نوجوان الحاد سے کیسے بچیں

موجودہ دور میں تشکیک، لاادریت اور الحاد کسی وائرس کی طرح پھیل رہے ہیں ۔ اس کی ایک وجہ تو سائنس اور ٹیکنالوجی کی نتیجہ خیزی ہے، جس نے مابعدالطبیعات کو زندگی سے لامتعلق کردیا ہے۔ اور خدا کے بجائے سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی سے تمام امیدیں وابستہ کردیں ہیں۔دوسری وجہ اس فکر کی سوشل میڈیا پر زور و شور سے ترویج ہے۔ویسے تو تمام مذاہب ہی اس کی زد میں ہیں لیکن اسلام کی مخالفت کو خصوصی توجہ اور سرپرستی حاصل ہے۔اس صورتحال نے مسلم معاشروں میں ایک ہلچل سی پیدا کرنا شروع کی ہے اور غالب گمان یہ ہے کہ یہ صورتحال مزید انتشار کی طرف جائے گی۔ کیونکہ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا مسلم معاشروں کے ساتھ وہی کررہا ہے جو چھاپہ خانے کی ایجاد نے عیسائیت کے ساتھ کیا تھا۔ صورتحال یہ ہے کہ پورے مذہبی وتاریخی مواد سے بعض مستند اور غیر مستند باتوں کو چن کر اکٹھا کیا جاتا ہے۔ اور ان کی مدد سے مذہب اسلام، بزرگان دین، مسلم تاریخ، اورمسلم تہذیب و معاشرت کا ایک خاکہ بنایا جاتا ہے ۔ پھر اس خاکے پر تنقید اور اس کا رد کرکے یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ پورے کا پورا مذہب ہی غلط ہے۔ وجود خدا اور مذاہب کی علمی تنقید کوئی نئی بات نہیں ہے پچھلے دو ہزار سال سے یہ مسئلہ فلسفیوں کی دلچسپی کا موضوع رہا ہے اور دونوں طرف چوٹی کے دلائل موجود ہیں۔ حتمی نتیجہ ابھی تک نہیں آیا اور مستقبل قریب میں بھی امکان نہیں ہے ۔ یہ علمی مشغلہ اپنی تکنیکی مشکلات کی وجہ سے ماہرین تک ہی محدود تھا ۔ لیکن انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی وجہ سے خواص کی بات عوامی حلقوں میں ہونا شروع ہوگئی ہے۔ جس کی وجہ سے عوام کی ذہنی الجھنیں بڑھ رہی ہیں۔

اس کا شکار زیادہ تر پڑھے لکھے لوگ ہیں جو جذباتی طور پر تو مذہب سے وابستہ ہوتے ہیں لیکن مذہب کو رائج سائنسی فکر، معاشی و سیاسی نظام، سماجی اقدار اور سب سے بڑھ کے وقت کے تقاضوں سے متعلق نہیں کرپاتے۔ ان کو ایک گہرا اندرونی احساس ہے کہ ان کا پیدائشی عقیدہ ٹھیک ہے اور اس کے مقابلے میں کوئی صحیح مخالف دلیل موجود نہیں ہے۔ جب یہ ذہن مذہب مخالفین کی باتیں سنتا ہے تو پہلے حیران ہوتا ہے پھر غصہ کرتا ہے اور آخر میں پریشان ہوتا ہے۔وقت کی قلت، کتب کی عدم دستیابی، عدم تربیت، اور مذہبی کتب میں استعمال ہونے والی مشکل زبان اور موضو عات کی پیچیدگی کی وجہ سے وہ مذہب کا گہرا مطالعہ نہیں کرپاتا۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ صرف قرآن کا ترجمہ پڑھے ہوئے لوگ بھی نایاب ہیں۔ اب سوشل میڈیا پر مذہب مخالف تیکھے اور کاٹ دار حملے ان سے اگران کا ایمان نہیں چھینتے تو ایک مستقل شک اور وسوسہ ضرور چھوڑ جاتے ہیں۔اورپرانی عقیدت و و ابستگی ضرور ختم ہوجاتی ہے۔ ایسے لوگ معاشرے سے کٹنا شروع ہوجاتے ہیں۔ ہر وقت مذہبی عقائد و رسومات پر ہلکہے پھلکے طنز کے تیر چلاتے رہتے ہیں۔ جو لوگوں کی دلاآزاری و غصہ کا باعث بنتے ہیں۔ اس صورتحال پر اہل مذہب ضرور سوچ بھی رہے ہوں گے اور اس کا حل بھی تلاش کررہے ہوں گے۔ حتمی اور علمی رائے تو ماہرین ہی دیں گے لیکن اپنے جیسے تن آسان اور سست نوجوانوں کے لیے کچھ آسان سی تجاویز میری طرف سے بھی ہیں۔ان سے کسی محنت کے بغیر ذہنی الجھنوں سے بھی نجات مل جاتی ہے۔

1-پہلی بات تو اپنے ذہن میں یہ بٹھا لیں کے آپ جس عقیدے کو مانتے ہیں اس کی حقانیت دلائل سے بالاتر ہے اس لیے کوئی بھی علمی و فکری دلیل اسے رد نہیں کرسکتی۔ لحاضا کسی بھی اسلام مخالف دلیل پر کان نا دھریں۔
2-سوشل میڈیا پر الحاد اور اسلام مخالف مباحث کا مقصد ہرگز علم و عقل کا پھیلاؤ نہیں ہوتا۔ اسےصرف پروپیگنڈہ ہی کہا جاسکتا ہے۔ اور لب و لہجہ بھی مخلصانہ یا دوستانہ نہیں ہوتا۔ اس لیے ان سے با ت کرتے ہوئے اپنے دل و دماغ کے دروازے بند رکھیں۔
3- سوشل میڈیا ملحدین کے مذہب مخالف اعتراضات کی کوئی بہت لمبی چوڑی لسٹ نہیں ہے ۔یہ بار بار دہرائے جانے والے کچھ گھسے پٹے اعتراضات ہیں جن کے جوابات بار بار مذہبی لوگوں کی طرف سے دیے جاچکے ہیں۔ اور پاکستانی ملحدین نے کاپی پیسٹ اور مغربی آقاؤں سے مرعوبیت کا رویہ چھوڑا نہیں ہے۔ ان کے تمام دلائل وہی ہیں جو مغرب میں سالوں سے پیش کیے جارہے ہیں۔ ایسے سوالات اور جوابات کی لسٹ پر ایک سرسری نظر ڈال لیں تو بہت آسانی ہوجائے گی۔
4- سائنس و ٹیکنالوجی کو زندگی میں آسائشیں پیدا کرنے والا مزدور ہی سمجھیں ، اسے حقیقت بنانے،جاننے اور بتانے والے خدا کا درجہ نہ دیں۔
5-سائنس اور مذہب کے دائرہ کار کو علیحدہ جانیں۔ سائنس کے دائرے کو نہایت محدود جانیں اور مذہب کے دائرے کو دنیا وماورا پر محیط سمجھیں۔سائنس کی اسی محدودیت کی وجہ سے سائنسدانوں کی اکثریت مذہب میں ہی سکون اور زندگی کا معنی تلاش کرتی ہے۔
6-اگر کوئی شخص سائنس یا تاریخ کی بات کو قرآن وحدیث کے مخالف پیش کرے تو یہ سمجھیں کہ بتانے والے نے سیاق و سباق سے ہٹ کے بات کی ہے۔صحیح سیاق و سباق، نظم قرآن اور پورے مذہبی مواد کی روشنی میں اس کا مطلب واضح ہوگا۔یا یہ متشابہات میں سے کوئی آیت ہوگی۔ جیسے دنیا کا چھ دن میں پیدا کیا جانا،سورج کی گردشاور تالاب میں ڈوبنا ،رحم مادر میں پیدائش کے مراحل،آدمؑ کی تخلیق، طوفان نوح،انبیا کے معجزات ،جن ،جنت و دوزخ کا تصور وغیرہ۔
7- ایسی علماء و صوفیوں کو سنیں جو سائنس اور اسلام میں تطبیق کرتے ہیں۔ اس سے آپ کا دل مضبوط ہوجائے گا کہ اسلام اور سائنس میں کوئی دوری نہیں ہے۔
8-بزرگان دین کا ہر عمل کسی نہ کسی حکمت ، وقت کے تقاضوں اور مشیت ایزدی کے تحت تھا۔ ان کے کسی بھی کام کو آ ج کی مغربی اخلاقیات اور سماج کے پیمانوں پر پرکھا نہیں جاسکتا۔
10- عورتیں یہ بات مان لیں کہ اسلام ان کو برابری اور احترام دینے آیا تھا۔ اگر مسلم سماج میں ماضی یا حال میں انھیں حقوق نہیں ملے تو اس میں قصور مسلمانوں کا ہے جنھوں نے اسلام کی تعلیمات پر صحیح عمل نہیں کیا۔لونڈیوں، حوروں، چار شادیوں، پردہ، آدھی گواہی، آدھی میراث، طلاق کے حق،کمانے کے حق، اور اس جیسی دوسری باتوں اور احکامات کو اس دور کے حالات کے تقاضوں کے تحت سمجھیں۔ ان احکامات کو آ ج کی مغربی اخلاقیات کے پیمانے پر نا پرکھیں ۔ اپنے حقوق کی کوشش جاری رکھیں۔
11-یاد رکھیں موجودہ دور میں الحاد ایک فیشن سے زیادہ حثیت نہیں رکھتا۔ وہ دور گیا جب عبدالماجد دریا آبادی فلسفہ و نفسیات پڑھتے ہوئے الحاد اختیار کرتے تھے۔ یا جاوید غامدی ادب و فلسفہ کی وجہ سے فکری الحاد کا شکار ہوتے تھے۔ اب تو یوں ہوتا ہے کہ لوگ سماج کی پابندیوں یا کسی دوسرے فروعی مسئلہ کی وجہ سے ری ایکشن کے طور پر مذہب چھوڑتے ہیں اس لیے شدید غصے میں بھی ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو دل کا غبار نکال لینے دیں اور ان سے ہمدردی رکھیں یہ جوانی ڈھلنے کے بعد لوٹ آئیں گے۔
12- اپنی زندگی اور سماج میں خرابیوں کا زمہ دار خدا اور مذہب کو نہ ٹھہرائیں ۔ حالات کی بہتری کے لیے کوشش کریں۔ الحاد اختیار کرنا، سوشل میڈیا پرفیک آئی ڈیز سے مذہب مخالف حملے کرنا، اور ہر وقت مذہب مخالفت کو سر پر سوار رکھنا آپ کو مزید تنہا کردے گا۔علم کے سفر کو جاری رکھیں۔
12-اگر آپ کا مذہبی کتب پڑھنے شوق ہے تو صرف محبت و عقیدت کی نگاہ سے پڑھیں، شک و شبہ سے نہیں۔ اور مذہبی تعبیرات کے اختلاف سے وحشت زدہ نہ ہوں اسے رحمت اور رخصت تصور کریں۔اپنے مزاج کے مطابق تعبیر کو اختیار کرلیں۔

(نوٹ: یہ گزارشات صرف مجھ جیسے تن آسان عامیوں کے لیے ہیں۔ جو لوگ سچ کی جستجو،لگن، اور وقت رکھتے ہیں وہ سب کچھ پڑھیں اور خالص علمی و عقلی انداز سے ہر چیز کو پرکھیں اور پھر جو نتیجہ سامنے آئے اسے مانیں)۔
 

Sibghatullah Khan
About the Author: Sibghatullah Khan Read More Articles by Sibghatullah Khan: 3 Articles with 2906 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.