اﷲ نے انسان کو بہت سی نعمتوں سے
نوازا ہے اگر انسان اسے گننے لگے ان تمام نعمتوں کو تو گنتی کم پڑ جائے پر
اﷲ کی نعمتوں کو گن نہ پائے انسانوں کو اﷲ نے قرآن میں اشرف المخلوقات کا
لقب دیا ہیں اور انسانوں میں کچھ بندے اﷲ کے بہت قریب ہے وہ مسلمان ہیں․
مسلمانو ں کو اﷲ پاک قریب اس لیئے کہا کہ مسلمانوں کی ثقافت رہائش ترز
زندگی اور دنیا میں رہنے کہ طور طریقے بہت اعلیٰ ہیں پیارے نبی کریم صلی اﷲ
علیہ وسلم کی ایک حدیث کا مفہوم ہے۔ صفائی نصب ایمان ہے۔ اور صفا ئی
ستھرائی کا نظام پند رھو یں صدی تک صرف مسلمانوں میں ہی پا یا جا تا تھا
پندرھویں صدی عیسوی سے قبل آج کے دعوے دار ثقافت جن کے ثفا قت کوآج ہم
اپنانے کی کوشش میں کچھ زیادہ ہی ا ٓگے نکل گئے ہیں لیکن ہم یہ بھول گئے ہے
پندرہویں صدی عیسوی سے قبل یہ لوگ صفائی ستھرائی کو اتنا برا عمل سمجھتے
تھے کہ جب بھی انکا مسلمانوں سے کسی بھی معاذ پرجڑپ آیا ہے تو مسلمان
سپاہیوں کو سب سے زیادہ ان سے جو تکلیف ہوتی تھی وہ بد بو تھی یہ لوگ کئی
کئی مہینوں تک بعض سال بھر بی نہیں نہایا کرتے تھے۔ پندرہویں صدی عیسوی کے
بعد ان کے مو احقیقن کافی سوچ کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ مسلمانوں کی ترض
عمل اپنانا ہو گا تب ہی ان پر غالب آئینگے مکرمی جناب کسی بھی قوم کی تہذیب
اور ثقافت اس قوم کی پہچان سمجھی جاتی ہے اور مہذہب قومیں اپنی ثقافت کانہ
صرف احترام کرتی ہیں بلکہ اپنی ثقافت کو بچانے کے لئے جان کی بازی لگانے سے
بھی دریغ نہیں کرتیں۔کیونکہ کسی قوم کی ثقافت قوم کو متحد اور یکجا کرنے
میں اہم کر دا ر ا د ا کرتی ہے مگر ہم ان سے یکسر مختلف ہیں ایک طرف تو
ہمیں متعدد مسائل دامن گیر ہیں جن میں تعصب پسندی، قومی وملی مشکلات
ومصائب،سیاسی عدم و استحکام،فرقہ واریت اور انتہا پسندی شامل ہی۔ تو دوسری
طرف ہماری ثقافت عدم توجہ کا شکار ہے ہم اپنی ثقافت کو اپنانے میں توشرم
محسوس کرتے ہیں۔ اور دوسروں کی ثقافت کو ا پنانے میں فخرسمجھتے ہیں ثقافت
کسی بھی قوم کے لوگوں کے رہن سہن، کھانے پینے اور ان پر گہرے اثرات مرتب
کرتی ہے۔ اور یہ لوگ اپنی ثقافت کے مطابق اپنی زندگی بسر کرتے ہیں مگر ہم
نے اپنی ثقافت کو اس قدر نظر انداز کر دیا ہے کہ ہماری طرز زندگی ہماری
ثقافت سے مختلف ہو چکی ہے۔ ہم دوسروں کی ثقافت اپنا نے میں اتنے اگے نکل
گئے کہ ابھی جمعہ کو ہی سند ھ اسمبلی نے ایک بل پاس کیا ہے جس میں کہا گیا
کہ ۸۱ سال سے کم عمر شخص اگر اسلام قبو ل کر تا ہے تو اس کو ا و ر ا س کو
کلمہ پڑ ھا نے وا لا امام ہو یا کو ئی ا و ر ہو اس کوبھی گر فتار کیا جا
ئگا۔ ا ور نا قا بل ضمانت جیل ہو گی ۔ کیا ان واقعات کے بعد بھی ہم خو د کو
مسلمان کہتے ہیں ۔ کیا یہ ہمای اخلا قیات میں سے ہے پچھلے دنوں پاکستا ن کی
ایک نامور ا و ربڑ ی سیا سی جما عت کے لیڈ ر نے اور ایک صوبے کے وزیر اعلیٰ
نے ہند و وں کی د یو الی میں شر کت کی ا و ر وہ تمام رسو ما ت ادا کیئے جو
ہما رے ثقا فت ا و ر اسلا م کے خلا ف ہیں ۔ ان تمام حالات کی وجہ سے ہمارے
معاشرے میں بے پردگی،بے راہ روی اور دیگر کئی مسائل پیدا ہو رہے ہیں جو کسی
بھی معاشرے میں برائیاں پیدا کرنے میں اہم کردا راد ا کرتے ہیں یہی ساری
وجوہات کی بنا پر اخلاقی و روحانی گراوٹ سبب بنتے ہیں،اور معاشرہ ٹوٹ پھوٹ
کا شکا ر ہوتا جا تا ہے۔ہما ر ا ا لمیہ یہ ہے کہ ہم اپنی ثقافت سے کنارہ
کشی اختیا ر کرتے چلے جا رہے ہیں ۔اﷲ نے ہمیں مسلمان گھر ا نے میں پیدا کیا
ا و ر اسلا م کی سمجھ عطا ء کی ا و ر اگر ہم اسی طرح د و سر ے مما لک کہ ٹی
وی سریلس،ڈراموں اور اخلاق سوز فلموں کے ذریعے دوسری اقوام کی ثقافت ہم نے
ا پنا نا شروع کر دی ہے یہ سریل ڈرامے ا و ر فلمیں ہمارے معاشرے پر گہرے
اثرات مرتب کر رہے ہیں ۔ ان کی زبان، ان کے لباس ا ور رواجات خصوصا ًشادی
بیاہ کی رسم و رواجات جو اسلا م کے سراسر خلا ف ہیں۔ اس نے بھی ہمارے
معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کر دیا ہے۔ کسی بھی ملک کی فلمیں اور
ڈرامے اپنی ثقافت کو فروغ دینے میں نمایاں حیثیت رکھتے ہیں، اغیار آج کل
مسلمانوں کو رجھانے کیلئے اسلامی سریل کی آڑ میں اپنی ثقافت کو نہایت
خوبصورتی سے پیش کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں غیر مسلمانوں
کی ثقافت کے اثرات نمایاں ہو رہے ہیں جس کے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں
اور آئندہ آنے والی نسلیں ہماری ثقافت سے کوسوں دور چلی جائیں گی،اور ممکن
ہے کہ ہم اپنی ثقافت کو پہچاننے سے بھی انکار کر دیں ۔ ہمیں ا پنی ا ٓ ئندہ
نسل کو بچا نا ہو گا۔ ا و ر آئندہ آنے والی نسل کو ان تمام برائیوں سے
بچانے کے لئے ہمیں اپنی ثقافت کو زندہ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔مگر تمام حالات
کو جانتے ہوئے بھی ارباب اختیار اس طرف توجہ نہیں دے رہے ۔ اس لئے آج تمام
تر ذمہ داری ہم پر ہے آج وقت ہم سے یہ تقاضہ کررہا ہے کہ ہم اپنی ثقافت
اپنا دین بھا ئی چا ر گی کو بچانے کے لئے موثر کردار ادا کریں اور غیراقوام
کی ثقافت کو اپنانے کی بجائے اپنی دین اسلام کی ثقافت کو فروغ دیں۔ یہاں پر
پاکستانیوں کی دریا دلی کا بھی تذکیرا ہو نا چا یئے کہ ہم مسلمانوں کے سب
سے بڑ ے دشمن جو ہزا ر و ں فلسطینی مسلمانوں کا قا تل ہے ۔اس کو ا ٓ ج تک
پاکستان نے تسلیم بھی نہیں کیا اس ملک کو کچھ عرصہ قبل اسلام ا ٓباد کے ایک
یو نیورسٹی نے ایک ثقافتی میلے میں مدعو کیا ا ور ان کو اسرایلی ثقا فت کو
اجاگر کرنے کیلئے ایک اسٹا ل کی بھی اجازت دی جو بعد میں طلبہ تنظیموں کی
احتجاج کی وجہ سے ختم کرنا پڑا اپنے خلاقی اقدار پر توجہ دیں، اپنی زبان پر
عبور حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ چین جو ایک ترقی یافتہ ملک ہے ۔ کیا ان کے
صدر یا وزیر ا عظم کو انگلش نہیں ا ٓتی ہو گی ۔ بلکل ا ٓتی ہے لیکن و ہ جب
بھی جہا ں بھی جا تے ہیں اپنی ہی زبا ن کو تر جیح دیتے ہیں ۔او ر ہما رے وا
لے ہے ہر جگہ انگلش۔ چاہے آ ئے انگلش یا نہ آئے اپنے لباس وحجاب کی اہمیت
کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کو زیادہ سے زیادہ ز یب تن کرنے کی کوشش کریں اور
اپنی تمام تر تقریبات میں اپنے اسلامی طور طریقوں اور رواجات کو اپنانے کی
کوشش کریں ۔ تا کہ آئندہ آنے والی نسل اس بھول بھولیوں سے ہمیشہ ہمیشہ کے
لئے محفوظ رہے۔اﷲ ہم سب کا حامی و ناصر ہو (ا ٓمین)
|