خواجہ سراء اور عمرہ
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
سعودی حکومت نے ایک انوکھا فیصلہ
صادر کیا ہے، جس کے مطابق اب خواجہ سراؤں کو عمرہ کی اجازت نہ ہوگی۔ ہم اس
بات پر کم ہی غور کرتے ہیں کہ بہت سے مواقع پر ہم ایسے جذبات کا اظہار کر
جاتے ہیں، جو صریحاً اﷲ تعالیٰ کے اختیارات میں مداخلت یا اعتراض وغیرہ کے
زمرے میں آتے ہیں۔ ایسے ردّ عمل سے بظاہر تو ہم کسی کا مذاق اڑا رہے ہوتے
ہیں،درحقیقت ہم خالقِ کائنات کی تخلیق پر نکتہ چینی کر رہے ہوتے ہیں۔
دوسروں کا مذاق اڑا کر یا انہیں تضحیک کا نشانہ بنا کر مزاح پیدا کرنے کی
کوشش کرنے والے اس بات کو ذہن سے نکال دیتے ہیں کہ جس کو مذاق کیا جارہا ہے
اس کے دل پر کیا گزررہی ہوگی۔ اس مذاق کا دوسرا بڑا نقصان یہ ہے کہ ہم اکثر
اوقات کسی کی شکل ، قد اور رنگ وغیرہ کو نشانہ بناتے ہیں، جبکہ ان تمام
عناصر کا تعلق براہِ راست اﷲ تعالیٰ کی تخلیق سے ہے، جسے اﷲ تعالیٰ نے جیسا
بنایا ہے، ہم اس کا مذاق اڑا کر اﷲ کی صناعی کی نفی کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ
گناہ اس قدر عام ہے کہ اس میں ہر طبقہ فکر ملوث ہے، کیا دانشور، کیا علما،
کیا سیاستدان، کیا عوام، اکثر اس فعلِ بد کا شکار ہیں۔ خواجہ سراؤں نے
اگرچہ خود بھی ایسا ماحول بنا رکھا ہوتا ہے، جس سے دوسروں کو ان کا مذاق
اڑانے کاموقع میسر آتا ہے، وہ خود کو مردانہ رنگ میں ڈھالنے کی بجائے زنانہ
شکل و صورت اختیار کرنے کو ترجیح دیتے ہیں، جبکہ ان کی ظاہری شباہت مردوں
کے قریب تر ہوتی ہے۔ اس صورت کو نبھانے کے لئے وہ ہر محفل اور ہر موقع پر
بے تکلف ہی دکھائے دیتے ہیں۔ ان کی مضحکہ خیز بناوٹ پر بچوں سے لے کر بڑوں
تک سب ہی اپنے حساب کے مطابق تبصرے کرتے اور آوازے کستے ہیں۔
خواجہ سراؤں کو چونکہ اجتماعی طور پر مذاق کا نشانہ بنایا جاتا ہے، اس لئے
معاشرے میں ان کو ذمہ دار شہری کے طور پر قبول ہی نہیں کیا جاتا۔ یہی وجہ
ہے کہ نہ تو سرکاری ملازمتوں میں ان کا کوئی کوٹہ ہے۔ یہ لوگ کبھی حکومتوں
کے در پر دستِ سوال دراز کرتے ہیں، کبھی عدالتوں کے دروازوں پر دستک دیتے
ہیں، کبھی نوبت احتجاج پر آجاتی ہے۔ عدالتوں نے اپنے بعض فیصلوں کے ذریعے
اِن کے حقوق دلانے کے احکامات صادر کئے ہیں، مگر مجموعی طور پر ان لوگوں کے
بارے میں کوئی قابلِ تحسین قدم نہیں اٹھایا گیا۔ خواجہ سراؤں کی بات نہ سنے
جانے اور ان کے مطالبات پورے نہ ہونے اور معاشرے میں ان کو مذاق اور تضحیک
کا نشانہ بننے کے پیچھے جہاں معاشرتی بے حسی کار فرما ہے، وہاں ان کا اپنا
عمل دخل بھی حد سے زیادہ ہے۔ اُن کے غیر سنجیدہ رویے ان کو معاشرے میں
سنجیدہ مقام دلانے کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہیں۔ نوبت یہاں تک ہے کہ کسی
بھی قسم کی محفل یا ماحول میں ان لوگوں کو مذاق ہی تصور کیا جاتا ہے، جس کا
سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ اِن لوگوں کو روز گار کی سہولت میسر نہیں
آتی۔ جن گھروں میں یہ پیدا ہوگئے، وہ بھی اِ ن کو برداشت نہیں کرتے۔ یقینا
ایسا بھی ہوگا کہ بہت سے خواجہ سرا ایسے ہونگے جو عام شریف گھر میں پیدا
ہوئے اور یہ راز زیادہ لوگوں پر نہ کھلا، اور وہ عام انسان کی زندگی بسر کر
رہے ہونگے، مگر معاشرے میں ایسے راز رکھنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔
پاکستانی معاشرے میں خواجہ سراؤں کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا ہے، اس کو جہالت
قرار دیا جاسکتا ہے، کہ قوم اپنی جہالت کی بنا پر ان کو تضحیک کا نشانہ
بناتی اور دوسرے درجے کے شہری بنا کر رکھتی ہے، یہ غیر انسانی رویہ قابلِ
مذمت تھا، ہے اور رہے گا، مگر سعودی عرب سے آنے والی خبر نے جلتی پر تیل کا
کام کیا ہے۔ خانہ کعبہ اﷲ تعالیٰ کا گھر ہے، صرف وہی لوگ وہاں نہیں جا سکتے
جو دائرہ اسلام میں داخل نہیں ہوئے، یا پھر فاترالعقل ہیں کہ انہیں اپنی
ہوش نہیں۔ کسی مسلمان کو خانہ کعبہ میں داخلے سے کیسے روکا جاسکتا ہے؟ اگر
سعودی حکومت کے پاس ایسی کوئی شرعی دلیل ہے تو اسے امتِ مسلمہ کے سامنے پیش
کرنا چاہیے تھا، ملت کو مطمئن کرنا چاہیے تھا۔ ورنہ اِ ن بھٹکے ہوئے لوگوں
کے راستے ہم خود ہی بند کر رہے ہیں۔ ستم یہ بھی ہے کہ اپنی حکومتیں بھی
سعودی عرب کے سامنے ایسے سوالات کرنے سے کتراتی ہیں، کیونکہ ان کے اپنے
مفادات وابستہ ہوتے ہیں۔ سعودی حکومت کا فرض ہے کہ وہ تمام مسلمانوں کو ایک
نگاہ سے دیکھے۔
|
|