بصارت سے محروم بصیرت مند افراد ایک معاشرے
میں اتنی ہی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں جتنا کے عام افراد۔اس مشکل دور میں
جہاں عام آدمی کے لیے گزارہ کرنا مشکل ہے وہاں یہ لوگ بھی ہمت اور حوصلے سے
مشکلات کا ڈٹ کر سامنا کر رہے ہیں۔ واصف علی واصف نے کہا تھا کہ بڑی منزلوں
کے مسافر اپنا دل چھوٹا نہیں کرتے۔ یہ قول بصارت سے محروم بصیرت مند افراد
کے لیے حوصلہ افزا ء ہے جو اپنی جسمانی کمزوری کو معذوری نہیں بننے دیتے
اور معاشرے کے صحت مند افراد کے مقابلے میں اپنی صلاحتیوں کے جوہر دکھاتے
ہیں۔
بقول شاعر
بھلے لگتے ہیں طوفانوں سے لڑتے بادباں مجھ کو
ہواؤں کے رخ پہ چلتی کشتیاں اچھی نہیں لگتی
بصارت سے محروم یہ بصیرت مند افراد معاشرے کے اندر اپنا تعمیری کردار ادا
کر کے سب کو حیرت میں ڈال دیتے ہیں اور اتنی مہارت سے اپنے فرائض سر انجام
دیتے ہیں جو کہ دوسرے صحت مند افراد کے لیے رول ماڈل ہے۔ یہ بصیرت مند
افراد معاشرے کے اندر ہر طرح کا کردار ادا کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں جو یہ
ظاہر کرتا ہے کہ حوصلے جن کے پختہ ہوں اور عزم جن کا جواں ہو وہ طلاطم خیز
موجوں سے گھبراتے نہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو زندگی کی انگلی پکڑ کر اسے چلنا
سکھاتے ہیں۔ یہ وہ روشن مینار ہیں جو مکمل نظر آنے والے انسانوں کو ہمت اور
حوصلہ دیتے ہیں۔
پچھلے دنوں میری ملاقات ایسے ہی بصارت مند افراد سے ہوئی جن سے مل کر میں
ان کی ہمت اور حوصلے کی داد دیے بغیر نہ رہ سکا ۔۔ان میں میری پہلی ملاقات
ڈاکٹر تیمور حسن تیمورسے ہوئی جو سائنس کالج وحدت روڈ لاہور میں اردو زبان
و ادب کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ بچپن سے ہی بصارت موجود نہ تھی مگر
ڈاکٹرتیمور نے بصارت کا علاج بصیرت سے کرنے کا سوچا۔آنکھوں نے ساتھ نہ دیا
مگر انہوں نے اپنے دل و دماغ کو روشن کردیا۔سخت ترین مشکلات کے باوجود
ڈاکٹرتیمور حسن نے میٹرک، انٹرمیڈیٹ، بی اے اور پھر ایم اے کے امتحانات
امتیازی نمبروں سے پاس کیے اور پھر عزم و ہمت کے ساتھ 2012 میں پنجاب
یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی حاصل کی۔ انہوں نے اپنی پہلی کتاب " غلط
فہمی میں مت رہنا " اور دوسری کتاب " تیرا کیا بنا " میں بھی اپنی قابلیت
کے جوہر دکھائے۔ اس وقت وہ اردو ادب کے جدید شعراء میں ایک سند کی حیثیت
اختیار کرچکے ہیں۔لوگ اْن کے انداز سخن کی وجہ سے ہر محفل میں اْن کے
گرویدہ نظر آتے ہیں۔ ان کا یہ شعر مجھے بہت اچھا لگا جو ان کی بصیرت کا منہ
بولتا ثبوت ہے۔
حاکمِ وقت نے سچ کی مجھے قیمت دی ہے
انگلیاں کاٹ کے لکھنے کی اجازت دی ہے
میرے اسلاف نے روٹی کے مسائل دے کر
میرے کاندھوں کو زمانے کی امامت دی ہے
اپنے اللہ کی تقسیم پہ خوش ہوں کہ مجھے
دی بصیرت مرے دشمن کو بصارت دی ہے
میری دوسری ملاقات عزم وہمت کی مثال محمد سلمان صد یقی سے ہوئی جوجو اپنی
تعلیم مکمل کرنے کے بعد صحافتی میدان میں اپنے قدم جمانے کی کو شش کر رہے
ہیں۔ یہ لمحہ کسی انسان کی زندگی کا سب سے مشکل لمحہ ہو سکتا ہے۔ سلمان
پیدائشی طور پر نابینا ہیں۔سلمان نے ابتدائی تعلیم ایک نابینا بچوں کے سکول
سے حاصل کی جو ان چند اداروں میں سے ہے جو نابینا بچوں کو کمپیوٹر اور حساب
جیسے مضامین کی تعلیم دیتا ہے اور ساتھ ساتھ اپنی والدہ کی مدد سے قرآن
مجید بھی حفظ کرنا شروع کر دیا۔میٹرک سے فارغ ہونے کے بعد سلمان صدیقی نے
گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں داخلہ لیا اور وہاں سے ایف اے کا امتحان
پاس کیا۔ واضح رہے کہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی وہ پہلی یونیورسٹی ہے جس نے
نابینا بچوں کے لیے ایک باقائدہ لیب قائم کی جس مین وہ آسانی سے اپنی
پڑھائی اور ریسرچ کر سکتے ہیں۔چونکہ سلمان کو میڈیا میں جانے کا بہت شوق
تھا اس لیے انہوں نے بی اے ماس کمیونیکیشن میں کرنے کا ارادہ کیا۔ چونکہ
گورنمنٹ کا لج یونیورسٹی میں یہ مضمون میجر کے طور پر نہیں پڑھایا جاتا تھا
اس لیے انہوں نے ورچول یونیورسٹی کا انتخاب کیا۔بی اے کے بعد سلمان نے اپنے
شوق کو مدنظر رکھتے ہوئے پنجاب یونیورسٹی میں ایم ایس سی ماس کمیو نیکیشن
میں داخلہ لیااور امتیازی نمبروں سے یہ امتحان پاس کیا ۔ پنجاب یونیورسٹی
میں دوران تعلیم وہ پی یو ایف ایم 104.6 سے بھی منسلک رہے۔
یہ لوگ ہم جیسے نہیں بلکہ ہم سے بہت بہتر ہیں جو اپنی ظاہری کمزوری کے
باوجود اندر سے بہت مضبوط ہیں۔ زندگی ان کا سہارہ نہیں بلکہ وہ زندگی کا
سہاراہیں۔ میرا یہ مثالیں پیش کرنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ نابینا افراد
بھی کسی معاشرے کا بالکل باقی عام انسانوں کی طرح ایک حصہ ہیں۔ وہ بھی عام
نارمل انسان کی طرح معاشرے کی فلاح و ترقی کے لیے کام کرسکتے ہیں۔ ضرورت
صرف اس امر کی ہے کہ معاشرہ عموماًاور حکومت خصوصاً اْنہیں اْن کا جائز
مقام دے اور اْن کے کام میں آسانی کے لیے ہر وہ قدم اٹھایا جائے جس سے
معاشرے کی تعمیر و ترقی ممکن ہوسکے ۔یہ بھی ضروری ہے کہ نیشنل پالیسی فار
اسپیشل پرسن کا اعلان کیا جائے اور ڈس ایبل پروٹیکشن ایکٹ پاس کیا جائے
تاکہ لاکھوں لوگوں کو قانونی تحفظ حاصل ہوسکے جبکہ میڈیا اپنی قومی ذمہ
داری کو محسوس کرتے ہوئے نہ صرف نابینا لوگوں کے مسائل اْجاگر کرے بلکہ ان
کی کارکردگی بھی سامنے لائے۔
|