قدیم اور جدید غلامی

 عظیم سیاہ فام رہنما نیلسن منڈیلا کا قول ہے کہ " غلامی ، غربت ، اور نسل پرستی حادثاتی نہیں لائے گئے ، یہ انسان کی پیدا کردہ ہیں اور انہیں ختم بھی انسان ہی کر سکتا ہے " کیوںکہ جب غلامی کا ادارہ قائم ہوا تو اس سے حکمراں طبقے کے مفاداد وابستہ ہوئےاور ہر دور کے مذہب اور اخلاقی اقدار نے اس ادارے کی اہمیت پر زور دیا اور اس کے وجود کو انسانی ضرورتوں کے لئے جائز قرار دیا ۔ کیا یہ صیح تھا یا غلط ؟ سن آٹھ ہجری میں فتح مکہ کے بعد بھی کیا انسان صیح معنوں میں آزاد ہوا ہے کہ نہیں ؟

غلامی کی تاریخ کے ایک مورخ پیٹر جے پیرش نے غلامی کے بارے میں جو راء دی ہے اس سے اس کی تاریخی اہمیت کا احساس ہوتا ہے ۔ وہ لکھتا ہے کہ '' غلامی کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہوئے اس حقیقت کو ماننا پڑے گا کہ اس کی بنیاد نا انصافی اور غیر انسانی بنیادوں پر تھی اور اس کے نتیجے میں ظلم اور بربریت پیدا ہوئی ۔ اس کے ساتھ ہی یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ غلامی نے انسانی تاریخ میں یہ ثابت کردیا ہے کہ انسان میں مزاحمت کے جذبات اس قدر شدید ہوتے ہیں کہ وہ سختی اور تشدد کے باوجود بھی کچلے نہیں جاسکتے اور یہ بھی کہ انسانی فطرت کس قدر لچک دار ہوتی ہے جو ہر ماحول کو اپنے لئے سازگار کرلیتی ہے اور ہر قسم کی تکلیف اور مصیبتوں کو برداشت کرتے ہوئے زندہ رہنے کی خواہش کو برقرار رکھتی ہے ۔

آج جو سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظام ہے یہ امپریل ازم کی دوسری شکل ہے جبکہ اس سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا ہے کہ آج کے دور میں نوکری غلامی کی نئی شکل ہے ، جس میں کسی بھی قسم کی کوئی مرعات نہیں ہے اور نہ ئی کوئی بنیادی سھولت کا بندوبست ہے ۔ خاص طور پہ قوم کو اس ڈ گر پہ ڈ الا گیا ہے کہ وہ آزاد غلاموں کی کھیپ مُھیا کریں ، جبکہ غلامی کی کوکھ سے جنم لینے والا طبقتاتی نظام انسانی تذلیل کو اُجاگر کرنے میں بڑا اہم کردار ادا کر رہا ہے ۔ تو اس سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ غلامی ختم نہیں ہوئی بلکہ اس کی شکل تبدیل ہوئی ہے ۔ جدید غلامی کا موئثر ہتھیار بدحالی ہے جس کی بنا پر آسانی سے کم اُجرت پر غلام میسر ہوتے ہیں جو بنا کسی مزاحمت کے معاشی تنگ دستی کے باعث اپنی خذمات پیش کرتے ہیں ۔ معاشرے میں ان کا درجہ انتہائی پست لیول کا ہے ، یہ جہاں رہتے ہیں وہاں کسی بھی قسم کی کو ئی بنیادی سھولت نہیں ہوتی ، یہ سیاسی جماعتوں کے ہر دل عزیز ووٹر ہوتے ہیں اور ان کے جھوٹے وعدوں پر یقین رکھتے ہیں ۔ یہ آج بھی اس انتظار میں ہیں کہ کوئی مسیحا آئے گا جو انہیں اس بھنور سے نکالے گا ، مگر یہ تمام خواب ہیں جو حقیقت نہیں رکھتے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جب تک خود کو بدلنے کی قوت نہیں تب تک جھالت ،ذلالت اور بدحالی سے پیچھا چھڑانا ممکن نہیں ۔
Sheeedi Yaqoob Qambrani
About the Author: Sheeedi Yaqoob Qambrani Read More Articles by Sheeedi Yaqoob Qambrani: 14 Articles with 14100 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.