پاکستان میں تعلیم اور چینی کہاوت
(Syed Anwer Mahmood, Karachi)
پاکستان جس کی 60 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گذار رہی ہے ، اس کےلیے یہ ناممکن ہے کہ وہ نجی تعلیمی اداروں میں اپنے بچوں کو تعلیم دلواسکیں۔ نجی تعلیمی اداروں میں فیسوں اور کتابوں کے اخراجات اتنے زیادہ ہیں کہ ایک عام آدمی اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے سے قاصر ہے۔ یہ ہی وجہ ہے پاکستان میں بہت سارئے بچے جو اسکول نہیں جاپاتے وہ آپکو کسی دوکان، ہوٹل یا موٹر مکینک کی دوکان میں چائلڈ لیبر کی شکل میں نظر آتے ہیں۔ |
|
|
اگلے سال 14 اگست 2017 کوپاکستان 70 سال کا
ہوجائے گا۔ اگر ہم دنیا پر ایک نظر ڈالیں تو ہم سے بہت بعد میں آزاد ہونے
والے ممالک ہم سے بہت آگے جاچکے ہیں، ہمارا پڑوسی اور ہماراسب سے اچھا
دوست ملک چین جو ہم سے بعد میں آزاد ہوا آج زندگی کے ہر شعبے میں ہم سے
بہت آگے ہے۔وہ قوم جوپوری دنیا میں افیونی قوم کے لقب سے مشہور تھی اس نے
اپنے قائد ماوزے تنگ اور چو این لائی کی قیادت میں ثابت کر دکھایا کہ اگر
کسی قوم کے لیڈرز نیک نیتی سے ملک کی تعمیر میں حصہ لیں تو وہ ضرور کامیابی
سے ہمکنار ہوتی ہے۔ ستر سال میں ہمارے حکمرانوں نے اپنے عوام کےلیےکچھ نہیں
کیا ، یہ ہی وجہ ہے کہ آج عام آدمی کی زندگی تلخیوں سے بھری ہوئی ہے۔ ان
کے بچوں کو تعلیم نہیں ملتی، علاج معالجہ نہ ہونے کے برابر ہے، بہت بڑی
تعداد کو پانی میلوں سے لانا پڑتا ہے، ابھی تک گھنٹوں لوڈشیڈنگ ہوتی ہے،
روزگار کے مواقع نہیں ،سستا اور فوری انصاف تو ایک خواب ہے۔ مسائل بہت
زیادہ ہیں اس لیےاس مضمون کے زریعے میں صرف ‘‘تعلیم’’ کے مسلئے پر بات
ہوگی، باقی مسائل پر بھی بات ہوگی لیکن آئندہ ۔
حال ہی میں عالمی اقتصادی فورم کی جاری کردہ عالمی مسابقت رپورٹ برائے
2016-17کے مطابق 138ملکوں کی درجہ بندی میں پاکستان کا نمبر 122ہے یعنی صرف
16ممالک پاکستان سے نیچے اور 121ممالک پاکستان سے اوپر ہیں۔ جنوبی ایشیا
میں پاکستان واحد ملک ہے جو مائیکرو اکنامک ماحول، صحت اور پرائمری تعلیم
کے شعبوں میں بہتری لانے میں ناکام رہا ہے، چنانچہ وہ جنوبی ایشیا میں
تعلیم کے شعبے میں بہت پیچھے چلا گیا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے زمانے جب
تعلیم پر توجہ دی گئی تو انہوں نے 2002 میں ہائر ایجوکیشن کمیشن قائم کیا
اور ڈاکٹرعطاالرحمان کو اس کا سربراہ بنایا گیا ۔ کچھ ہی عرصے میں پاکستان
میں تعلیم کے میدان میں کافی تبدیلی محسوس کی گئی اور پاکستان میں زیادہ
سائنسدان اور اسکالرز پیدا ہونے کی امید ہوئی۔ کچھ عرصے بعد بھارت میں ہائر
ایجوکیشن کمیشن کےاس منصوبے پر ریسرچ ہونے لگی کہ پاکستان تعلیم کے میدان
میں کیسے آگے بڑھ رہا ہے۔ افسوس مشرف حکومت کے خاتمے کے بعد ہائر ایجوکیشن
کمیشن کو غیر متحرک کردیا گیا اور ڈاکٹرعطاالرحمان کو بھی علیدہ کردیا گیا،
ڈاکٹر صاحب کو علیدہ کرنےوالے اس وقت کےصدر آصف زرداری تھے جن کی تعلیم
صرف انٹر ہے۔تعلیم کسی بھی معاشرے کو آزادسوچ دینے یا کسی قوم کو غلام
بنانے میں سب سے اہم اوزار ہے۔
حال ہی میں شایع ہونے والی اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کا
تعلیمی نظام جدید تقاضوں سے 60 سال پیچھے ہے ۔ رپورٹ کے مطابق جہاں دنیا
اپنے تعلیمی نظام پر توجہ دیتے ہوئے آگے نکلتی چلی جارہی ہے، وہاں ہم ہر
میدان میں تنزولی کا شکار ہیں۔ ہمارے ہاںشرح خواندگی کی بھی کمی ہے اور بین
الاقوامی تعلیمی معیارات کے حوالے سے بھی ہم بہت پیچھے ہیں۔ ہمارےہاں
پرائمری سطح پر دی جانے والی تعلیم نئے تقاضوں کے معیار سے 50 سال پیچھے
ہے۔ ہمارے ہاں 56 لاکھ بچے ایسے میں جو اسکول ہی نہیں جاتے جبکہ ایک کروڑ
4لاکھ کے قریب بچے ایسے ہیں جو سیکنڈری اسکول سے آگے نہیں جاپاتے۔ صرف یہی
نہیں بلکہ شہروں اور دیہات میں بسنےوالے بچوں کے تعلیمی معیارات میں بھی
بہت فرق ہے۔ جس کی ایک وجہ یہ ہے کہ حکومت اپنے اخراجات کا محض تین اعشاریہ
گیارہ فیصد تعلیم پر خرچ کرتی ہے۔اگرچہ دہشتگردی کی کارروائیاں بھی اس
رپورٹ کے مطابق ایک وجہ ہیں لیکن بنیادی وجہ پھر بھی حکومت کی عدم توجہ ہے۔
آئین پاکستان کی شق اے۔25 کے مطابق ریاست پانچ سے سولہ سال کی عمر کے بچوں
کو مفت اور لازمی معیاری تعلیم فراہم کی پابند ہے لیکن اس پر عمل دور دورتک
نہیں ہوتا۔سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں ایسے خودغرض اساتذہ بھی موجود ہیں
جواستاد کی ملازمت رشوت دیکر حاصل کرتے ہیں تا کہ بغیر کسی کام کے معقول
معاوضہ بھی ملے اور بڑھاپے میں پنشن بھی ملے۔سرکاری اسکولوں اور کالجوں کے
اساتذہ کو میڈیکل سرٹیفکیٹ جمع کرواکے لمبی رخصت مل جاتی ہے، اگر نہیں تو
پھرساز باز کر کے حاضریاں لگوائی جاتی ہیں۔ کچھ سال پہلے کراچی میں آدم جی
سائنس کالج کے ایک لڑکے نے انٹر کے امتہان میں اول پوزیشن حاصل کی، جب اس
سے سوال کیا گیا کہ آپکو یہ کامیابی اپنے کالج کی وجہ سے ملی ہے تو اس کا
کہنا تھا کہ کالج میں کوئی پڑھاتا ہی نہیں، میں نے تو ایک ٹیوشن سینٹر سے
امتہان کی تیاری کی تھی۔ کالج کے پرنسپل اور کچھ اساتذہ بھی وہاں اپنے نمبر
بنانے کےلیے موجود تھے، شور تو بہت ہوا لیکن فرق کوئی نہیں پڑا۔
ہمارئے ملک میں نجی تعلیمی اداروں کا قطعی یہ مقصد نہیں ہوتا ہے کہ آپکو
اچھی تعلیم سے آراستہ کیا جائے بلکہ ان کا واحد مقصد دولت کا حصول ہے، ہاں
یہ ضرور ہے کہ وہ سرکاری اداروں سے بہتر ہیں۔ بیکن ہاؤس ایک مشہور تعلیمی
ادارہ ہے اور جس کی ایڈمنسٹریٹر یا مینجنگ ڈائریکٹر سابق وزیر خارجہ خورشید
محمود قصوری کی بیگم ہیں۔ ایک ٹی وی پروگرام میں جب قصوری صاحب سے یہ سوال
کیا گیا کہ آپکے تعلیمی ادارئے میں فیس زیادہ کیوں ہے؟ تو ان کا جواب خالص
کاروباری تھا کہ‘‘اگر آپ اپنے بچے کےلیے اچھی تعلیم کا حصول چاہتے ہیں تو
پھر پیسے تو خرچ کرنے ہونگے’’۔پاکستان جس کی 60 فیصد آبادی غربت کی لکیر
سے نیچے زندگی گذار رہی ہے ، اس کےلیے یہ ناممکن ہے کہ وہ نجی تعلیمی
اداروں میں اپنے بچوں کو تعلیم دلواسکیں۔ نجی تعلیمی اداروں میں فیسوں اور
کتابوں کے اخراجات اتنے زیادہ ہیں کہ ایک عام آدمی اپنے بچوں کو اعلیٰ
تعلیم دلوانے سے قاصر ہے۔ یہ ہی وجہ ہے پاکستان میں بہت سارئے بچے جو اسکول
نہیں جاپاتے وہ آپکو کسی دوکان، ہوٹل یا موٹر مکینک کی دوکان میں چائلڈ
لیبر کی شکل میں نظر آتے ہیں۔
وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کو جون 2016 میں تین سال پورے ہوگئے ہیں لیکن
عام آدمی کو کیا ملا، کچھ نہیں، تعلیم کے شعبے میں کام کرنے والی این جی
اوز اور دوسرے ادارے بارہا حکومت کی توجہ تعلیم کی طرف مبذول کرانے کی کوشش
کرتے رہتے ہیں، لیکن شریف حکومت تو اس طرف توجہ دینے کی قائل ہی نہیں۔ نواز
شریف یہ سمجھتے ہیں کہ سڑکیں اورپل بنانے سے پاکستان کے سارئے مسلئے حل
ہوجاینگے۔نواز شریف نے عوام سے جو وعدے کیے تھے اس میں سے نوے فیصد اب تک
پورئے نہیں ہوئے ہیں۔کیا وزیر اعظم نواز شریف 46 ارب ڈالر کے ‘‘سی پیک
منصوبے’’کے معاہدئے میں ‘‘تعلیم’’ کو شامل کرواسکتے ہیں، شاید ایسا ہونا
ممکن نہ ہوکیونکہ سوداگر تعلیم کی حقیقت سے ناواقف ہوتے ہیں۔ آج چین کا
شمار دنیا میں صف اول کےممالک میں ہوتا ہے۔ چینی دانشور اپنی کہاوتوں اور
محاوروں کےلیے خاصے مشہور ہیں۔ ان کی کہاوت ہے کہ ’’اگر ایک سال کی منصوبہ
بندی کرنی ہے تو مکئی لگاؤ، اگر دس سال کی منصوبہ بندی کرناچاہتے ہو تو
درخت لگاؤ اور اگرصدیوں کی منصوبہ بندی کرنا چاہتے ہو تو اپنے عوام کی
تربیت کرو انھیں بہترین تعلیم دو۔ شاید کبھی پاکستان کے حکمرانوں کی سمجھ
یہ چینی کہاوت آجائے اور ہمارا ملک سو فیصد تعلیم سے آراستہ ہو۔ |
|