انوکھے سرکاری ملازمین
(Anwar Graywal, Bahawalpur)
کونسا سرکاری ملازم ہے، جو مہینے میں
آٹھ دس روز دفتر جائے، کام بھی کوئی نہ کرے، بس گپ شپ، کینٹین پر چائے پانی
اور کچھ دیر دفترمیں بیٹھ کر گھر واپس آجائے، مگر جب تنخواہ کا وقت آئے تو
پوری تنخواہ اس کے ہاتھ میں تھما دی جائے؟ اگر انہی دنوں کے وہ کوئی ٹی اے
ڈی اے کا دعویٰ کرے تو اسے اِس مد میں بھی کچھ رقم مل جائے؟ اگر ایسا ہونے
لگے تو دفاتر میں الّو بولیں گے، ویرانی کا راج ہوگا، سائل خوار ہو جائیں
گے۔ بہت سے اداروں میں تو اب حاضری کے لئے جدید طریقہ اپنایا جاتا ہے، جب
کوئی دفتر میں داخل ہوا تو سب سے پہلے وہ اپنا انگوٹھا ایک مشین پر رکھے گا،
جس سے اس کی دفتر میں آمد کی اطلاع ہو جائے گی، اس کے آنے کا وقت درج ہو
جائے گا، یہی عمل اسے واپسی پر دہرانا ہوتا ہے۔ نظام بائیو میٹرک کی گرفت
میں ہے۔ مگر یہ بندوبست ہر جگہ نہیں ہو سکا، اگر حکومت اس طرف توجہ دے تو
کچھ مشکل نہیں۔ عام سرکاری محکموں میں بھی رجسٹر پر حاضری لگائی جاتی ہے،
تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔ اسی طرح سکول ، کالج اور یونیورسٹیوں
میں زیر تعلیم طلبا وطالبات کا معاملہ بھی یہی ہے کہ امتحان کے قریب جا کر
ان کی حاضریاں شمار کی جاتی ہیں، اگر مطلوبہ تعداد سے کم ہوں تو داخلہ نہیں
بھیجا جاتا، جس سے سال ضائع ہونے کا یقینی امکان ہوتا ہے۔ تعلیمی اداروں
میں انتظامیہ کے پاس یہی ایک ہتھیار ہوتا ہے، جس کے ذریعے سے سٹوڈنٹس کو
قابو کرنے کا اہتمام کیا جاتا ہے، ورنہ یہ ہستیاں کالج یا یونیورسٹی تو
آجاتی ہیں، کلاس میں نہیں۔
مگر پاکستان میں ایک سرکاری ادارہ ایسا بھی ہے، جہاں کام کرنے والے کی
حاضریاں ستّر یا اسّی فیصد کی بجائے دس فیصد بھی ہوں تو ان کو پوری تنخواہ
ملتی ہے۔ یہ ہمارے معزز ممبرانِ اسمبلی ہیں، جن میں سے چیئرمین سینٹ، سپیکر
اور وزرا بھی بنائے جاتے ہیں۔ خبر آئی ہے کہ ممبرانِ پارلیمنٹ کی تنخواہوں
میں ایک سو پچاس فیصد اضافہ کی منظوری دے دی گئی ہے۔ یوں اب چیئرمین سینٹ
اور سپیکر قومی اسمبلی دو لاکھ پانچ ہزار تنخواہ لیں گے، ان کے ڈپٹی ایک
لاکھ پچاسی ہزار، وفاقی وزیر دو لاکھ، چھوٹے وزیر (وزیر مملکت) ایک لاکھ
اسّی ہزار اور عام رکن قومی اسمبلی ایک لاکھ پچاس ہزار روپے تنخواہ وصول
کرے گا، یوں اس اضافے سے قومی خزانے پر ماہانہ چالیس کروڑ روپے کا بوجھ پڑے
گا۔ واضح رہے کہ یہ تنخواہ ہے، مراعات اور الائنسز اس کے علاوہ ہیں۔ وزیر
خزانہ نے کہا ہے کہ بلوچستان اسمبلی کے ممبران کی تنخواہیں اس سے کہیں
زیادہ ہیں۔ کابینہ کے اجلاس میں جب بات تنخواہوں کی ہوئی تو وزیراعظم نے
تنخواہ میں اضافہ کا عندیہ دیا اور ساتھ ہی کارکردگی بہتر کرنے کی ضرورت پر
بھی زور دیا۔ مگر ستم یہ ہے کہ اسمبلیوں کی کارکردگی شرمناک حد تک خراب ہے،
اکثر اوقات کورم ہی ٹوٹ جاتا ہے، اگر کسی مسئلے پر بحث ہے تو وہ بھی غیر
سنجیدہ رخ ہی اختیار کئے رکھتی ہے، قانون سازی میں بہتر کا خیال کسی نے
کبھی نہیں رکھا۔ جن دنوں میں معزز ممبران تشریف ہی نہیں لاتے ، ان دنوں کے
ٹی اے ڈی اے بھی وصول فرما لیتے ہیں۔ اسمبلی میں سوال کرنے والوں کی تعداد
انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے، اور ان کو جواب دینے والے ان سے بھی کم ہیں، آئے
روز یہ مہربان دست وگریبان رہتے ہیں۔ یوں پارلیمنٹ کے ارکان ایک کربناک
مذاق کی صورت میں قوم کے سینے پر مونگ دَل رہے ہیں، اور اِسی ستم کی بھاری
تنخواہ وصول کرتے ہیں۔
پارلیمنٹ کے ارکان کی تنخواہ ہونی چاہیے، مگر یہ خیال بھی رکھا جائے کہ
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی آنکھوں میں دھول جھونک کر (کہ کمیشن نے نظر
انداز کرنے کا خود ہی ماحول بنا رکھا ہوتا ہے) کروڑوں روپے الیکشن مہم پر
لگاتے ہیں، اثاثے چھپاتے ہیں، غلط بیانی کرتے ہیں۔ ایسے ارکان اسمبلی کہ جن
کے پاس واقعی روز گار کے ذرائع زیادہ وسیع نہیں، یا جن کا روزگار محدود ہے،
ان کی تعداد بھی انگلیوں پر ہی گنی جاسکتی ہے۔ یہ بھی نوٹ کیا جاسکتا ہے،
کہ اگر کوئی عام اور غریب نمائندہ اسمبلی میں پہنچ گیا ہے، تو وہ دوسروں سے
زیادہ محنتی اور حاضر باش ہوتا ہے۔انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ اگر اِ ن لوگو ں
کو مسلسل غیر حاضر رہنے اور کچھ بھی نہ کرنے پر اس قدر تنخواہ ملے گی، تو
دیگر سرکاری محکموں کے ملازمین کے لئے کیا حکم ہے؟ اور یہ بھی کہ آیا قانون
ساز اداروں کے معزز ممبران کو یہ غیر سنجیدہ رویہ زیب دیتا ہے؟ |
|