے حرمتی کسی قیمت برداشت نہیں کر سکتا تھا اس دوران اس نوجوان نے اعلیٰ حکام کو (وزیر اعلیٰ پنجاب ، وزیر داخلہ ،صدر پاکستان)کو خط لکھے شہباز شریف صاحب کو ای میل بھی کی مگر کسی نے کوئی مثبت جواب نہیں دیا ادھر عدالت میں کیس کی ہر تاریخ بھی بھگتتا رہا اور آخر 19-11-2015 کو وہ وقت بھی آگیا جب خدا نے حق اور سچ کو سر فراز کیا اور اس نو جوان نے کیس جیت لیا اور یہاں پر بتاتا چلو کہ وہ خدا ہی ہر شے کا خالق اور مالک ہے وہ جسے چاہے عزت عطافرمائے اور جسے چاہئے ذلت سب کچھ اس کے ہا تھ میں ہے اور خدا نے جس نو جوان کو اس کام کے لئے سرفراز کیا وہ نو جوان میں خود ہوں (کرامت مسیح)۔
اب مسئلہ یہ تھا کہ اس قبرستان کی چاردیواری کو گورنمنٹ کرواکے دے اس سلسلے میں میں نے DCO لاہور کو اور TMOکو درخواست دی کہ آپ جلد از جلد چار دیواری کروادیں تاکہ قبر وں کی بے حرمتی نہ ہوسکے مگر بہت افسوس کے ساتھ لکھ رہا ہوں کہ ہمارے ملک میں عام آدمی کا کوئی پرسانِ حال نہیں نظام اتنا کرپٹ اور برُا ہے کہ اس کے اوپر علیحدہ سے ایک کالم لکھا جاسکتا ہے خیر درخواست دینے کے بعد میں کئی دفعہ DCOآفس کے چکر لگا چکا ہوں اتنے نااہل لوگ بھرتی کئے ہیں گورنمنٹ نے آپ اس بات کا اندازہ اس سے لگا سکتے ہیں کہ نومبر 2015کو فیصلہ میرے حق میں آیا اور دسمبر 2015کو میں نے درخواست د ی اور جولائی 2016میں TMOآفس سے فائل گم ہو گئی میں حیران تھا کہ سرکاری کھاتے سے فائل کیسے گُم ہو گئی خیر میں نے اپنے پاس ہر درخواست کی اور ضروری کا غذات کی فوٹوکاپی کرائی تھی جسکی وجہ سے میں نے پرانی درخواست کا حوالہ دے کر دوبارہ درخواست جمع کر وائی یہا ں پر یہ بھی بتا تا چلوں کہ ایک سال سے تقریباََ میں DCOاور TMOآفس کے چکر لگارہا ہوںآج تک مجھے نہ تو DCOلاہور صاحب اور TMOگلبرگ صاحب آفس میں نہیں ملے میں نے ایک دن دونوں آفس کے عملے سے پو چھا کہ صاحب جی ہفتے میں یا مہینے میں کتنی بار آتے ہیں انہوں نے جو جواب دیا وہ سن کر میں حیران رہ گیا وہ یہ کہ صاحب جی نے تو کئی مہینوں سے ہمیں دیدار ہی نہیں کروایا؟آپ کبھی DCOلاہور کے آفس جائیں عملہ اس قدر لاپرواہ اور نالائق ہے کہ بیان نہیں کر سکتا ہوں چپڑاسی سے لے کر افسر تک کوئی تمیز نہیں کوئی آداب نہیں بات سننا گوارہ نہیں کرتے میری DCOؒ ٓلاہور کیپٹن (ر) عثمان صاحب سے درخواست ہے کہ جناب آپ آفس نہیں آتے تو عملہ کا یہ حال ہے کیو نکہ عملے کو پتہ ہے کہ ہمیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے اور ساتھ ہی میں وزیر اعلیٰ پنجاب ، DCOلاہور اور TMOگلبرگ سے درخواست کرتا ہوں کہ خداکے واسطے جیون ہانا کے مسیحی قبرستان کی چاردیواری کے احکامات جلد از جلد صادر فرمائے جائیں کیو نکہ آپ نے بلڈوزر پھیر وا کر ایک بار ظلم کیا ہے اب چاردیواری کرواکے اس کا ازالہ کریں کیو نکہ اس قبرستان میں چراغ مسیح اور گلاب مسیح جیسے سینکڑوں محب وطن مسیحی پاکستانی مدفون ہیں جنہوں نے اس سر زمین کو ہی اپنا سب کچھ سمجھا تھا بقول شاعر!
ہم جان سے جائیں گے تبھی بات بنے گی
تم سے تو کوئی راہ نکالی نہیں جاتی
Karamat Masih
About the Author: Karamat Masih Read More Articles by Karamat Masih: 36 Articles with 23711 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.