وہ عمررسیدہ لوگ جنہیں پنشن نہیں ملتی .....وزیر اعظم توجہ فرمائیں

میں جس مسجد میں نماز پڑھتاہوں وہاں آٹھ دس بزرگ کرسیوں پر بیٹھ کر نماز پڑھتے ہیں ۔ہر ایک بزرگ کی داستان الگ ہے۔ ان میں چند ایسے بھی ہیں جنہیں ریٹائر منٹ کے بعد پنشن بھی ملتی ہے ،جو لباس اور گفتگو سے ہی آسودہ حال دکھائی دیتے ہیں لیکن باقی بزرگ علاج کروانے اور ادویات خریدنے سے بھی قاصر ہیں کیونکہ وہ پنشن جیسی سہولت سے محروم ہیں ۔ ایک بزرگ جن کی عمر 70 سال تو ہوگی ۔ان کی کمر کمان کی طرح جھکی ہے، وہ بے چارے اس ضعیف العمری میں بھی میٹریل کی دکان پر اینٹیں اٹھاتے ہیں ۔ ایک دن میں نے ان سے پوچھ ہی لیا کہ آپ اتنی مشکل مزدوری کیوں کرتے ہیں کیا آپ کے بیٹے نہیں ہیں۔ میری بات پر ان کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور وہ کہنے لگے بیوی تو بہت پہلے فوت ہوچکی ہے ، دو بیٹے مریکہ میں جاکر بھول گئے ہیں۔ مجھے روٹی کھانے کے لیے ملازمت کر نی پڑتی ہے اگر نہ کروں تو کیا میں بھیک مانگتا پھروں۔ ایک اور بزرگ جو بیچارے پھٹی پرانی قمیض اورتہبند زیب تن پہنے، زمین پرپاؤں گھسٹتے بمشکل مسجد پہنچتے ہیں ۔انہوں نے ساری عمر پرچون کی دکان پرگزاردی ۔ اب انہیں شوگر، پروسٹیٹ اور کم بینائی کا مرض لاحق ہوچکا ہے ۔ بھلا دکاندار کو کون پنشن دیتا ہے ۔اس لیے وہ گھر میں فالتو شخص بن کر رہ گئے ہیں۔ ادویات کی خرید کے لیے بھی بچوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے پڑتے ہیں۔ایک دن انہوں نے کہا بچوں کو دیتے ہوئے تو خوشی ہوتی ہے مانگتے ہوئے شرم آتی ہے اﷲ اس قدر بے بسی کی زندگی کسی کو نہ دے۔ ایک اور سفید پوش بزرگ،جن کی جوانی ورکشاپ میں گاڑیاں ٹھیک کرتے گزری ۔وہ فالج کے مرض میں مبتلا ہیں ۔ایک دن انہوں نے بتایا کہ ان کے دو بیٹے ہیں۔ بڑا بیٹا جو میرا زیادہ خیال رکھتا تھااسے خود بھی دل کاعاردضہ لاحق ہوگیاہے۔ اب وہ بیچارا اپنا علاج کروائے یا میرا ۔ فالج اور دل کے مریضوں کے علاج پر کتنے پیسے خرچ آتے ہیں یہ آپ خود بہتر جانتے ہیں۔میں نے بتایا حکومت نے غریب مریضوں کے لیے مفت علاج کا اہتمام کررکھا ہے آپ کسی سرکاری ہسپتال کیوں نہیں جاتے ۔ اس نے افسردہ لہجے میں کہا۔ یہ باتیں صرف ٹیلی ویژن اور اخبار تک ہی محدود ہیں۔غریبوں کے لیے تو آجکل مرنا بھی مشکل ہوچکاہے قبر کھودنے والابھی 15 ہزار مانگتاہے اگر نہ دو تو کہتا ہے اپنا مردہ کہیں اور لے جاؤ یہاں خالی جگہ نہیں ہے۔اب تو سفارشوں اور رشوت دے کر ہی قبر کے لیے جگہ ملتی ہے ۔ایک اور صاحب جوکسی بنک سے ریٹائر ہوئے ان کے بنک میں پنشن کا رواج نہیں تھااس لیے بے وسائلی کی آگ میں جلنے والوں میں ان کا نام بھی شامل ہے،مایوسیاں ان کے چہرے پر بھی نظر آتی ہیں۔ایک سرکاری افسر بھی اسی مسجد میں نماز پڑھتا ہے ۔جس کو 50 ہزار پنشن ملتی ہے ۔ محکمہ سوئی گیس اور پی آئی اے کے دو ملازم بھی خوش نصیبوں میں شامل ہے ۔ جنہیں ریٹائرمنٹ پر80 لاکھ روپے نقد اور 55 ہزار روپے پنشن ملتی ہے جبکہتاحیات پرائیویٹ ہسپتالوں میں علاج کی سہولت بھی حاصل ہے۔ یہ تو ایک مسجد میں نماز پڑھنے والے بزرگوں کا افراد کا حال ہے ۔ ہر مسجد میں ایسے کتنے ہی عمر رسیدہ لوگ بخوبی دیکھتے جاسکتے ہیں۔ جواپنے دل میں بے شمار خواہشیں ، آرزوئیں اور تمنائیں لیے اﷲ کے گھر میں آنسو بہاتے ہیں ۔ پنشن کیس کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے مسٹرجسٹس ثاقب نثار نے بہت خوب بات کہی کہ پیدائش سے لے کر وفات تک شہریوں کی معاشی دیکھ بھال کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ حکومت اتنی پنشن ضرور دے جس سے وہ آسانی سے زندگی بسر کرلے ۔عدالت عظمی کے معزز جج کے اس بیان کی روشنی میں کیا حکومت اپنے فرائض سے کماحقہ عہدہ برآ ہورہی ہے ۔ہرگز نہیں ۔صرف پندرہ بیس فیصد وہ بھی سرکاری ملازمین کو پنشن ملتی ہے جبکہ پاکستان کے 80 فیصد بزرگ ہر قسم کے معاشی تحفظ سے محروم ہیں ۔ مسجدوں کے خطیب ، دینی مدرسوں کے اساتذہ ، بھٹہ مزدور ، عمارتیں تعمیر کرنیوالے مستر ی و مزدور ، ورکشاپوں کے مستری اور ہیلپر ، ہوٹلوں پر کام کرنے والے ، پٹرول پمپوں کے ملازمین ، صحافی ، ادیب ، شاعر ، کنٹریکٹ پر کام کرنے والے ملازمین کیایہ پاکستان کے شہری نہیں ہیں کیا ان کو بڑھاپے میں زندگی گزارنے کے لیے پیسوں کی ضرورت نہیں پڑتی۔کیا وہ بیمار نہیں ہوتے ۔یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ بڑھاپا تو ہے ہی بیماریوں کا نام ۔ جونہی انسان پچاس سال عبور کرتا ہے تو بیماریوں کی یلغار ہونے لگتی ہے پھر زندگی کے آخری سانس تک جان نہیں چھوڑتیں ۔سرکاری ملازمین تو حکومت کے داماد ہیں وہ دوران ملازمت بھی کام نہ کرنے کی تنخواہ لیتے ہیں اورکام کرنے کی رشوت ۔ ریٹائرمنٹ کے بعد تاحیات پنشن الگ انہیں ملتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ریاست کی پہلی ذمہ داری ہے کہ ہر شہری کو نہ صرف مفت علاج ،ادویات کی فراہمی ، حج اور عمرے کی سہولت ، فر ی ٹرانسپورٹ ، فری کھانے کی سہولت فراہم کرے بلکہ کم ازکم دس ہزار روپے ماہانہ 60 سال سے زائد ہر شہری کو فراہم کیاجائے ۔یہ ادائیگی بینظیر انکم سپورٹ فنڈ سے کریں یا زکوہ فنڈ سے ۔یہ حکومت کے سوچنے کا کام ہے ۔اگر حکومت یہ کام نہیں کرسکتی تو سب کے ساتھ یکساں سلوک کرتے ہوئے پنشن کی ادائیگی ہی بندکردی جائے تاکہ احساس محرومی کو ختم کیاجاسکے ۔حکومت کی مالی سرپرستی نہ ملنے پرکچھ اولڈ پیپلز ہوم اور کچھ گھر وں میں سسک سسک زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔پھر یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ تجہیزوتکفین کے اخراجات عام آدمی کی اوقات سے بہت بڑھ چکے ہیں۔میت کو ہسپتال سے گھر لانے اور گھر سے قبرستان پہنچانے کے لیے ٹرانسپورٹر اتنا کرایہ مانگتے ہیں کہ پاکستان میں بھی لوگ اپنے مرنے والوں کو کندھوں پر اٹھا کر ہسپتال سے گھر لاتے دیکھے گئے ہیں یاگدھا گاڑیوں کا استعمال بھی کیاجانے لگاہے جو انسانیت کی توہین ہے۔اگر حکومت موت کی صورت میں تجہیز وتکفین اور میت کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے کی ذمہ داری ہر یونین کونسل کے چیرمین یونین کونسل کے سپرد کردے تو بطور خاص غریب لوگوں کا بھلا ہوسکتا ہے جو بیچارے پہلے قبر کی تلاش کے لیے 15 ہزار روپے رشتے دارو ں سے مانگتے پھرتے ہیں پھر تجہیزو تکفین کے اخراجات انہیں نڈھال کیے رکھتے ہیں۔سابق وزیر خزانہ ڈاکٹرمحبو ب الحق کی طرح اگر تمام شہریوں کی زندگی اور موت انشورڈ کروالیا جائے تو کم ازکم بیماری اور موت کی صورت میں ہر خاندان کو ذہنی ٹینشن سے بچایا جاسکتاہے۔گزارا الاؤنس کے طور پر ہر شہری کو کم ازکم دس ہزار روپے کا انتظام حکومت خودکرے
Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 787716 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.