اِس نا م ﷺسے ہے باقی آرامِ جاں ہمارا
(Ikram Ul Haq Chohdury, )
اللہ تبارک وتعالیٰ نے،جو ربّ العالمین
ہے،انسانوں کی رہنمائی اور اصلاح کے لیے مختلف ادوار میں قوموں کی طرف
پیغمبر بھیجے۔تاریخ نے ایسے متعدد پیغمبروں کی حیاتِ طیبات ہمارے سامنے پیش
کی ہیں،جن کی زندگیاں ہمارے لیے بہترین قابل عمل مثالیں ہیں۔جن میں حضرت
عیسیٰ علیہ السلام،حضرت موسیٰ علیہ السلام،حضرت ابراہیم علیہ السلام قابل
ذکر ہیں جن کے پیروکار اس وقت دنیا میں مسلمانوں کے علاوہ کثرت سے موجود
ہیں۔پیغمبران عظام تو اللہ تبارک وتعالیٰ کے وہ برگزیدہ بندے تھے جنہیں شرفِ
نبوت سے نوازا گیا اور انھیں دنیا میں انسانوں کی اصلاح ورہنمائی کے لیے
مبعوث فرمایا گیا،لیکن تاریخ میں ہمیں ان کے علاوہ بھی ایسے لاتعداد
بادشاہوں،دانشوروں،ولیوں اور دوسرے ممتاز راہنماؤں کا تذکرہ ملتا ہے جن کی
زندگیاں بھی لوگوں کے لیے زندگی کے بعض شعبوں میں باعث نمونہ ہوسکتی ہیں۔
مگر اب قیامت تک بنی نوع انسان کے لیے زندگی کے تمام شعبوں نبی کریم حضرت
محمد مصطفی ﷺپرختم نبوت کے باعث صرف اورصرف آپ ﷺ ہی کی زندگی کو بہترین
نمونہ کہا گیا۔جیسا کہ ارشاد ربّانی ہے ”لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ
اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ“ بے شک تمہارے لیے اللہ تعالیٰ کے رسول کی زندگی
میں اُسوۂ حَسَنَہ ہے۔ اُسوۂ کا معنی ہے نمونہ،جسے مثال بھی کہا جاسکتا
ہے۔اور حَسَنَہ کا معنی ہے ”ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس
کو کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لیے مسرت کا سبب بنے حَسَنَہ کہلاتی
ہے۔“(امام راغب اصفہانی)اس طرح اس حقیقت کو واضح کیا کہ نبی کریم ﷺکا عمل
عام نوعیت کا نمونہ نہیں،بلکہ ایسا نمونہ ہے،جس میں حسن ِ ظاہری بھی ہے اور
باطنی بھی،جس کی رعنائیوں اور زیبائیوں کے سامنے دلوں کے قفل ٹوٹ کر گرتے
چلے جاتے ہیں۔سیرت مصطفیٰ ﷺ میں حسن اپنی تمام ترجلوہ سامانیوں اور
رعنائیوں کے ساتھ سمٹ کر آگیا ہے۔اس پر قربان ہونے والوں کا مجمع بڑھتا چلا
جارہا ہے کیونکہ جو اس کوچہ میں آتا ہے اس کے دل کی دنیا بدل جاتی ہے اور
وہ عشق ومستی کی ایسی کیفیت سے آشنا ہو جاتا ہے جو اس کے سیرت وکردار کو
اعلیٰ وارفع مرتبہ پر پہنچانے کا سبب بن جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ بارگاہِ
مصطفیٰ ﷺسے فیض یاب ہو نیوالوں میں عربی بھی ملتے ہیں اور عجمی بھی،کریم
بھی شجاع بھی،ضعیف بھی قوی بھی،دولت مند بھی اور فقیرو نادار بھی،جس کسی
میں حسن ِ مصطفی کے کسی پہلو کے لیے کشش ہوتی ہے،وہ یہاں آکر سرتسلیمِ خم
کر لیتا ہے۔اسی لیے حضور ﷺ کے چشمہ فیض سے سیراب ہونے والے اوّلیں افراد
یعنی صحابہ کرامؓ میں نبوت کا رنگ جھلکتا ہوا صاف نظر آتا ہے۔ اور آپ ﷺکا
فیض دنیا میں پھیلتا ہی چلاجارہاہے۔
اسی با ت کو مولانا مناظر احسن گیلانی ؒاپنے انداز میں لکھتے ہیں:
یوں آنے کو تو سب ہی آئے،سب میں آئے،سب جگہ آئے(سلام ان پر)کہ بڑی کٹھن
گھڑیوں میں,, آئے،لیکن کیا کیجئے ان میں جو بھی آیا جانے کے لیے آیا۔
پر ایک اور صرف ایک،جوآیا اور آنے ہی کے لیے آیا،وہی جو آنے کے بعد پھر
کبھی نہیں ڈوبا،چمکا اور چمکتا ہی چلا جارہا ہے۔بڑھا اور بڑھتا ہی چلاجارہا
ہے،چڑھا اور چڑھتا ہی چلاجارہا ہے۔سب جانتے ہیں اور سبھوں کو جاننا چاہیے
کہ جنہیں کتاب دی گئی اور نبوت کے ساتھ کھڑے کئے گئے،برگزیدوں کے اس گروہ
میں اس کا استحقا ق صرف اسی کو ہے اور اس کے سوا کس کو ہو سکتا ہے جوپچھلوں
میں بھی اس طرح ہے جس طرح پہلوں میں تھا۔دور والے بھی اس کو ٹھیک اسی طرح
پا رہے ہیں اور پاتے رہیں گے جس طرح نزدیک والوں نے پایا تھا،جوآج بھی اسی
طرح پہچانا جاتا ہے اور ہمیشہ پہچانا جائے گا،جس طرح کل پہچانا گیا تھا کہ
اسی کے اور صرف اسی کے دن کے لیے .,,رات نہیں،ایک اسی کا چراغ ہے،جس کی
روشنی بے داغ ہے -
سیدالمرسلین خاتم النبیین رحمۃللعالمین محمد ِمصطفی ﷺاس کائنات میں خدا کی
وہ برگزیدہ ہستی ہے جس کا پیغام ِتوحید ِ من و َعن آج بھی محفوظ ہے اور جس
کے ماننے والے ڈیڑھ ارب انسانوں کے دلوں میں اس ہستی کا ادب واحترام بھی
ایسے ہی موجزن اور ٹھاٹھیں مار رہا ہے جیسے اس کے اوّلیں شاگردیعنی صحابہ
کرام ؓ میں موجود تھا۔آج بھی ڈیڑھ ارب انسان دن رات میں کئی بار ان کی ذاتِ
گرامی پر درود بھیجنا اپنی زندگی کا مقصد اور ان کی محبت وعظمت،عقیدت
وجانثاری کو اپنے لیے سرمایہ آخرت سمجھتے ہیں۔ ؎
سالار ِ کارواں ہے میر ِ حجاز اپنا
اس نام سے ہے باقی آرام ِ جاں ہمارا
قرآن مجید اور ناموس رسالت ہی مسلمانوں کا وہ سرمایئہ حیات ہے جو کفر کی
آنکھوں میں کھٹکتا ہوا کانٹا اور گلے میں پھندا لگانے والی ہڈی بنی ہوئی
ہے۔جب وہ محمد ﷺ کی محبت کو مسلمانوں کے دلوں میں پھلتے پھولتے اور قرآن کی
تعلیم کو پوری دنیا میں پھیلتے دیکھتے ہیں تو ان کے اندر کا شیطان انہیں
اوچھے ہتھکنڈے اختیار کرنے اور گری ہوئی حرکتیں کرنے پر اُکساتا ہے،پھر اگر
انہیں ٹیری جونز جیسے ملعون سرپرست بھی اور سام باسیلی جیسے زبان دراز اور
سیاہ دل بھی مل جائیں تو پھر وہ قرآن مجید اور ناموس رسالت کے خلاف زہر
اُگلنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔
محمد ﷺ کا نامِ نامی اور ذات ِ گرامی آج بھی حق و باطل کے درمیان واضح فرق
کرنے والی ہے۔یہی نام۔۔۔ محمد ﷺ۔۔۔کہ جس سے ایک فریق حد سے بڑھ کر خار
کھاتا ہے تو دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ پاکیزگی پسندوں اور حق پرستوں کے
کلیجے پر ٹھنڈ ڈالنے والا اس سے بڑھ کر کوئی انسانی نا م نہیں۔۔۔!! یہی نام
ہے۔۔۔محمد ﷺ۔۔۔جو ایک فریق کے لیے شدید تکلیف کا باعث ہے تو دوسری طرف ایک
فریق کے لیے اس نام سے بڑھ کر کوئی راحت ِ جان نہیں۔۔۔کوئی اس نام میں آج
بھی اپنے لیے موت کا پیغام پڑھ رہا ہے اور کوئی اپنے حق میں اسے آب ِ حیات
سے بھی بڑھ کر دیکھتا ہے۔
مگر کیا۔۔۔؟ ہمارا عشق رسول ﷺ ان بد بختوں کی ہر طرح سے مذمت واحتجاج،اور
اس کے نتیجے میں شاتمین کو کیفر کردار تک پہچانے کے بعد پورا ہو جائے گا۔؟
نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ ہرگز نہیں۔ ؎
چشم ِ نم، جان ِ شوریدہ کافی نہیں
تہمت ِ عشق پوشیدہ کافی نہیں
آج بازار میں پا بجولاں چلو
آپ ﷺ کی غلامی کا طوق زندگی کے ہر شعبہ میں اپنے گلے میں ڈال کر سرِبازار
نکلنا پڑے گا۔اور اس وقت تک کوئی مسلمان کامل نہیں ہو سکتاجب تک وہ اپنے
رہبرورہنما پیغمبر ﷺ کے ا ُسوۂ حَسَنَہ کی پیروی زندگی کے ہر شعبے میں نہ
کرے۔اس مقصد کے لیے ہمیں قرآن کریم کا بغور مطالعہ کرنا ہوگا کیونکہ قرآن
کریم کی آیا ت و کلمات کا زندہ نمونہ ذات ِ رسول ﷺمیں موجود ہے۔قرآن کریم
میں ہم جو کچھ پڑھتے ہیں وہ ہمیں ہو بہو نبی کریم ﷺکی عملی زندگی سے ملتا
ہے۔ اوراِسی لیے کہتے ہیں کہ قرآن مجید خود اُسوۂ حَسَنَہ کے تذکار جمیل سے
لبریز ہے۔یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ اگر قلم وقرطاس سے سیرت نگاری کا
کوئی نمونہ بھی موجود نہ ہوتا تو تنہا قرآن مجید میں آپ ﷺ کی سیرت وسوانح
کا تمام تر لوازمہ موجود ہے۔
آج بھی اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ اسلام کی دعوت کو پذیرائی نصیب ہو اور
پیغامِ حق دلوں کی دنیا میں ہل چل پیدا کر دے،تو اس کی صرف یہی ایک صورت ہے
کہ قرآن کی تعلیمات کے حسین خدوخال کو سیرت مصطفی ﷺ کے شفاف آئینہ میں
لوگوں کو دکھایا جائے۔بالخصوص مسلمانوں کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ نبی کریم ﷺ
کی حیات طیبہ کا مطالعہ ضرور کریں،اور کفار کو اس کی دعوت دیں۔شاید اس کی
برکت سے زندگی کے بند دریچے روشنی اور نور سے مزیّن ہوسکیں،اور ہمیں بھی
اپنے دور میں اسلام کی عظمتِ رفتہ کو دیکھنا نصیب ہو۔آمین یا رب العالمین ۔
؎
قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں ا سم محمد ﷺ سے اُجالا کر دے |
|