ہماری جدہ میں سب سے پہلی رہائش جہاں پختون
بھائی نے فلیش مار کے عشق کا اظہار کیا تھا، کلو خمسہ سے جامعہ ملک
عبدالعزیز کی طرف جائیں تو گول چکر سے پہلے دائیں ہاتھ گلی میں تھی۔حضرت
آدم نے گندم کھائی اور خلد سے نکلے خان صاحب نے فلیش ماری تو ہمیں اماں حوا
کے شہر سے نکلنا پڑا۔باوا آدم کے تجربے سے فائدہ یہ ہوا کہ ہم کلو پانچ سے
کلو چھ میں جا کر پناہ گزین ہوئے سنا ہے وہ سری لنکا نکل گئے تھے۔
کافی عرصہ تک ہم سب کلو خمسہ کے ٹویوٹا کمپنی والے سٹاپ پر اتر جایا کرتے
تھے ایک بار غلطی سے خمسہ والجامعہ والی گاڑی پر بیٹھ گیا۔جب گاڑی ٹویوٹا
سے بائیں ہاتھ مڑی اور آگے جا کر گول چکر کے پاس پہچی تو پتہ چلا ہم مہینوں
سے غلط گاڑی میں بیٹھ کر مین روڈ پر اتر جاتے تھے۔ہماری سادگی کی داستانیں
سنیں گے تو پتہ نہیں آپ کوغلط فہمی ہو جائے گی کہ ہم کس کسم کے سادہ بندے
تھے۔اس گھر میں کوئی دو ماہ رہا ہوں گا۔اسی گھر میں رمضان کے روزے آئے آپ
اندازہ کریں اگست ۱۹۷۷ کے روزے قیامت کی گرمی لیکن مجال ہے کسی نے روزہ نہ
رکھا ہو برف لینے کلو ستہ مصانع تیسیر للتلج پر جانا پڑتا ہمسائے سے کچھ
لوگ ترس کھا کے برف دے جایا کرتے۔عربی آتی نہیں تھی۔ہم نے ڈبوں میں بند
سبزی کے ڈبے گھر کے بیرونی درواے کی اندر والی سائیڈ پر رکھے ہوئے تھے پاس
میں ہی ایک بقالہ تھا جا کر جو بھی چیز لانی ہوتی وہ ڈبہ لے جاتے اور کہتے
ہت سوا سوا(دے دے اس شکل کی چیز) مجھے تھوڑے ہی عرصے میں پتہ چل گیا کہ ہم
روز مرغی کے ساتھ مٹر کیوں کھاتے ہیں بعد میں مجھے علم ہو گیا کہ خالی ڈبوں
سے کام نہیں چلے گا میں بوڑھے عربی کی دکان پر گیا ایک کاغذ پر نام لکھے
اور اس کے بعد ڈیرے والوں کو چنے،بھنڈی اور دیگر چیزیں بھی ملنا شروع ہو
گئیں۔دودھ آسٹریلیا سے امپورٹٹد ملا کرتا تھا۔دہی یمنی ڈبوں میں بند کر کے
بیچا کرتے تھے۔پیپسی کا ٹن دو ریال کا تھا جو بعد میں پلانٹ لگنے کے بعد
ایک کا ہو گیا۔ڈیرے کے لوگوں کا آپس میں بہت پیار تھا۔مجھے جاتے ہی ورکشاپ
میں نوکری مل گئی وہ بھی اﷲ بھلا کرے ماسٹر غلام محمد کا انہوں نے ایک گورے
سے بات کی جو مجھے سٹریٹرز آف گوڈل منگ کی ورکشاپ لے گیا جو منطقہ صناعیہ
میں تھی یہ ورکشاپ عبداﷲ ہاشم کے سامنے ایک لمبی سڑک ہے وہاں واقع تھی۔مجھے
ان کچھا پہننے والوں گوروں سے واسطہ پڑا۔یہ لوگ کمال کے محنتی تھے گرمی خوب
لگتی تھی ہر وقت اسلامی بیئر پیتے رہتے تھے۔مجھے پوچھا کہ کیا کام کریں گے
جواب دیا ورکشاپ میں۔لاہور میں رانا موٹرز میں مینجر کی پوسٹ چھوڑ کر آیا
تھا اس سے پہلے لاہور پولی ٹیکنیک کا نائب صدر بھی رہ چکا تھا پنجاب
اسٹوڈنٹس کونسل میں بھی ٹیکنیکل طلباء کی نمائیندگی کر چکا تھا۔ہاتھ سے کام
آتا نہیں تھا خالی نمبرداری تھی جس کا ریٹ وہاں نہیں لگا۔بڑی مشکل ایک ماہ
گزارا اور نوکری سے جواب ہو گیا۔وہاں کمال کے لوگ ملے ایک غفور صاحب تھے جو
بعد میں سعودی ایئرلائن میں چلے گئے ایک صفدر بھائی تھے ان کی بھی کیا بات
تھی وہ میری بڑی مدد کرتے مگر کچھ عملی طور پر آتا تو کام چل سکتا
تھا۔گوروں نے تیس دن کے بعد تیس دن نوٹس کے پیسے دئے تو وارے نیارے ہو گئے
سب سے پہلے یاشیکا کیمرہ لیا اسٹینڈ بھی ساتھ تھا کچھ اور چیزیں لیں جس میں
سونی کی ایک خوب صورت و سیرت ٹیپ گھر کے لئے لی ایک ٹیپ نیشنل کی ڈیرے کے
لئے جو پیسے بچے گھر روانہ کر دئے۔کافی رقم ہاتھ لگ گئی تھی ایک آدھ اور
چیزیں لیں۔ان دنوں کیسٹوں کا رواج تھا ٹی ڈے کے کیسٹیں لاجواب تھیں۔بلد ایک
بازار تھا جہاں سے ہر چیز ملتی تھی باب مکہ سٹاپ سے تھوڑا پیدل چل کر بلد
پہنچ جاتے تھے وہیں سے کشور کمار کی کیسٹ ملا کرتی تھی۔جو راہ چلی تو نے اس
راہ پے راہی چلتے جانا رے۔میرا پسندیدہ گیت تھا۔میری بے جی بھی پسند کرتی
تھیں تہجد گزار بے جی کو یہ گیت اس لئے پسند تھا کہ ان کے بیٹے جس کو کالج
میں راہی کے نام سے جانا جاتا تھا اس کا نام اس میں تھا مائیں بھی کیا چیز
ہوتی ہیں بچوں کے جوتے بھی سینے سے لگا لیتی ہیں۔
ایک بار شیر زمان جو اب اس دنیا میں نہیں اسے جن پڑ گئے ہم سارے ڈر گئے میں
نے دلیری دکھائی وہ عجیب آوازوں میں کہتا کہ میں لسن سے آیا ہوں ۔میں نے اس
سے کہا با با ہم تو بڑی مشکل ست آٹھ آٹھ ہزار لگا کر پہنچے ہیں تم کدھر روز
آ جاتے ہو۔وہ دو چھریاں لے کر کمرے میں آ گیا میں اکیلا تھا اتنے میں بابو
اشرف آ گئے اﷲ ان کا بھلا کرے ہم دونوں نے مل کر شیر زمان سے چھریاں قابو
کیں۔شیر زمان کی ڈیوٹی ہوا کرتی تھی کہ وہ روٹیاں لے کر آیا کرے بیس روٹیاں
اٹھائے آتا تو ہم دن بھر کے تھکے منادے بیسویں روٹی کو بھ راہ عدم دکھا
دیتے۔مجھے جب چودھری نثار نے کہا کہ تندوروں پر نظر رکھو آپ کو دہشت گرد مل
جائیں گے ہم بھی روٹیوں پر ٹوٹ پڑنے والے دہشت گرد ہی تو تھے۔
سیف الرحمن ماسٹر صاحب کے بھتیجے ہیں مجھ سے بہت پیار کرتے تھے میں ان کا
دوہتمان تھا لسن گاؤں سے ماں جی کا تعلق تھا وہ لوگ اﷲ انہیں خوش رکھے مجھ
سے کوئی کام نہ کرواتے تھے میرا شوق کھانا پکانا تھا جو مجھے آتا تھا بس
یہی کام میں کرتا تھا باقی گھر میں سارا کام کاج سب مل جل کر کرتے۔ایک دن
ایک نئی مصیبت آن ٹپکی مالک مکان آ گیا اور اس نے تین کمرے کے مکان کا
کرایہ تین سو ریال بڑھا دیا۔عربی کسی کو نہیں آتی تھی میں اپنے آپ کو عربی
داں سمجھتا تھا میں نے قران پاک ترجمے سے پڑھ رکھا تھا لیکن وہاں جا کر
معلوم ہوا یہ عربی اور ہے۔اس نے کہا کہ اس گھر میں اس نے جوتوں کے جوڑے گنے
ہیں جو چوبیس ہیں لہذہ کرایہ چوبیس سو ہو گا۔ہم نے سر پیٹ لیا میرے اپنے
تین جوڑے تھے میں نے اسے اشاروں میں سمجھایا یا شیخ ہذا تلاثہ جوڑا
حقی(اوئے شیخ صاحب یہ تین جوڑے میرے ہیں) اس نے بڑی رد و کد کے بعد سو ریال
کرایہ بڑھایا لیکن اس کے بعد میں شاپر میں دو جوڑے ڈال کر سویا کرتا تھا۔ان
یلوں کے ساتھ زندگی بڑی اوکھی گزاری۔ اس دوران ہمارے ساتھ ایک قیامت گزری
ہمارا ایک قریبی عزیز بھائیا ولی شدید بیمار ہو گیا ۔ہم نے اسے باب مکہ
سٹاپ کے پاس مرکزی ہسپتال میں داخل کروا دیا اس سے پہلے اسے داغستانی ہسپتا
ل لئے گئے اس پراؤیٹ ہسپتال نے جان لیا کہ کمزور آسامیاں ہیں انہوں نے
سرکاری ہسپتال میں بھیج دیا۔ولی بھائی وہاں چند روز رہے مجھے اچھی طرح یاد
ہے ایک رات میں گہری نیند سویا ہوا تھا ماسٹر جی مجھے اٹھاتے رہے میں پھر
سو جاتا کہنے لگے اٹھیں آج قیامت کی رات ہے ولی بھائی کو الٹی ہوئی ہے خون
نکلا ہے۔میں نے انہیں اپنا کمبل دے رکھا تھا آنکھ کھولی تو پردیسی ہلکان ہو
رہا تھا ہم انہیں جیسے تیسے ہسپتال لے گئے۔ہم ولی بھائی کو دیکھنے جاتے
کبھی سیب اور کبھی کلو دو کلو کیلے ہمارے ساتھ ہوتے ایک دن ایک عرب نے کہا
یہ بندہ ٹی بی سے مر رہا ہے اس کا علاج کرواؤ کیلے کون کھائے گا۔اور پھر وہ
گھڑی آ ہی گئی ولی بھائیا مر گیا ایک اوورسیز پاکستانی جسے ملک میں روٹی نہ
ملی جدہ میں مر گیا یہ جدہ میں مرنے والوں میں پہلا آدمی ہو گا جسے میں
جانتا ہوں۔سردیوں کی راتیں تھیں ہم اس رات گھر میں آ کر سہمے ہوئے بیٹھے
تھے بھائیا غلام رسول جس کا تعلق پنڈی گھیپ سے تھا اٹھا اس نے کہا بھائیا
ولی مر گیا ہے ہم نہیں مرے اس کی لاش کو بھیجنا ہو گا۔یہ ہمارے لئے چیلینج
ہے۔میں نے سینے پر ہاتھ مار کر کہا میں بھیجوں گا اس کی لاش کو۔بیرون ملک
پاکستانی جانتے ہیں یہ کتنا بڑا کام تھا بھائیا غلام رسول ڈیرے ڈیرے گیا
اور بڑا فنڈ اکٹھا کر کے لے آیا۔کیا زمانہ تھا لوگ ایک دوسرے کا دکھ بانٹتے
تھے پانچ ہزار ریال خرچہ تھا جو سمجھ لیں اس وقت تیس ہزار جب مزدور کی
پاکستانی روپوں میں ۱۸۰۰ یا دوہزار تھی۔سب سے بڑا کام گورنر ہاؤس پولیس
کسٹم سے خطوط لینا تھے بد قسمتی یہ تھی ہم سب غیر قانونی تھے ہمارے پاس
عمرے کے ویزے تھے۔یہ میری زندگی کا سب سے مشکل مرحلہ تھا میں نے پینٹ شرٹ
نکالی استری ہمارے پاس نہ تھی میرے چچا مرحوم اپنے وقت کے بانکے تھے جب
گاؤں نلہ میں استری نہ تھی وہ کوئلوں سے کسی تھالی کو گرم کرتے تھے میں نے
پینٹ شرٹ استری کی اور اگلے روز گورنر ہاؤس چلا گیا ٹوٹی پھوٹی عربی میں
کہا میرا بھائی مر گیا ہے مجھے اجازت نامہ دیں انہوں نے وزارت صحت کا لیٹر
دیکھ کر مجھے اجازت نامہ دینے کا وعدہ کیا اور کہا کہ اگلے دن آ جاؤ ۔مجھے
کسی نے نہیں پوچھا کون ہو کیا شناخت ہے ایک پاسپورٹ تھا جو میرے پاس
تھا۔خدا خدا کر ہم نے لاش ایک ہفتے میں بھیج دی ماسٹر غلام محمد اس پورے
کارواں کا لیڈر تھے وہ بھی ساتھ ہی چلے گئے۔ مقصوداں میرے پر آج بھی ہشاش
بشاش ہیں اﷲ انہیں لمبی زندگی دے۔بابو اشرف بھی میرے ساتھ ساتھ تھے مگر جب
کسی دفتر کے اندر جانا ہوتا میں خود ان سے درخواست کرتا آپ دور کھڑے رہیں
جب میں پکڑا جاؤں تو جا کر ڈیرے والوں کو بتا دینا۔
کام مجھے کوئی آتا نہیں تھا قیام غیر قانونی تھا۔ہم میں سے ایک قانونی آدمی
تھا جس کا نام در ایمان تھا میرے خلیرہ بھائی انتہائی نفیس پیار کرنے
والا۔وہ گجرانوالہ کے ایجینٹ رشید کے ذریعے جدہ پہنچا رشید روز اسے گولیاں
دیتا ایک بار واپڈا ہاؤس کے باہر میں نے پکڑ لیا کہنے لگا میں نے نہیں مال
نہیں کھایا بلکہ منشاء کھا گیا ہے منشاء کو کھری کھری سنا دیتا۔میرا دل بھی
چاہتا کہ کہیں مجھے منشاء مل جائے تو اسے پوچھوں۔
وقت بدلا ویزہ لگ گیا در ایمان جدہ کی فالکن فیٹ کمپنی میں پہنچ گیا یہ
کمپنی سہگلوں کی تھی جس کے مالکان میں وہی منشاء تھا جس کا ذکر رشید ایجینٹ
کیا کرتا تھا۔منشاء زبردست تیز و طرار شخص تھا ۱۹۷۸ میں کئی بار وہ مجھے
فالن فریٹ سے بندرگاہ لے جایا کرتا۔ہمیشہ اونچی چھوڑتا۔ اسرار شاہ سردار
حفیظ عبدالقادر ،پرویز مسعود پوری سب اس کمپنی کے ملازم تھے۔قارئین میں اس
منشاء سے چند سال پہلے ملا اور جان کر آپ کو حیرت ہو گی اس وقت یہ میاں
منشاء تھے اونچی اونچی چھوڑنے والے اس وقت ٹائیکون آف پاکستان ہیں۔درایمان
نے مجھے ایک دو باتیں بتائیں اس نے کہا کہ کوئی پوچھے کہ جواز سفر کہاں ہیں
یعنی پاسپورٹ تو کہہ دینا داخل فل متب یعنی دفتر میں ہے۔بس پاکستانی شناختی
کارڈ دکھا دینا۔ہوا کچھ یوں کہ جیسے ہی ویزے کے پندہ دن ختم ہوئے حرم کے
سامنے باب ملک عبدالعزیز پر شرطے نے پکڑ لیا میں نے بتاقہ پاکستانی شناختی
کارڈ دکھا دیا اس نے کہا فین جوا میں نے جواب دے دیا فل مکتب ۔شرطے نے میری
شکل اور شناختی کارڈ پر لگی تصویر دیکھ کر میرا کالر چھوڑ دیا۔
جیسے ہی سیف الرحمن مجھے گلی کی نکڑ پر ملا بڑا گھبرایا ہوا تھا کہنے لگا
بابو جی! گھر میں پولیس کا چھاپہ پڑ گیا ہے سارے بندے پکڑے جا رہے ہیں آپ
میرے ساتھ چلیں۔ہم دوسری گلی سے ہوتے ہوئے پیچھے پیچھے سے کلو ستہ پہنچ گیا
یہاں کسی جاننے والے کے پاس رات گزاری اور بعد میں ہمیں اپنا مکان مل گیا۔
ہم کس گھر میں پہلی بار آئے کچھ یاد نہیں پڑتا مگر جلد ہی ہم نے اپنا خود
سے گھر لے لیا کچھ دوست ادھر ادھر ہوگئے۔
اب ذہن پر زور دیا تو یاد آیا کہ ماسٹر غلام محمد صاحب کے جانے کے بعد ہم
لوگ کلو چھ میں آ گئے مین روڈ سے اند ایک کلو میٹر پر پرانی سے ایک مسجد
تھی وہاں گلی میں ٹھکانہ ہوا۔دوسرے کمرے میں گجرات کا ایک لڑکا گجرانوالہ
کا شمو تھا یہاں آ کر ہمارے طرز زندگی میں بہتری آئی۔کمرے میں چار آدمی ہو
گئے
پلاسٹک کی الماری بھی لے لی۔دس ماہ بعد استری کئے ہوئے کپڑے بھی پہنے اسی
دوران شاہ خالد بن عبدالعزیز نے مسلم ۴۴ ویزہ بھی جاری کر دیا۔ انہی دنوں
میں ہری پور کا ایک الیکٹریشن ہمارے ساتھ رہنے لگا نئے نئے اے سی لگنا شروع
ہوئے مالک مکان کے اے سی کا فیوز اڑ گیا ایک دوست کو ساتھ لے گیا اور چند
ہی منٹوں میں پچاس ریال کھرے کر لئے پتہ چلا فیوز اڑ گیا تھا۔وہ دور ان
لوگوں کا دور تھا جن کے ہاتھ کوئی فن تھے ہمارے جیسے لوگ کمپنیوں میں گھس
گئے چھوٹی چھوٹی ملازمتیں کر لیں۔اسٹریٹرز کے بعد میں شارع حائل پر واقع
ایک دفتر مین گھس گیا کوئی عبالزاق نامی شخص نے انٹرویو کیا اور مجھے کمپنی
کا ایک کارڈ دے دیا کہ ربع الخالی چلے جاؤ۔ٹکٹ دہران کا دیا ۔میری فلائٹ
براستہ ریاض تھی میں نے زندگی کی حیران کن فلائٹ بھی دیکھی جس کا ذکر آگے
جا کر کروں گا۔ریاض ایئر پورٹ شہر کے اندر تھا یہاں سے آگے میری فلائٹ
دہران کی تھی رات کا قیام تھا میں ایک عربی چائے خانے چلا گیا تین ریال دے
کر عربی منجھا کرائے پر حاصل کیا۔یہ ہماری پیڑھی کا دادا سمجھ لیں۔صبح
سویرے اگلی فلائیٹ پکڑی
دمام الخبر روڈ پر ارگاس کمپنی کا کیمپ تھا وہاں خدا خدا کر کے پہنچا ایک
کنٹینر میں مجھے کمرہ دے دیا گیا ۔کمرے میں چار عد اوپر نیچے چارپائیاں لگی
ہوئی تھیں۔ایک کالا آیا اور اس نے ایک پلٹ میں رنگ برنگ چڑیاں ابلی ہوئی
رکھ دیں میدے کی یہ تصویریں ،پہلے تو سمجھ ہی نہیں سکا۔رنگ برنگی مگر بعد
میں پتہ چلا کہ یہ مکرونی ہے جو اب شوق سے کھاتا ہوں۔میں سمجھتا تھا کہ میں
جدہ سے ریاض اور پھر وہں سے الخبر پہنچ گیا ہوں مگر مجھے بتایا گیا رات
آرام کریں صبح صحرائے ربع الخالی میں جانا ہے جو یہاں سے دور ہے۔سوچا یا
خدایا یہ لوگ مجھے کہاں لے جائیں گے۔پتہ نہیں کیا کھایا رات جیسے تیسے گزری
صبح گاڑی میں بیٹھے دہران ایئر پورٹ پہنچے عقبی دروازے سے داخلہوئے گاڑی
ایک پرانے سے جہاز کے نزدیک جا کھڑی ہوئی۔جہاز دیکھا بھالا لگا ۔میں اسے
دوسری جنگ عظیم پر بنی فلموں میں کہیں دیکھ چکا تھا گنز آف نیوران میں یا
شائد کسی اور فلم میں۔پائلیٹ نے وردی اتاری اور وہ جہاز میں آلو پیاز
لادھنے لگ گیا میں اور ایک اور طویل پاکستانی جس کا بعد میں پتہ چلا وہ
پنڈی گھیپ کے قاضی صاحب ہیں سلطان نام تھا،ہم بھی سبزی فروٹ وغیرہ لادنے پر
لگ گئے۔تھوڑی دیر میں پائیلٹ پھر وردی میں آ گیا یہ کوئی فرنچ تھا۔اس نے
سلطان صاحب کو کہا جنہوں نے مجھے کہا کہ جہاز کے ایک طرف کے پنکھے کو گھماؤ
نو چکروں کے بعد نیچے لیٹ جانا ہے۔ٹھیک نو چکروں کے بعد میں اور قاضی سلطان
نیچے لیٹ گئے اور وہ جہاز سٹارٹ کر دیا گیا۔میں اور سلطان ہاتھ جھاڑ کر
جہاز میں سوار ہو گئے۔یہ ۱۹۴۸ ماڈل کا ڈی سی ۳ تھا
۔جہاز جیسے ہی ہوا میں بلند ہو کر لیول پر آیا میں پائلٹ کے پاس چلا گیا
جہاز کوئی زیادہ بلند نہ تھا نیچے صحرا ہی صحرا تھا کوئی دو گھنٹے کے بعد
پائلٹ نے کہا مسٹر نیچے کہیں کیمپ نظر آئے تو مجھے بتانا۔لئے وائی!میں کدھر
پھنس گیا یہ مشاق پائلٹ مجھ سے کہہ رہا تھا کہ تم مجھے گائڈ کرنا۔میں نے
سلطان سے کہا بھائی جان یہ کون سا اناڑی لے آئے ہیں جو مجھ سے گائڈینس لے
رہا ہے ۔اس کا کہنا تھا کھڑکی میں دیکھنے میں کیا حرج ہے۔اتفاق سے مجھے کچھ
سرخ رنگ کی جھنڈیاں اور خیمے نظر آ گئے ہم کوئی ۱۵۰ میل کی رفتار سے چار
گھنٹے سفر کر چکے تھے۔جہاز نیچے کی طرف گیا مگر پھر بلند ہو گیا اس کے ٹائر
نہیں کھلے تھے میں پریشان ہو گیا دل میں ہزار وسوسے آئے عمر مشکل سے بائیس
سال تھی۔مونچھیں بھی پوری نہیں آئی تھیں سوچا کہیں حسرت ان غنچوں پر نہ آ
جائے جو بن کھلے مرجھا جائی گی۔مشکل میں اﷲ اور اس کے بعد ماں آتی ہے۔اﷲ سے
صرف اتنا کہا کہ چنگی نئی اوں کیتی ربا۔تھوڑی ہی دیر میں کھڑک سی آواز آئی
سلطان اور پائلٹ دونوں مسکرا دئے اور ہم تھوڑی ہی دیر میں ایک میدان میں
اتر گئے کوئی رن وے نہ تھا لیکن صحرا میں اسے ریت ہٹا کر ایک رن وے کی شکل
دے دی گئی تھی۔نیچے اترا تو لوگ کھڑے تھے ان میں اکثر پاکستانی تھے وہ گلے
لگ کر اس طرح مل رہے تھے کہ جیسے انسانوں سے مدتوں ملاقات نہ ہوئی ہو۔ان کے
ہاتھ میں ریت کی بالٹیاں تھیں۔جو بعد میں پتہ چلا آگ لگنے کی صورت میں
بھجانے کے لئے تیار رکھیں تھیں۔رات کو خیمے میں باری باری لوگ آئے یہ زیادہ
تر ہزارے کے تھے ان میں بابو شیر محمد جدون اور اشرف عرفان کا نام یاد ہے
یہ کھلا بٹ ہری پور اور چنگڑے کشکے کے تھے۔ہزارہ کے بیٹے اس دھرتی پر مدت
سے خدمات انجام دے رہے تھے۔(ربع الخالی کی باتیں اگلی قسط میں) |