میں اکثر سوچا کرتا تھا کہ خواتین پر تشدد
کا ڈھنڈورا جس زور سے پیٹا جاتا ہے، حقیقت اس کے برعکس ہے۔
یہ شاید مجھے اس لیے بھی محسوس ہوتا تھا کہ میری پرورش جس ماحول میں ہوئی
وہاں آج تک میں نے اپنی جاگتی آنکھوں سے ایسا کوئی واقعہ نہیں دیکھا تھا۔
دوسری وجہ شاید یہ بھی ہو سکتی تھی کہ میں الیکڑانک اور پرنٹ میڈیا پر نشر
ہونے والی تشدد زدہ خبروں کو سنسنی کی بجائے ہلڑبازی زیادہ سمجھتا تھا۔
تاہم گزشتہ دنوں ایک سفر کے دوران پیش آنے والے واقعہ نے میری اس سوچ کو
کافی بے رحمی سے کریدا۔
میں مارکیٹینگ کی فیلڈ سے وابستہ ہوں اور اس کے لیے مجھے ایک شہر سے دوسرے
شہر مسلسل حالت سفر میں رہنا پڑتا ہے۔
حال ہی میں ایک ایسے ہی سفر کے سلسلے میں مجھے ساہیوال سے اوکاڑہ جانا پڑا۔
سخت گرمی، حبس بھری شام اور کچھا کھچ بھری وین میں بیٹھی سواریاں برائلر
سپلائی کرنے والی وین کا منظر پیش رہی تھیں۔
میرے وہ دوست جن کا کبھی ہائی ایس ٹیوٹا وین میں بیٹھنے کا اتفاق ہوا ہو وہ
اس بات سے بخوبی واقف ہوں گے کہ ایسی گاڑیوں میں کم گنجائش پر زائد سواریاں
بٹھانے کا اصول ہے۔
تاہم اگر ایسی وین میں اگر کوئی آرام دہ سیٹ میسر ہوتی ہے تو وہ ہے ڈرائیور
کے بغل میں موجود فرنٹ سیٹ، جسے حاصل کرنے کے لیے ہر مسافر کنڈکٹر سے لے کر
اڈا انچارج تک کی منتیں کرتا ہے۔
اس روز ان فرنٹ سیٹ کا طلب گار میں بھی تھا لیکن رکشے سے اترتے ہی جب پہلی
نظر وین پر پڑی تو ان سیٹوں پر ایک سندھی ٹوپی میں ملبوس باریش آدمی کے
ہمراہ زنانہ سواری دیکھ کر تمام امیدیں وہیں دم توڑ گئیں۔
خیر سفر تو بہرحال کرنا تھا لہذا گاڑی میں موجود خالی نشست ڈھونڈی گئی اور
سوار ہو گئے۔
اسی دوران چند مزید سواریاں بھی آگئیں جن میں ایک دوشیزہ بھی شامل تھیں۔
انہوں نے بھی غالبًا اوکاڑہ جانا تھا۔
گاڑی میں باقی ماندہ سیٹ پر مرد حضرات براجمان تھے تاہم دو سیٹیں خالی تھیں
مگر وہ بھی مردانہ سواریوں کے عین بیچ و بیچ، جس پر ظاہر ہے اس دوشیزہ نے
بیٹھنے سے انکار کر دیا۔
کنڈکٹر کو ایسی صورتحال میں ایک ہی راہ سوجھی اور وہ فرنٹ سیٹ پر بیٹھے
آدمی کی طرف لپکا اور انہیں مشورہ دیا کہ وہ پچھلی خالی سیٹ پر بیٹھ جائیں
اور اپنی زنانہ سواری کے ساتھ اس زنانہ سواری کو بیٹھنے دیں۔
نہایت سنجیدہ اور کرخت لہجے میں موصوف نے سیٹ دینے سے انکار کر دیا لیکن اس
دوران کنڈکٹر کا اصرار جاری رہا۔
سواریوں نے بھی کنڈکٹر کے مشورے کی تائید کی اور زنانہ سواریاں ایک ساتھ
بٹھانے کی بات پر ہاں میں ہاں ملائی لیکن یہ کوشش کارگر ہونے کی بجائے الٹی
پڑ گئی اور آدمی نے فورًا نیچے اتر کر اپنی کم عمر زوجہ کو بازو سے پکڑ کر
نیچے اتارا اور کہا کہ ہم دونوں نیچے اتر جاتے ہیں، کنڈکٹر کا جو دل چاہے
وہ کرے۔
سواریوں نے ان صاحب کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ نہ مانے۔ اسی دوران ان
کے ساتھ موجود زنانہ سواری نے بھی دھیمی سی آواز میں انہیں سمجھانے کی کوشش
کی جس پر وہ مزید سیخ پا ہو گئے۔
بیوی کو بازو سے کھینچا اور وین کے عقبی حصے کی آخری دو سیٹ پر گھسیٹ کر لے
آئے، آنکھیں زمین میں گاڑے خاتون جلدی جلدی وین میں سوار ہو گئیں اور ساتھ
میں موصوف بھی بیٹھ گئے۔
میری نشست ان کے ساتھ ہی تھی۔
انہیں بیٹھے ابھی چند سیکنڈ ہی گزرے تھے کہ صاحب نے اپنے دائیں ہاتھ کی ایک
مضبوط مٹھی بنائی جس سے ان کے ہاتھ میں پہنی دو انگوٹھیاں مزید ابھر آئی
اور اس مٹھی کی ایک کاری ضرب انہوں نے خاتون کے عین سر پر ماری۔
حرام مغز سے قدرے اوپر پڑنے والی اس ضرب کی شدت کس قدر تھی اس کا اندازہ
میرے لیے لگانا مشکل نہیں تھا کیونکہ میں ضرب لگانے والے کو اپنا ہاتھ
سہلاتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔
ساتھ ہی جناب اپنی زوجہ کو کرخت اور غصیلے لہجے میں ڈانٹنے لگے کہ لوگوں کے
بیچ تم نے بول کر میری ناک کٹوا دی، میری بے عزتی کروائی۔
دوسری جانب آنسووں اور ہچکیوں کا خاموش سمندر تھا، نظریں کھڑکی سے باہر اور
ڈوپٹے کا پلو آنکھوں کو بار بار چوم رہا تھا۔
پہلے گھونسے کی ٹھیس ابھی ابل رہی تھی کہ ایک اور گھونسا رسید کیا گیا جس
کے بعد کہیں جناب کو محسوس ہوا کہ انہوں نے اپنی گنوائی عزت بچا لی ہے۔
سواریوں نے اس اقدام پر کوئی خاص در عمل نہ دیا البتہ چند نوجوانوں کی جانب
سے معاملہ ختم کرنے کی آوازیں آئیں تو کالے بال اور سفید داڑھی والے باریش
شوہر جلال سے باہر آئے۔
سفر گزار، اوکاڑہ پہنچ کر زمین میں گڑھی آنکھیں اور گہرائی میں گڑھ گئیں
جیسے انہیں اٹھنے کی اجازت ہی نہ ہو۔
ان میں لالی اتر آئی تھی۔ تکلیف کا اثر اب بھی کہیں باقی تھا کیونکہ اس
لالی کے ساتھ ساتھ کہیں کہیں پلو سے بھی کچھ صاف کیا جا رہا تھا جس سے لگتا
تھا کہ سارا سفر اسی کرب و برداشت میں گزرا ہو۔
مجھے محسوس ہوا کہ عورتوں پر تشدد اور ان کا استحصال شاید ہر اس جگہ پر
موجود ہے جہاں ہمارے رویوں میں نام نہاد باپ، بیٹے، بھائی اور شوہر کی نام
نہاد غیرت موجود ہے۔
|