انسانی حقوق کے عالمی دن کے حوالے سے لاہور ہائی کورٹ بار کی انسانی حقوق کی کمیٹی کے
(Mian Muhammad Ashraf Asmi, Lahore)
یوں تو وکلا کا پروفیشن ہی ایسا ہے
کہ ان کو معاشی معاشرتی عمرانی ،نفسیاتی قانونی و دیگر زندگی کے شعبہ جات
کے متعلق بھرپور آگہی واداک ہوتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے ۔قانون کے
شعبہ سے منسلک افراد کس طرح اپنے وجود سے معاشرے کو فا ئدہ پہنچا سکتے ہیں
موجودہ حالات میں مادیت نے ہر رشتے سے تعلق کو گہنا کر رکھ دیا ۔ہر لمحہ ہر
ساعت معاشی ضرورتوں کا رونا رونے نے معاشرے سے امن سکون چھین لیا ہے ۔صبح
صادق سے لے کر رات گئے تک معاشی مجبوریوں کو اپنے حواس پر سوار کرکے اپنے
آپ کو ہر لمحے ما یوس اور دکھ کا شکا ر کررکھا ہے دکھی اور مایوس انسانیت
نے اپنے لئے خود سا ختہ اتنے دُکھ پال رکھے ہیں کہ دو وقت کی روٹی کو ترسنے
والے کوتو خالق پر بھروسہ ہے لیکن جن کو روٹی میسر ہے وہ دوسروں سے نوالے
چھین کر اپنے پیٹ کی دوزخ کی آگ کو بجھانے کی لا حاصل سعی میں مصروف ہیں -
راقم کے خیا ل میں انسانی حقوق کے تنظیموں کو سب سے پہلے تو یہ امر پیش نظر
رکھنا چاہیے کہ انسانی حقوق کے لئے کا م کرنے والے کا رکنا ن خود کو ہو س
دُنیا وی لالچ سے دور رکھیں ۔جب تک اُن کے اپنے دلوں میں خوف خداہوگااور
دُنیا وی آسائشات کی اہمیت نہ ہو گی تب ہی وہ معاشرے کو کچھ دے سکتے ہیں۔ا
پاکستان میں انسانی حقوق کے حوالے سے کا م کرنے کے جنا ب انصاربرنی بہت بڑا
نام ہے جوکہ پوری دُنیا میں اِس شعبے میں اپنی مثال آپ ہیں دیگر کئی لوگ
اور تنظمیں بھی کا م کررہی ہیں لیکن اکثرکا کا م صرف میڈیا تک اپنی نمائش
تک محدود ہے یا پھر جن لوگوں سے یا جن ملکوں سے یہ افراد فنڈز لیتے ہے اِن
کے مِفادات کا تحفظ کرنا ہے۔دُنیا آج تک ایسی مثال دینے سے قاصر ہے کہ نبی
پاک ﷺ سے بڑھ کر انسانی حقوق کا علمبرادر اور کوئی نہیں ۔بنی پاک ﷺ نے حقوق
خواتین اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے جو مثالیں قائم کیں وہ پوری انسانیت کا
سرفخر سے بلند کیے ہوئے ہیں انسانی حقوق تو بہت بڑی بات ہے ،نبی پاک ﷺ نے
تو جانوروں کے تحفظ کے حوالے سے بھی ہما ری رہنمائی کے لئے بہت کچھ کیا
ہے۔موجودہ ادوار میں امریکہ یورپ برطانیہ میں انسانی حقوق کی تنظیمیں بہت
فعال ہیں ۔لیکن اُن کا دائرہ کا ر صرف اپنے ملکوں تک محدود ہے یہ ممالک
تومعاشی سماجی حوالے سے پہلے ہی بہت ترقی یا فتہ ہیں وہا ں تو اِن تنظیموں
کا کام بہت آسان اور یہ تنظیمیں مسلسل آگا ہی مہم کے ذریعے انسانی شعور کی
بیداری کا فریضہ سرانجام دیتی ہیں ۔ان ترقی یافتہ ممالک میں معاشی آسودگی
کی وجہ سے قوانین پر عمل پیرا ہونا اور عزت وحرمت کے لیے کام کرنا نسبتاً
آسان ہے۔سویڈن برطانیہ ،ناروئے امریکہ جرمنی یورپ کے دیگر ممالک میں انسانی
حقوق کے علمبردار مرد وخواتین بہت زیادہ فعال ہیں۔ پاکستان میں انصار برنی
کے علاو ہ عابد منٹو ایڈووکیٹ ،فاروق طارق،عاصمہ جہانگیر،جمی انجینئر، حنا
جیلانی، طاہرہ مظہر علی خان، ایس ایم ظفر،آئی ائے رحمان بہت ہی قابل احترام
نام ہیں جن لوگوں نے اپنی زندگیوں کو معاشرئے میں رواداری امن برداشت کے
فروغ کے لیے بہت کوششیں کی ہیں۔فیض احمد فیض جیسے عظیم دانشور بھی اِسی راہ
کے مسافر تھے۔ اگر ہم انسانی حقوق کی پامالی کی بات کرتے ہیں تو یہ بات
انتہائی افسوس ناک ہے کہ ترقی پذیر ممالک یا انتہائی پسماندہ ممالک غربت کی
ایسی چکی میں پس رہے ہیں کہ ان ممالک میں بس غلام ابنِ غلام ہی پیدا ہورہے
ہیں غربت کے منحوس چکر نے ان ممالک کو اِس طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے کہ
پاکستان جیسے ملک میں جو کہ ایک ایٹمی ملک ہے جس کے پاس سمندر ہے پہار ہیں
چاروں موسم ہیں ہیں صرف چند ہزار لوگوں نے اُنیس کروڑ انسانوں کو یر غمال
بنا رکھا ہے ساٹھ فی صد سے زیادہ لوگ خِط غربت سے انتہائی نچلی سطح پر
زندگی بسر کرہے ہیں بے روزگاری، مخفی بے روز گاری نے عوام کا بُرا حال کر
رکھا ہے ان حالات میں پھر انسانی حقوق کی حالت کیسے بہتر ہوسکتی ہے جب غریب
عوام کو بھیڑوں کے ریوڑ کی طرح ہانکا جارہا ہے بنگلہ دیش بھارت برما میں
بھی ایسے ہی حالات ہیں۔ جس طرح کسی دوشیزہ کی خوبصورتی اُسکے لیے وبالِ جان
بن جاتی ہے اِسی طرح پاکستان کی سٹرٹیجک جغرافیائی حالت نے اُس کے وجود کو
ہلا کر رکھ دیا ہے امریکہ ، بھارت اسرائیل ہماری جان کے دُشمن بنے ہوئے ہیں
اوپر سے ستم ظریفی یہ بھی کہ ہمارے ماضی کے حکمرانوں نے بھی ہمیشہ امریکی
غلامی کے طوق کو اپنے گلے کا ہار بنائے رکھنے کو اپنے لیے فخر جانا ہے ۔
پاکستانی معاشرے میں علم کے نور کی کمی نے وڈیروں ، زمینداروں ، سرمایہ
داروں کو عوام دُشمنی کے حوالے کیے رکھا ہے ۔ پاکستانی قوم کی بنیادی
مشکلات میں پولیس کا نظام اور پٹواری کا ظلم شامل ہے۔ راقم کو جب 22A,22B
سی آر پی سی کے تحت سیشن کورٹ میں پیش ہونا پڑتا ہے تو سیشن جج صاحبان کے
احکامات کی حکم عدولی پولیس افسران کا خاصہ ہے۔ سیشن جج صاحبان بے بسی کی
تصویر بنے ہوتے ہیں۔
پولیس کے نظام میں بہت بڑی خرابی سیاسی مداخلت کا ہونا ہے۔ پولیس کا نظام
ہمارے معاشرے میں انصاف کی بالا دستی کے راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔پو لیس
کو دباؤ میں رکھنے کے لیے اتنے گروہ سرگرمِ عمل ہیں کہ پولیس چاہے بھی تو
اِن ذ مہ داریوں کو ادا کرنے سے قاصر ہے ۔جب پولیس نے اپنے فرا ئض کی
ادائیگی پریشر میں کرنی ہے اور جب ہر ایم این اے اور ایم پی اے تھانیدار کو
اپنی انا کے اشاروں پر نچاتا ہے تو امن و امان کیسے قائم رہ سکتا ہے۔ رب
پاک کو حاضر و نا ضر جان کر اگر ہم خود سے یہ سوال کریں کہ کیا کسی شریف
النفس انسان کا موجودہ دور میں اسمبلی کا ممبر بننا ممکن ہے تو اِسکا جواب
منفی میں ہونے کے ساتھ ساتھ ہے یہ بھی ہوگا کہ شریف آدمی نہ تو الیکشن لڑ
سکتا ہے اور نہ ہی جیت سکتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں تھانے اور کچہری کی سیاست
ہوتی ہے۔ کسی کو گرفتار کروادیا کسی کو مروادیا اور کسی کو علاقے سے ہی
غائب کروادیاجنگل کا قانون توپھر بھی کو معانی رکھتا ہے جہاں درندے ، پرندے
ہزاروں سالوں سے بس رہے ہیں۔ ہمارری سوسائٹی میں طاقت کا استعمال ،اقرباپروری
اپنی مثال آپ ہیں۔ یہاں عوامی نمائندے کیسے ہوں گے ؟ جیسا ماحول بن چکا ہے
ادھر تو شرافت، دیانت امانت سب کچھ منافقت میں ڈھل چکا ہے۔98% طبقے کو % 2
نے یرغمال بنا رکھا ہے۔ اِن حا لات میں پولیس امن و امان کیسے قائم رکھے جب
عوامی نمائندے وزیر ،مشیر سرمایہ دار وڈیرے پولیس کو اپنی من مانی کے لیے
استعمال کرتے ہیں۔ گزشتہ سندھ اسمبلی کے ایک ضمنی الیکشن میں حکومتی پارٹی
کی ایک خاتون امیدوار نے پولیس آفیسر کے سامنے خاتون پریزائیڈنگ آفیسر کو
تھپڑ مارے اور ڈی ایس پی باادب ہو کر سارا تماشا دیکھتا رہا۔ یہ ہے وہ
پولیس جس نے عوام کو غنڈوں کی چیرہ دستیوں اور ظلم سے بچانا ہے۔اس میں کوئی
شک نہیں کہ ہمارے معاشرے میں میڈیا کے فعال کردار نے کافی حد تک آگاہی دی
ہے۔ لیکن حز بِ اقتدار ہو یا حزب مخالف، اقتدار میں رہنے کے لیے منشیات
فروشوں اور قبضہ گروپوں کی سرپرستی کرتے ہیں اور یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ
کیونکہ وہ بھاری رقوم خرچ کرکے آئے ہیں اس لیے ہر طریقے سے رقم کماتے ہیں۔
اِن لوگوں نے باقاعدہ غنڈے پال رکھے ہوئے ہیں۔ موجودہ حالات میں وکلاء، سول
سوسائٹی اور عدلیہ ہی امید کی کرن ہیں کہ شائد ہمارہ معاشرہ کبھی گدِھوں سے
نجات حاصل کرسکے۔ تھانے بکتے ہیں ماہانہ بنیادوں پر رقوم اکھٹی ہوتی
ہیں۔کتابوں میں لکھے اخلاقیات اور مذہب کے امن وآشتی کے اسباق کہیں دور
اندھیرے میں دُبکے ہوئے ہیں۔۔ تعلیم ،امن ،صحت، روزگار سماجی انصاف معاشرے
کو امن وآشتی کا گہوارہ بنا سکتے ہیں۔نبی پاکﷺ کا فرمانِ عالیٰ شان ہے کہ
وہ شخص ہم میں سے نہیں جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ
نہیں۔قصور پولیس کا نہیں بلکہ اِس کو کرپٹ کرنے والوں کا ہے جو پولیس کو
دباؤمیں رکھ کر اُس سے ہرناجائز کام کرواتے ہیں جس سے یہ احساس شدت سے
محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے آزادی جیسی نعمت کی قدر نہیں کی اور دورِ غلامی کی
لعنت سے کوئی سبق نہیں سیکھاہمارے رویے ایک قوم ہونے کے ناطے اِس لیے بہتر
نہیں ہو پائے کہ ہمارے حکمران کیونکہ عوام کے ساتھ مخلص نہیں ہیں اور وہ
خود کو قانون کے دائرے میں رکھنے کو اپنی توہین سمجھتے ہیں۔قانون کی
بلادستی کے لیے سب سے زریں اصول یہ ہے کہ قانون سب کے لیے ایک ہو۔ جو قومیں
امیروں اور غریبوں کے درمیان انصاف کی فراہمی کے حوالے سے تفریق کرتی ہیں
وہ تباہ برباد ہوجاتی ہیں پاکستانی سوسائٹی میں امن ومان اور قانون کی
عملداری اُس وقت ممکن ہے جب حکمران اور عوام ایک ہی صف میں کھڑے ہوں۔ہمارئے
معاشرئے میں قانون کی حاکمیت نہ ہونے کہ وجہ سے معاشرہ بُری طرح ٹوٹ پھوٹ
کا شکار ہے۔عوام ظلم برداشت کر کر کے ادھ مُو ہو چکی ہے سب سے پہلے تو وہ
افراد انسانی حقوق کی پامالی کرنا بند کریں جن پر یہ ذمہ داری ہے کہ اُن
پرانسانی حقوق کی بالا دستی کے لیے کام کرنے کی ذمہ داری ہے۔ جیلوں کی صورت
حال، تھانہ کلچر، گھروں میں کام کرنے والے بچے بوڑھے خواتین سب لوگ تو
انسانی حقوق کی پامالی کا شکار ہیں ۔ |
|