صبح سویرے گھر سے نکلتے ہوئے ہر ممکن احتیاط کے باوجود نیشنل
اسٹیڈیم کے پاس ایک چھوٹی سی تنگ سڑک پر ہزاروں گاڑیاں گھنٹوں سے بدترین ٹریفک جام
میں پھنسی ہوئی تھی۔ اس ہجوم میں میں بھی شامل تھا، کونے پر ٹریفک پولیس والے مزے
سے خوش گپیوں میں مصروف تھے، دوپہر میں گاڑی کے بجائے رکشاء والے سے ڈیڑھ سو روپے
طے کرکے، گرومندر سے سی ایم ہاؤس تک جانے کے لئے نکلا تو آواری ٹاورز کے پاس ٹریفک
وی آئی پیم مومنٹ کے لئے بندتھا، اسکول وین یں بچے گرمی سے پریشان تھے، اور بغیر اے
سی کی گاڑیاں والے دھوئیں اور گرمی سے بے حال تھے۔ یہاں بھی لوگ گھنٹوں ٹریفک میں
پھنسے رہے، گذشتہ روز چہلم نے شہریوں کو اسی طرح گھنٹوں ٹریفک جام کے عذاب میں
مبتلا کیئے رکھا۔ اس وقت کراچی کے علاقے شارع فیصل پربدترین ٹریفک جام ہے۔ گاڑیوں
کی لمبی قطاروں سے شہریوں کو گھر پہنچنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے، جبکہ شہری
کئی گھنٹے سے ٹریفک جام میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ایئر پورٹ جانے والے ہوں یا ایمبولینس
میں موت اور زیست کی جنگ میں مبتلا مریض سب ٹریفک کا عذاب جھیل رہے یں۔ آج تو یوں
بھی بادشاہ سلامت(وزیراعظم) کی سواری شہر میں ہے۔ دوسری جانب دفاعی نمائش 4 روز تک
جاری رہے گی جس میں 43 ممالک اور 90 وفود شرکت کررہے ہیں اور ان میں سے 30 مندوبین
اعلیٰ سطح کے ہیں جنمیں سربراہ ، وزیر دفاع، ڈیفنس سیکڑریٹریز، چیف ڈیفنس اسٹاف یا
حاضر چیفس ہیں۔ ان وی آئی پییز نے پورے شہر کو عذاب میں مبتلا کیا ہوا ہے۔ دوسری
جانب دعوی کیا گیا تھا کہ دفاعی نمائش کا سیکیورٹی پلان ترتیب دے دیا گیا ہے جس کے
مطابق 2 ایس پیز، 4 ڈی ایس پیز سمیت 2 ہزار پولیس اہلکار سیکیورٹی پر تعینات کیا
گیا،سوک سینٹر کے اطراف سڑکیں ٹریفک کے لئے بند کردی گئی۔ کرا چی کے لئے یہ نئی بات
نہیں نیو اسلامیہ روڈ پر شام کو کار ڈیلروں کا قبضہ ہوتا ہے، حسن اسکوئر سے آگے فوڈ
اسٹریٹ والے پورے روڈ پر قابض ہیں جگہ جگہ پتھارے لگے ہیں، جیل روڈ میکنک اور
ورکشاپ بنا ہوا ہے۔ شہر کے جس حصے میں آپ شام اور رات کے اوقات میں ٹریفک میں
بلاوجہ پھنسی گاڑیاں دیکھیں، سمجھ جائیں آس پاس کوئی نہ کوئی موبائل مارکیٹ، کار
ڈیلرز، ٖفوڈ اسٹریٹ کی دکانیں، ٹھیلے بازار لگے ہوں گے۔ کراچی میں اسٹریٹ کرائم اور
دہشت گردی کے بعد اب ’ٹریفک جام‘ کی دہشت گردی سے بھی عوام کا پارہ اوپر چڑھا ہوا
ہے۔ پورا شہر تقریباً 18 ٹاؤنز اور 5 اضلاع پر مشتمل ہے اور ہر ڈسٹرکٹ میں ایک یا
دو ایسے شاپنگ مالز اور مارکیٹس موجود ہیں جو دن بھر اور خاص کر شام کے اوقات میں
ٹریفک کی روانی میں بری طرح خلل کا سبب بن رہے ہیں۔لیکن شہری حکومت اور صوبائی
حکومت لاتعلقی اور نااہلی کے ساتھ شہریوں کی بے بسی کا مزاق اڑاتی نظر آتی ہے۔شہر
میں جدھر بھی چلے جائیے راستے تنگ نظر آتے ہیں اور گلیاں ایک دوسرے سے ’دست و
گریبان ‘ہوتی محسوس ہوتی ہیں۔ بیشتر مقامات پر لگتا ہے گاڑیاں دکانوں کو چھو کر گزر
رہی ہیں۔ کبھی یوں لگتا ہے کہ جیسا گاڑی کسی دکان کے اندر ہی نہ آجائے۔
کراچی تقریباً دو کروڑ کی آبادی رکھنے والا پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے۔ اسے بڑھتی
ہوئی آباد ی ہی نہیں ،بلکہ سال بھر بڑھتے ٹریفک کے بھی کئی سنگین مسائل کا سامنا
رہتا ہے۔ یہاں کی پولیس نے ایک عرصے سے ٹریفک کنٹرول کرنا چھوڑ دیا ہے۔ تاہم وہ
رشوت وصول کرتے ، موٹر سائیکل سواروں سے بھتہ لینے میں مستعد نظر آئیں گے۔اولڈ سٹی
ایریاز ، ایم اے جناح روڈ ، صدر نیو ایم اے جناح روڈ، طارق روڈ ، حیدری مارکیٹ
نارتھ ناظمآباد اور راشد منہاس ، یونیورسٹی روڈ، شاہراہ فیصل، ہر جگہ ایک سا حال
ہے۔اس وقت ’’شہر میں38 لاکھ گاڑیاں چل رہی ہیں اور اس میں ہر روز 900 گاڑیوں کا
اضافہ ہو رہا ہے جبکہ شہر میں ٹریفک مینجمنٹ کو بہتر بنانے کے لئے کوئی ٹھوس نظام
کے بارے میں کوئی نہیں سوچتا۔ صبح اور شام گاڑیوں کا سیلاب سڑکوں پر امڈ آتا ہے اور
ساتھ ہی ٹریفک جام ہونے لگتا ہے۔ فضاء زہریلے دھویں سے بھرنے لگتی ہے جو انسانی صحت
کے ساتھ ساتھ حیوانات اورشہر کی خوب صورتی میں اضافہ کرنے والے سبزہ زاروں کے لئے
بھی ’خاموش موت‘ کا سبب بن رہا ہے۔ اوور لوڈ گاڑیاں جان کیلئے وبال جان بن گئی ہیں۔
پاکستان میں ٹریفک کے قوانین ہوتے ہوئے بھی ٹریفک والے جس طرح سے ان قوانین کی
دھجیاں اڑھا رہے ہیں ۔ یہ ایک المیہ ہے۔ ‘‘انگنت گاڑیوں کے انجنوں کا شور انسانی
سماعت کو مسلسل ’زخمی‘ کررہا ہے۔ اس پر ٹریفک جام میں اپنا راستہ بنانے کے لیے
’چیختی چلاتی ‘ ایمبولیسز کا شور دل دہلا دیتا ہے۔‘‘آج کی طرح شہر میں اگر کوئی وی
آئی پی سڑکوں سے گزرنے لگے تو شاہراہیں محض ’پروٹوکول‘کے سبب کئی کئی گھنٹوں تک بند
کر دی جاتی ہیں اور ٹریفک جام ہو جاتی ہیں۔ اس ویآئی پی کلچر کے سندھ ہائی کورٹ میں
باقاعدہ درخواستیں زیر سماعت ہیں۔لیکن عدالتیں سو رہی ہیں۔ وی آئی پی موومنٹ کی آمد
کے موقع پر ٹریفک کی بندش کے سبب کئی قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔ اس شہر
میں بہتر ٹریفک مینجمنٹ ایک خواب بنا ہوا ہے۔ یہ خواب کب پورا ہوگا یہ بھی کوئی
نہیں بتاسکتا۔ |