حکمت آمیز باتیں-حصہ چہارم

اچھی بات دل سے نکل کر دل پر اثرکرتی ہے۔
میں نے اپنے بچپن سے اپنی والدہ سے ایک بات سنی ہوئی ہے کہ بہن کسی کی بھی ہو،تم اُ سے اپنی بہن سمجھ کر اسکو مقدس سمجھا کرو،اور کبھی ایسا کچھ مت کرو کہ تمہاری بہن کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے۔افسوس ناک بات یہ ہے کہ جوں جوں وقت گذرتا جا رہا ہے اخلاقی قدریں گرتی جا رہی ہیں اورلوگوں میں اچھی و بری کی تمیز کی صلاحیت ختم ہو چکی ہے۔وہ یوں دوسروں کی بہنوں کی عزت کو اچھالتے ہیں یا اچھالنے کی کوشش کرتے ہیں کہ انسان کا سر شرم سے جھک جاتا ہے اور بدترین پہلو یہ ہے کہ اکثر لوگ تفریح کی خاطر ہی کسی کی عزت یا زندگی کو برباد کرتے ہیں یا پھر محض محبت کے نام پر انکو ایسی بدنامی کا کلنک کا ٹیکہ لگاتے ہیں کہ روح پر انکی تاحیات اثر باقی رہتا ہے۔

مجھے اکثر زندگی میں ایسے حالات سے گذرنا پڑا ہے جب کسی پڑھے لکھے اور ان پڑھ جاہل شخص کو سمجھانے کا موقع ملا ہے اور میں نے مشاہدہ کیا ہے کہ رسمی تعلیم کے بنا شعور حاصل کرنے والے شخص اور ڈگری یافتہ یا تعلیم یافتہ شخص کے مقابلے میں اسکی سوچ کا دائرہ قدرے وسیع ہے، ہم پڑھے لکھے اکثر مسئلے کے حل کو چھوڑ کر دوسری فروعی باتوں میں پھنس جاتے ہیں اور مسئلہ بھول جاتے ہیں تب جب پھر سر پر ڈنڈا لگتا ہے تو ہوش آتا ہے کہ ہم نے کیا کر دیا ہے،جب تک ہم لوگ مسئلےکو حل کرنے کی بجائے لوگوں کو ہی زندگیوں سے نکلتے رہیں گے اس وقت تک ہمارے نہ تو مسائل ختم ہوں گے اور نہ ہم پرسکون زندگی گذار سکیں گے۔

جو لوگ حالات حاضرہ پر نظر رکھتے ہیں وہ بخوبی جانتے ہونگے کہ ہمارے ملک کو بھی آج کل بلکہ کافی سالوں سے یونہی چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے جس کی وجہ سے ہمارے بیشتر مسائل و حالات جوں کے توں برقرار ہیں اس لئے بہتری کے لئے افہام و تفہیم کے ساتھ کام لینے کی ضرورت ہے جب تک ایسا نہیں ہوگا حالات کسی طور بدلنے والے نہیں ہیں۔

اس فانی دنیا میں حضرت انسان اپنے آپ کو پتا نہیں کیوں تیس مار خان سمجھتا ہے؟ خود چاہے سو غلطیاں کر لے کوئی بات نہیں بے مگر کوئی اور سے سرزد ہو جائے تو اسکی زندگی کو عذاب بنانے کا سوچا جاتا ہے؟ یہاں خود آنسو آ جائیں تو دنیا کو سر پر اُٹھا لیتے ہیں مگر جب انہی کی وجہ سے کوئی مسلمسل روتا رہے تو انکے کانوں پرجوں تک نہیں رینگتی ہے اور بدقسمتی سے ایسے بے حس لوگ آج کل محبت کے نام پر دوسروں کے احساسات و جذبات سے کھیلتے ہیں اور پھر بھی سوچتے ہیں کہ دوسرے مرتے ہیں تو مر جائیں ہمیں کیا؟ ایسے خود غرض ،مفاد پرست لوگوں کا حشر جب ہمارے سامنے آتا ہے یا پس پردہ وہ بھگتے ہیں تو بھی انکو بہت کم احساس ہوتا ہے کہ یہ انکے اپنے نامہ اعمال کی بدولت ہو رہا ہے۔

خوشی فہمی کبھی کبھی کی اچھی ہوتی ہے ہم میں سے اکثر لوگ کسی کے ساتھ برا سلوک کر کے،یا اس کے ساتھ کسی بھی طرح کی زیادتی میں حصہ دار بن کر یہ سوچتے ہیں کہ بھئی اس کے ساتھ جو ہوا،اب ماضی کا قصہ ہوا اسے بھول کر ہم اب اپنے حال میں رہتے ہیں کہ ہمیں کیا اس کے ساتھ جو بھی ہوا ہو،اور مستقبل کس نے دیکھا ہے تو اسکی فکر میں کیوں اپنے آپ کو عذاب میں ابھی سے ڈال لیں۔تو جناب حضرت عقل مند صاحب! ایک نہ ایک دن جب آپ کو اس بات کا احساس ہونا ہی ہے کہ آپ نے کسی کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا تو پھر آپ کو ضمیر جاگ گیا تو کبھی سکون کی نیند نہیں سونے دے گا کہ اللہ بھی جب تک بندہ معاف نہ کرے گا تو معاف نہیں کرے گا تو یہ سوچنا کہ بندہ بن معافی کے معاف کرے گا تو یہ اس کا ظرف ہوگا؟ کیا آپ اپنے عمل کے کسی کو جواب دہ نہیں ہیں، کیا ماضی کو بھول کر،گلے شکوے دور کر کے ایک ہو کر خوش گوار زندگی بسر کرنا گناہ کیبرہ ہے؟ جو آپ اپنے حال میں اچھا برا کر کے خوش رہنے کی خوش فہمی میں مبتلا ہو رہے ہیں؟

ہم اپنے آپ کو جتنا مرضی اچھا ثابت کریں،کہیں کہ ہم اچھے ہیں مگر جب کہیں کچھ ہوتا دیکھتے ہیں تو ہم اگر کچھ کر بھی سکتے ہیں تو بھی صرف نظر کرتے ہوئے آگے بڑھ جاتے ہیں کہ بھئی ہمارے بغیر بھی کام چل سکتا ہے یا مجھے کیا ضرورت ہے پرائی آگ میں کودنے کی،ہم بس تماشہ دیکھنے والوں میں شامل ہو جاتے ہیں اگر کہیں آگ لگی ہوئی تو ہم دیکھتے ہیں کہ کب تک آگ بجھتی ہے،بہت سے معاملات میں نہ سہی کچھ معاملات میں ہم اگر اپنا کردار ادا کریں تو معاشرے میں امن و سکون پیدا ہو سکتا ہے،لیکن جناب ہم تو لگائی بجھائی کر سکتے ہیں ہم آگ بجھانا اپنی توہین سمجھتے ہیں اور یہی ہمارے معاشرے کی بڑی بے حسی ہے جس کا مظاہرہ آج کل دیکھنے کو مل رہا ہے۔

اسلام نے حق دار کو اس کا حق ادا کرنے کا حکم دیا ہے مگر ہم بس محض نام کے مسلمان ہیں اور مذہب کو دکانداری چمکانے کے طور پر تو استعمال کرسکتے ہیں مگر بہت کم اس پر عمل حقیقی معنوں میں کرتے ہیں کہ کرنا شروع کر دیں تو ہمارا مفادات پھر کہاں جائیں گے؟

جب کوئی آپ کے بارے میں کچھ بھی برا نہیں سن سکتا ہے اور دوسروں کو بھی ایسا کرنے سے منع کرتا ہے یا آپ کی حمایت میں بولتا ہے تو ایسے شخص کی آپ کو قدر کرنی چاہیے کہ وہی آپ کا سچا جانثار دوست ہے

ضمیر جاگ جائے تو انسان نفسیاتی مریض سا بن کر رہ جاتا ہے کہ پھر اسے اپنی تمام تر کوتاہیاں،غلطیاں اور دوسرے کے دلی جذبات کا احساس ہو جاتا ہے اور پھر وہ نفسیاتی ماہر کے پاس جاتا ہے ۔افسوس ناک عمل یہ ہے کہ اگر وہ اپنے ایسے مسائل کا جن کی وجہ سے وہ نفیسانی مرض کا شکار ہوتا ہے خود اپنا علاج ان باتوں کے ازالے سے کر لے جو اسکی بیماری کا سبب ہے تو اسکا اس سے وقت اور پیسہ دونوں بچ سکتے ہیں مگر جناب ایسے لوگوں کو سمجھائے کون؟ بلی کی گردن میں گھنٹی کون باندھے گا؟

کسی بھی رشتے کو تا دیر قائم رکھنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ آپ غلط فہمیوں کو دل میں پالنے کی بجائے فورا ہی ختم کرنے کی کوشش کریں ورگرنہ ایک دن وہ رائی کاپہاڑ بن جاتی ہیں اور اس کے بعد رشتے کو قائم رکھنے میں بہت سی رکاوٹیں حائل ہو جاتی ہیں۔

کبھی ہمارے دوست ہی ہمارے بڑے خیر خواہ بننے کی کوشش میں ہمارے ہی آستین کے سانپ بن جاتے ہیں۔


ہم لوگ پتا نہیں کس مٹی کے بنے ہوئے کبھی دماغ سے سوچنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے ہیں کہ ہم لوگ آخر کر کیا رہے ہیں؟ اسلام کے نام لیوا ہو کر بھی اپنے اعمال ایسے کرتے ہیں کہ کوئی کافر بھی کیا کرتا ہوگا؟ ابھی یہی دیکھیں لیں کہ ہم جب الیکشن کا وقت آنے والا ہوتا ہے تو فیس بک پر کور پکچر یا پروفائل ڈسپلے پکچر اسی حوالے سے لگاتے ہیں،جب عید کا دن ہو تو اسی حوالے سے بہترین تصویریں لگائی جاتی ہیں؟ نئے سال کا موقعہ ہو،کرسمس ہو،دیوالی ہو یا پھر ١٤ اگست کا دن ہم بہت عمدہ طریقے سے تصویر لگاتے ہیں مگر کس قدر افسوس ناک عمل ہے کہ جب محرم کا مہینہ آتا ہے تو ہم نہ اپنی سوچ نہ اپنے اعمال کو بدلنے کی فکر کرتے ہیں؟
شاید ہماری یہ سوچ ہوتی ہے کہ ایسا کر کے ہم شیعہ ہو جائیں گے ؟ کیا غم حسین علیہ السلام پر رونا محض شیعہ لوگوں کے ہی ذمہ ہے ؟ کیا ہم اپنے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے کے لئے جن کے لئے تقریبا ہر فقہ میں بے شمار احادیث کتب میں درج ہیں کیا محض اپنے بنی کی خوشنودی کے لئے غم بھی نہیں منا سکتے ہیں؟ مگر دین کے ٹھیکداروں نے اہمیت حسین علیہ السلام کو کم کرنے کے لئے محرم کے پہلے دس دنوں کو بھی اہل بیت کے لئے مختص نہیں کیا ہے؟ ایسا کر کے مجھے بتائیے ہم کس طرح سے قیامت کے دن اپنی شفاعت کے لئے اپنے بنی کے سامنے جا پائیں گے؟ کیا ہم اپنے رسول سے محبت کا دعوی انکے نواسہ کا غم نہ منا کر پورا کر سکتے ہیں؟
مجھے یہ سب محسوس کر کے بہت دکھ ہو رہا ہے پتا نہیں ہم بے ضمیر ہو کر کیوں زندہ ہیں؟؟؟؟

جب آپ کا نام کسی کے ساتھ جڑ جاتا ہے اور لوگ آپ کو جاننے لگ جاتے ہیں تو پھر اس نام سے جدا ہو کر آپ کا تاحیات جینا محال ہو جاتا ہے کہ لوگ عمر بھر آپکو اس نام کے حوالے سے طعنے دیتے رہتے ہیں تو بہتر یہی ہوتا ہے کہ جب آپ نے اپنی من مانی اور مرضی سے کوئی نام اپنے نام سے جوڑ ہی لیا تو پھر کچھ بھی ہو اس سے جدا ہو کر جینے کا مت سوچیں وگرنہ دنیا کے لوگ آپ کو چین سے جینے نہیں دیں گے۔

بہت سے لوگ مسجد میں نماز پڑھنے سے کتراتے ہیں کہ انکو نماز ادا کرنا نہیں آتی ہے یا خیالات بہت تنگ کرتے ہیں؟ وہ اسی وجہ سے نماز کی ادائیگی سے رک جاتے ہیں؟ حالانکہ اگر وہ جیسے کیسے بھی نماز اللہ کے سامنے ادا کریں،اللہ انکی نیت کوجانتا ہے وہ ایک دن بہترین طور پرنماز کی ادائیگی کے قابل ہو جاتے ہیں یا ہو سکتے ہیں مگر شیطان کے بہکاوئے میں آکر وہ اس سے بھی رہ جاتے ہیں؟ حالانکہ یہی سچے مومن ہونے کی نشانی ہے؟

 
Zulfiqar Ali Bukhari
About the Author: Zulfiqar Ali Bukhari Read More Articles by Zulfiqar Ali Bukhari: 392 Articles with 478927 views I'm an original, creative Thinker, Teacher, Writer, Motivator and Human Rights Activist.

I’m only a student of knowledge, NOT a scholar. And I do N
.. View More