ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک گرلز کالج میں
سروے کیا گیا کہ اگر کالج میں مخلوط تعلیم شروع کردی جائے تو اس کے بارے
میں لڑکیوں کی کیارائے ہے؟ حیران کن طورپر تمام لڑکیوں نے اس کے حق میں ووٹ
دیا کہ یہاں مخلوط تعلیم شروع کی جائے۔ مخلوط تعلیم کے باعث ہمارے معاشرے
میں جتنا بگاڑ پیدا ہورہاہے اسکے اثرات بڑی تیزی سے ہمارے معاشرے پر پڑنا
شروع ہوگئے ہیں لیکن حکومت والدین، طلباء اور طالبات کسی کو بھی اسکا ادراک
نہیں ہورہاہے کہ ہمیں ایک سازش کے تحت اندھے کنویں کی طرف دھکیلا جارہاہے
اور ہم آنکھیں بند کرکے اس طرف جانے پہ بضد ہیں۔ ہم جو بھی کام دین حق سے
ہٹ کر کریں گے اس میں دنیا و آخرت کی ذلت و رسوائی ہی ہمارا مقدر ٹھہرے گی۔
لیکن دین کو ہم نے اپنی آزادی نسواں، آزادی رائے، جدید تعلیم، جدید طرز
زندگی کے نام پر ایک سائیڈ پر لگادیاگیاہے اور مغرب کی تقلید میں ہم اندھے
ہوچکے ہیں۔ ہماری نوجوان نسل جو اس وقت کیبل، ڈش انٹینا، انٹرنیٹ، کمپیوٹر،
موبائل فون، عریانی و فحاشی سے بھری ہوئی فلموں اور ڈراموں کے ایک ایسے جال
میں پھنس چکی ہے جہاں سے نکلنا ہر آئے دن کے ساتھ مشکل سے مشکل ہوتا
جارہاہے اوپر سے مخلوط تعلیم نے جلتی پہ تیل کا کام کیا ہے۔ ایسے ماحول میں
پروان چڑھنے والے ایسی طرز تعلیم کی حمایت میں ہی ووٹ دیں گے حالانکہ ہمارے
مذہب میں تو بھائی اور بہن تک کو اکیلے تنہائی میں رہنے سے منع کیاگیاہے۔
کزن وغیرہ کی تو بات ہی کیاہے۔ لیکن ہماری شادیوں اور دیگر رسومات میں پردہ
ناپید ہوجارہاہے۔ شرعی پردہ کرنے والے کو تحقیر کا سامنا کرنا پڑتاہے۔ اگر
کسی گھر میں کوئی بہو شرعی پردہ کرنے والی آجائے تو سب مل کر اسے سمجھانے
او رمجبور کرنے میں جت جاتے ہیں کہ یہ باتیں اب پرانی ہوگئی ہیں۔ اب تم
اپنے شوہر کے بھائی سے پردہ کروگی حالانکہ دیور کو بھابھی کیلئے موت قرار
دیاگیاہے۔ ہمارے محلے میں ایک رشتہ طے ہوا لڑکا لڑکی آپس میں کزن تھے۔ لڑکی
نے مدرسے سے عالمہ کا کورس شروع کررکھاہے۔ لہذا اس نے یہ پیغام لڑکے والوں
کو بھجوایا کہ میں شادی کے بعد شرعی پردہ کروں گی۔ یہ پیغام پہنچنا تھا کہ
نہ صرف رشتہ ختم کردیا گیا الٹا آپس میں بول چال تک بند ہوگئی۔ یہ حال ہے
ہماری سوسائٹی کا کم از کم والدین کو یہ تو سوچنا چاہئے کہ ہم اﷲ کے حکم
اور نبی کریم ﷺ کے طریقوں کے مقابلے میں شیطان کے حربوں اور طریقوں کو
کامیاب کرکے نہ صرف اپنا دینوی و اخروی نقصان کرہے ہیں بلکہ اپنی ایک نسل
کو بھی تباہ کررہے ہیں۔ اب اﷲ کے کرم و فضل سے جہاں ایک طرف نوجوان نسل کو
بگاڑنے کی محنت الیکٹرانک میڈیا ، رسل و رسائل ، مخطوط طرز تعلیم کے ذریعے
ہورہی ہے وہاں دین کی محنت خاص کر نوجوان نسل میں مدارس ، تبلیغی جماعت،
دینی و تعلیمی حلقوں کے ذریعے جاری و ساری ہے۔ پہلے ایک وقت تھا کہ کوئی
اکا دکا نوجوان شہرعی داڑھی، لباس ، کردار، گفتار والا نظر آتا تھا اب اﷲ
کے فضل سے جہاں بے حیائی عام ہورہی ہے وہاں ایسے نوجوان جو مکمل طورپر شرعی
وضع قطع رکھتے ہیں کی تعدا دمیں تیزی سے اضافہ ہورہاہے۔ رائے ونڈ کے
اجتماعات ، مراکز، مساجد ، مدارس نوجوانوں سے بھرے پڑے ہیں۔ ڈاکٹر امجد
جنکا تعلق کراچی سے ہے دل کے بہت بڑے ماہر ہیں۔ سابق وزیراعظم پاکستان محمد
علی بوگرہ کے بیٹے ہیں۔ اﷲ تعالی نے انہیں دعوت تعلیغ کے کام کیلئے 50سال
کی عمر میں قبول کیا۔ میری ان سے ملاقات کراچی او رڈیرہ دونوں شہروں میں
ہوچکی ہے۔ دعوت و تبلیغ کے کا م میں آنے کے بعد انہوں نے قرآن حفظ کیا،
عالم بنے اب ماشاء اﷲ غالبا دو مدارس چلارہے ہیں۔ جہاں پر ہزاروں کی تعداد
میں نوجوان نسل دین کی تعلیم حاصل کرنے میں مصروف ہیں۔ ان کے مدرسے میں
داخلے کیلئے طلباء کئی کئی سال انتظار کرتے ہیں اﷲ نے دین کی محنت کی برکت
سے نوجوان نسل کو مکمل تباہی ، بربادی سے بچایاہواہے۔ پہلے ایک وقت تھا اکا
دکا حافط قرآن، عالم، قاری نظر آتے تھے خاص کر یورپی ممالک میں ناپید تھے ۔
پاکستان، ہندوستان سے حفاظ کرام رمضان کے ماہ میں تراویح پڑھانے جاتے تھے
لیکن اب اﷲ کے فضل و کرم سے پوری دنیا میں ان کی تعداد لاکھوں میں ہے۔
جنوبی افریقہ میں ایک جماعت کی کارگزاری سن رہاتھا ۔ تراویح میں ہر تراویح
کے بعد حافظ تبدیل ہوتاہے ۔ مدارس کی بھرما رہے ۔ مساجد آباد ہورہی ہیں۔
تمام یورپ میں یہ حال ہے مساجد کی تعمیر روزانہ کی بنیاد پر ہورہی ہے۔
امریکہ میں روزانہ ایک مسجد تعمیر ہورہی ہے۔ نومسلم لڑکیاں حجاب، شرعی پردے،
نماز کیلئے باطل قوتوں سے ٹکرارہی ہیں اور ہماری نسل مخلوط طرز تعلیم کی
حمایت میں لگے ہوئے ہیں۔ ایک وقت تھا ٹی وی پر آذان ہوتی تھی ۔ اناؤنسر
ڈوپٹے کے بغیر بیٹھ نہیں سکتی تھیں اب ہمارے الیکٹرانک چینلز میں ماہ رمضان
تک میں مخلوط محفلیں دین کانام لیکر منعقد کی جاتی ہیں جو ہماری نسل میں
بگا ڑپیدا کررہی ہیں جنکا تدارک ضروری ہے۔ بصورت دیگر اگر ہماری نسل اس
دوراہے پہ پہنچ گئی جہاں آج یورپ کی نوجوان نسل پہنچ چکی ہے تو پھر ہمارے
پاس پچھتاوے کے سوا کچھ نہ ہوگا۔ ہماری بقاء ترقی و کامرانی ہمارے نوجونواں
کے کندھوں پر ہے جس کی سمت کو درست کرنا ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے جس سے
ہم حکومتی سطح پر غافل ہیں۔ ہمارے اسباق سے خلفائے راشدین اور ہمارے دیگر
اکابرین کے واقعات بتدریج نکالے جارہے ہیں۔ پولیس، بینک، ٹرانسپورٹ ،
کورئیرسرورس، این جی اوز، ڈاکخانوں، ہوٹلز، مارکیٹوں، ڈیپارٹمنٹ سٹورز
وغیرہ میں نوجوان لڑکیوں کی بھرتی بہت سی برائیوں کو جنم دے رہی ہے۔ خاص کر
موبائل نے معاشرے کو بگاڑنے کی ذمہ داری سنبھالی ہوئی ہے۔ کمپنیاں نوجوان
نسل کیلئے خاص طورپر رات کے فری Packages متعارف کروا رہی ہیں ۔تمام رات گپ
شپ کرو، لگے رہو، سب کہہ دو جیسے اشتہارات عام ہیں۔ رات جاگ کر گزاری جاتی
ہے دن بھر سوتے ہیں۔ کاروبار زندگی، تعلیم، دونوں متاثر ہورہے ہیں۔ موبائل
کے باعث دوستیاں عام گھر سے بھاگنے کے واقعات میں اضافہ کے ساتھ ساتھ اولاد
باغی ہوتے جارہے ہیں۔ پسند کی شادی، محبت کے واقعات میں اضافہ ہورہاہے۔
حکومت کو رات کے Packages ختم کرنا ہوں گے جبکہ والدین خاص کر موبائل کے
استعمال سے لڑکیو ں کو دور رکھیں ورنہ حالات ایسی سطح پر پہنچ جائیں گے
جہاں صرف پچھتاوے کے کچھ نہ ہوگا۔ |