ایک پیر صاحب اپنا دام فریب پھیلانے کے لئے
کسی گاؤں میں ایک دیہاتی کے پاس گئے۔حسب معمول اس نے معصوم دیہاتی کو اپنی
جعلی کرامات اور معجزات کے خوب قصے کہانیاں سنائیں اوردیہاتی سے کہا کہ
دیکھو تم اگر فلاں کھیت مجھے دے دو تو میں اس کے عوض تمہارے لئے ایسا عمل
کروں گا کہ تم روز محشر پُل صراط پرسے بڑی آسانی سے گزر جاؤ گے۔
دیہاتی اس پیر کی باتیں بڑے سکون سےسنتا رہا۔ پھر کہنے لگا ٹھیک ہے۔ٹھیک
ہے۔آئیےمیں آپ کو اپنا کھیت دکھادوں۔اس نے پیر کو ساتھ لیا اور اپنے کھیتوں
کی جانب چل پڑا ۔
زمیندار اپنے کھیتوں کااطراف میں جو حد بندی کرتے ہیں جس پر لوگ چلتے
ہیں۔اس کو پنجابی میں بنّا کہتے ہیں۔جو زمین سے قدرے اونچا اور نا ہموار
بھی ہوتا ہے۔زمیندار اورپیر صاحب ایک بنّے کے اوپر گزرہے تھے۔ بنے کی اطراف
میں چاول کے کھیت تھے۔چاول کی فصل باقی فصلوں کی نسبت پانی بہت زیادہ لیتی
ہے اس لئے چاول کے کھیت قدرے گہرے ہوتے ہیں۔جن میں اکثر پانی کھڑا رہتا
ہے۔زمیندار تو ایسے رستوں پر بلا خوف وخطر چل لیتے ہیں جبکہ شہر ی لوگوں کے
لئے ایسے رستوں پر چلنا قدرے مشکل ہوتا ہے کیونکہ ہر لمحہ ہی پاؤں کے پھسل
کر گرنے کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔
دیہاتی کا تویہ روز مرہ کا معمول تھا،بڑے آرام سے اس رستہ پر سے گزرہاتھا
جبکہ پیر صاحب پھسل کر گرنے کے خوف سےدائیں بائیں جھک رہے تھے۔
پھر ایسے ہوا کہ ایک جگہ پیر صاحب کا قدم پھسلا اور وہ دھڑام سے کھیت میں
گر پڑے۔جس سے ان کے سارے کپڑے کیچڑ سے بھر گئے۔دیہاتی یہ سارا ماجرا دیکھ
رہا تھا۔جب پیر صاحب گر گئے ۔زمیندار نے پیر کو کہا۔دیکھو تم خود تو ایک
بنّا تک عبور کر نہیں سکتے تم نے مجھے کیسے پُل صراط پار کراسکتے ہو۔اس نے
اس جعلی پیر کو دھکے مار مارکر اپنے ہاں سے نکال دیا۔
کیا اس کےبعد پیر صاحب نے اپنا یہ پُر فریب اور مکاری کا دھند اچھوڑ دیا
ہوگا؟
کیا اس کے بعد مصویم لوگ پیر وں فقیروں کے دام سے محفوظ و مامون ہو گئے
ہیں؟
|