25نومبرتا 10دسمبر خواتین پر تشدد کے خاتمے کا عالمی مہم

’کاش میں عورت نہ ہوتی،اگرمیری شادی لطیف سے نہ ہوتی تو زندگی کے 2سال اتنے کرب و اذیت میں نہ گزرتے ،مگر ۔۔۔‘‘سوچوں کی دلدل میں پھنسی سائرہ تب باہر آئی جب اس کی بہن رضیہ نے پوچھا کہ اب تمہارا کیا فیصلہ ہے تو سائرہ نے دم و اطمینان کے ملے جلے تاثرات سے مگر فیصلہ کن انداز میں کہا کہ ’’میں اب اس گھر میں نہیں جاؤں گی،بہت ہو چکا ،اب میں گئی تو وہ مجھے جان سے مار ڈالے گا‘‘۔صرف سائرہ ہی نہیں بلکہ پاکستان میں ہر دوسری لڑکی یا تو موت کوخود گلے لگا لیتی ہے یااسے اذیت نازک موت دے دی جاتی ہے یا پھر وہ حتمی طور پر علیحدگی کافیصلہ کر لیتی ہے ۔جب سائرہ کی شادی لطیف سے ہوئی تو وہ ایک خوبصورت و ذہین لڑکی تھی ،سہانے سپنے سجائے جب وہ بیاہ کر سسرال پہنچی تواس کا سامنا خوبصورت خوابوں کی بد ترین تعبیر سے ہوا ،تشدد ،ظلم و ستم کے ایسے پہاڑ اس پر ٹوٹے کہ وہ خود اندر سے ٹوٹ کر رہ گئی اور شایدکبھی نہ دوبارہ جڑ سکے گی۔مار کھانااور پھر میکے والوں سے چھپانا اور سب اچھا ثابت کرنا بلاشبہ ایک مشکل و کٹھن مرحلہ ہے جو ایک عورت ہی عبور کر سکتی ہے کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے عورت میں یہ خصوصیت ڈالی ہے کہ وہ مرد سے زیادہ صبر کرناجانتی ہے۔یہ صرف سائرہ کی کہانی نہیں ہے بلکہ ہمارا معاشرہ ایسی لڑکیوں سے بھراپڑاہے جنہیں نا کردہ گناہوں کی سزا دی جانا کوئی بڑی بات نہیں ہے ۔سسرال میں راج کرنے کی امید اور جہیز دے کر والدین اپنی رانی بیٹی کو رخصت کرتے ہیں مگران کی امیدوں پر پانی اس وقت پھیرتا ہے جب ان کی بیٹی سسرال میں اذیت ناک زندگی گزار رہی ہو،یا کچھ عرصے بعد بیٹی کی لاش کو کاندھا دینا پڑ تا ہو۔عورت ایک ماں،ایک بیٹی،ایک بہن اور ایک بیوی ہے اور پاکستان سمیت پوری دنیا میں عورت کسی نہ کسی روپ میں تشددکا شکارہے ،آخر عورت کو ان نا مساعدحالات سے کس دن آزادی ملے گی،کب وہ بے فکر ہو کر اپنی زندگی گزارے گے ،یہی وجہ ہے کہ ہر سال دنیا بھر میں عورتوں پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن 25 نومبر کو منایا جاتا ہے اور اسی روز عورتوں پر تشدد کے خاتمے کی سولہ روزہ سرگرمیوں کا بھی آغاز ہوتا ہے اور اختتام 10 دسمبر کو انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر ہوتا ہے۔ اس مہم کو منانے کا مقصد بہت واضح ہے کہ عورتوں پر تشدد انسانی حقوق کی عام خلاف ورزیوں میں سے ایک ہے۔ امسال کا موضوع ’’From peace in the Home,To peace in the World:Make education safe for all‘‘ ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد خواتین پر گھریلو تشدد، جسمانی تشدد اور ان کے مسائل کے متعلق آگاہی فراہم کرنا ہے۔ عورتوں پر تشدد انسانی حقوق کی عام خلاف ورزیوں میں سے ایک ہے۔عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہر چھ میں سے ایک عورت کو مرد کے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ پاکستان کی تقریباً باون فیصد آبادی عورتوں پر مشتمل ہے مگر یہاں ہر گھنٹے میں دو خواتین گھریلو تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔ نوے فیصد خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔ اس عالمی دن کا پس منظر یہ ہے۔ 25 نومبر 1960کو ڈومینکن ری پبلک کے آمر حکمران رافیل ٹروجیلو کے حکم پر تین بہنوں پیٹر یامر سیڈیز میرابل، ماریا اجنٹینا منروا میرابل اور انتونیا ماریا ٹیریسا میرابل کو قتل کردیا گیا تھا۔میرابل بہنیں ٹروجیلو کی آمریت کے خلاف جدوجہد کر رہی تھیں۔ 1981 سے عورتوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے افراد ان کی برسی کو عورتوں پر تشدد کے خلاف دن کی حیثیت سے منا رہے ہیں۔17 دسمبر 1999کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھی 25 نومبر کو عورتوں پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن قرار دیا اور اب دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی 25 نومبر کو عورتوں پر تشدد کے خاتمے کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے ۔ماہرین کے ایک سروے کے مطابق افغانستان خواتین کے لیے خطرناک ترین ممالک میں سے سرفہرست ہے جبکہ پاکستان اور بھارت بالترتیب تیسرے اور چوتھے نمبر پر آتے ہیں جبکہ افریقی ملک ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو دوسرے نمبر پر ہے۔سروے کے مطابق پاکستان میں خواتین کو کم جہیز لانے، کم عمر میں خواتین کی شادیوں اور غیرت کے نام پر قتل جیسے واقعات کی وجہ سے اس فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔اس سروے کی رپورٹ سے ثابت ہوا کہ قوانین کے باوجود دنیا بھر میں خواتین تشدد کا نشانہ بن رہی ہیں۔ اس دن کے منانے کا مقصد خواتین پر ذہنی، جسمانی تشدد اور ان کے مسائل سے متعلق آگاہی فراہم کرنا ہے۔1993 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خواتین پر تشدد کے خاتمے کے لیے ایک فریم ورک پیش کیا تھا۔ تاہم بیس سال سے زائد گزرنے کے بعد بھی تین میں سے ایک عورت جسمانی یا جنسی تشدد کا سامنا کر رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق 700ملین سے زائد خواتین دنیا میں ایسی ہیں جن کی اٹھارہ سال سے کم عمر میں شادی کر دی گئی۔ کئی ممالک سے حاصل کیے گئے ڈیٹا سے معلوم ہوا ہے کہ 40فی صد عورتیں جنھیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے وہ کسی قسم کی مدد نہیں لیتیں۔ جو مدد مانگتی بھی ہیں وہ بھی گھر والوں اور دوستوں سے ہی بات کرنا چاہتی ہیں نہ کے کسی فلاحی یا حکومتی ادارے سے۔پاکستان میں گزشتہ ایک سال میں دس
ہزار سے زائد خواتین کو تشدد کا سامنا کر نا پڑا۔

خواتین پر تشدد ایک پیچیدہ معاملہ ہے۔ اس کی اقسام اور طریقہ کار کو سمجھنے کے لیے مختلف تجزیہ نگاروں نے مختلف آراء کااظہار کیا ہے۔ ہر معاشرے میں خواتین پر ہونے والے تشدد کی نوعیت منفردہوتی ہے۔ اس پر ثقافتی عوامل بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ تشدد کی تین بنیادی اقسام ہیں:جنسی، ذہنی اور جسمانی۔ دیگر اقسام میں گھریلو تشدد، گھریلو بدسلوکی اور ازدواجی عصمت دری شامل ہیں۔ پاکستان اور دیگر کئی معاشروں میں کاروکاری یعنی غیرت کے نام پر قتل کردینا،شوہر اور سسرال والوں کی جانب سے تشدد، تیزاب پھینک دینا یا گھریلو اختلافات میں عورت کو جلا دینا تشدد کی عام پائی جانے والی اقسام ہیں۔بعض اوقات روز مرہ کا تشدد ایسی عورتوں کو خودکشی جیسے سنگین راستے کو اپننانے پر بھی مجبور کردیتا ہے۔ کاروکاری ملک کے کئی حصوں میں ایک عام روایت ہے جسے اس علاقے کی انتظامیہ اور پنچائتوں کی تائید بھی حاصل ہوتی ہے۔ عورتوں پر تشدد کی کئی وجوہات سامنے آئی ہیں جیسے تعلیم کی کمی اس قسم کے واقعات کی بنیادی وجوہات میں شامل ہے۔ غربت ، سماجی اقدار وروایات، مذہبی انتہا پسندی اور جنسی تعصب چند ایسے عناصر ہیں جو عورتوں پر تشدد کا باعث بنتے ہیں۔ کئی گھرانوں میں بیٹے کی پیدائش کو فوقیت دی جاتی ہے۔ بیٹی کی پیدائش پر عورتوں کو نہ صرف شوہر اور سسرال والوں کے طعنوں اور بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ اکثر انہیں جسمانی تشدد کا نشانہ بھی بنا یا جاتا ہے۔ اسی طرح پسندکی شادی کرنے یا صرف شکوک کی بنیاد پر غیرت کا نام لے کر عورتوں پر تشدد کرنا یا انہیں قتل کردینا بھی ایک عام روایت ہے۔ جائیداد کے تنازعات اور خاندانوں میں لڑائی ختم کرنے کے لیے ایک خاندان کی کم عمر لڑکی کی شادی دوسرے خاندان کے عمر رسیدہ فرد سے کرادی جاتی ہے۔ جائیداد میں حصہ دینے کے ڈر سے لڑکی کی شادی قرآن سے کرادینا بھی ایک ایسا جرم ہے جو کئی قبائلی علاقوں میں جاری ہے اور جس پر حکومت بے بس نظر آتی ہے۔ایک نجی تنظیم کی رپورٹ برائے 2014 کے مطابق دنیا بھر میں پاکستان عورتوں کیلئے تیسرا خطرناک ترین ملک بن گیا ہے۔ یہاں ہر سال ایک ہزار سے زیادہ عورتیں کاروکاری اور 90 فیصد گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔پاکستان میں خواتین پر جنسی حملوں میں لگ بھگ 50 فیصد، تیزاب پھینکنے کے واقعات میں تقریباً 38 فیصد، غیرت کے نام پر قتل میں 27 فیصد اور گھریلو تشدد کے واقعات میں 25 فیصد اضافہ ریکارڈ ہوا ہے۔پاکستان میں گزشتہ 6برس میں 15ہزار خواتین تشدد سے لقمہ اجل بن گئیں۔ایک فلاحی ادارے کی رپورٹ کے مطابق 2015میں دس ہزار سے زائد خواتین کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔کم عمری میں زچگی یا تیزاب پھینکنے کے باعث جاں بحق ہونے والی خواتین کی تعداد میں گزشتہ سال کے مقابلے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔گزشتہ سال 860 کیسزکارو کاری کے ، 481گھریلو تشدد ،90تیزاب سے جلانے کے، 344 زیادتی اور 268کیسز جنسی طور پر ہراساں کرنے کے رپورٹ کیے گئے۔ صنفی عدم مساوات کے انڈیکس میں شامل 140ممالک میں پاکستان کا نمبر 115واں ہے۔یہ المیہ نہ صرف ہمارے ملک تک محدود ہے حتیٰ کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ترقی یافتہ ممالک کی بہت سی خواتین کے ساتھ بھی تقریباً یہی سلوک کیا جاتا ہے۔ یہاں یہ تسلیم کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ عورت پر تشد د نہ صرف ایک ظلم ہے، ایک جرم ہے بلکہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی بھی ہے۔ عالمی سطح پر ایک مشاہدہ کے مطابق تمام دنیا کی 35% خواتین یا لڑکیاں اپنی تمام زندگی میں کسی جسمانی یا جنسی تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔تمام دنیا کی خواتین میں سے250ملین ایسی ہیں جن کی 15 سال سے بھی کم عمرمیں شادی کر دی جاتی ہے۔ کم عمر میں شادی ہونے والی خواتین کی ایک تو تعلیم نامکمل رہ جاتی ہے۔اور دوسرا وہ ذہنی طور پر زیادہ پختہ نہیں ہوتیں جن کی وجہ سے انہیں عملی زندگی میں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس وجہ سے بھی وہ تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔ایک مرد کے عورت پر تشدد کی چند بنیادی وجوہات یہ دیکھنے میں آئی ہیں جن میں مرد کے انفرادی نفسیاتی مسائل، زندگی کا ناقابلِ برداشت دباؤ ، منشیات یا الکوحل کا استعمال ، شکی مزاج ہونا ، عورت کا مناسب کھانا وغیرہ نہ پکانا، اور کم جہیز لانے جیسے عوامل ایک عورت پر تشدد کی وجہ بنتے ہیں۔ خواتین پر تشدد یا انہیں جنسی طور پر ہراساں کیا جانا ان کی صلاحیتوں کو متاثر کرتا ہے ان کی خود اعتمادی کو ٹھیس پہنچاتا ہے اور ان سے بڑھ کر یہ کہ عورتوں میں فیصلہ سازی کے حوصلے کو کم کرتا ہے۔وہ قانون کے ہوتے ہوئے بھی خود کو غیر محفوظ تصور کرنے لگتی ہیں اور اپنے مستقبل بارے میں ایک غیر یقینی صورتِ حال میں جکڑ جاتی ہیں۔ایک طرف تو مرد عورت کو اپنی زندگی کا اہم جزو کہتا ہے لیکن اس کے ساتھ ایک دشمن سے برتر سلوک کرتا ہے۔اب اسلامی رو سے دیکھیں تو عورت کی ذات کو جس قدر عزت مذہب اسلام نے دی ہے دوسرے کسی بھی مذہب نے نہیں۔اسلام نے ہی ایک عورت کے حقوق ایک مرد کے مساوی کئے اور عورت کو یہ مقام عطا کیا کہ اگروہ بیٹی ہے تورحمت،اگر بیوی ہے تو شوہر کے نصف ایمان کی وارث اور اگر ماں ہے تو اس کے قدموں تلے جنت۔لیکن ان تمام رتبوں کے باوجود کہیں اس پر تیزاب پھینکا جا رہا ہے تو کہیں وہ غیرت کے نا م پر قتل ہو رہی ہے تو کہیں اسے سرِعام تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔کہ عورتوں کے مردوں پر ایسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے عورتوں پر اچھے سلوک کے ساتھ۔سورہ البقرہ۔) ایک اور جگہ ارشاد ہے کہ اور اچھے سلوک سے عورتوں کے ساتھ زندگی بسر کرو۔سورہ النساء)۔ مسلم معاشرہ میں عورتوں کے حقوق کے اعتبار سے اسلامی تعلیمات انحراف نظر آرہا ہے۔ عورتوں کے ساتھ ظلم وزیادتی اور اس کے حقوق کی خلاف ورزی زیادہ تر مسلم معاشرہ کا وہ طبقہ کرتا ہے جو علم سے نا بلد ہوتا ہے۔ وہ یہی سمجھتاہے بیوی کی حیثیت ایک نوکرانی جیسی ہے۔ اس سے جیسے چاہو کام لو۔آج بھی ان پڑھ اور جاہل طبقہ عورت کو پاؤں کی جوتی سمجھتا ہے اور اس پر حکم چلانا اپنا اولین فرض سمجھتا ہے یہی وجہ ہے اس سال سولہ روزہ مہم کا موضوع بھی تعلیم سے آگاہی ہے،کیونکہ تعلیم ہو گی تو عورت معاشرے میں عزت و وقار سے زندگی بسر کر سکے گے کیونکہ قوانین بنانے اور سزائیں دینے سے سوا نفرت اور بد امنی کے کچھ حاصل نہیں ہوا ۔لہذا عورت کی تکریم کے لیے تعلیم یافتہ ہی اصل حل ہو سکتا ہے۔
Ishrat Javed
About the Author: Ishrat Javed Read More Articles by Ishrat Javed: 70 Articles with 92581 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.