بُری نظر

کبھی آپ نے غور کیا ہو تو آپ کو محسوس ہوا ہوگا کہ جب بھی کو ئی لڑکی/عورت گھر سے باہر نکلتی ہے تو اکثر مرد حضرات اُن کو کن نگاہوں سے دیکھتے ہیں ۔کچھ تو ہمارے مہربان بھائی ایسے بھی ہیں جو کہ گھر کے دروازے سے لے کر حد نگاہ تک جہاں تک وہ خاتون نظر آسکتی ہے ،وہ دیکھتے رہتے ہیں اور ساتھ ساتھ میں آہیں بھی بھرتے رہتے ہیں اور اُنکے سراپے کے حوالے سے اپنی رائے کا اظہار کرتے رہتے ہیں ۔اس بات سے قطع نظر کہ وہ ایک اسلامی معاشرے میں ر ہ رہے ہیں اور اُنکو اسلامی تعلیمات کی پاسداری کرنی چاہیے وہ اپنی احساسات و جذبات کی کھلے عام تشہیر کرتے ہیں ،وہ یہ نہیں سوچتے ہیں کہ اُنکی اس طرح کی حرکات سے خاتون کا کردار کس قدر مشکوک ہو سکتا ہے ،وہ اپنی خرفات میں مشغول رہتے ہیں تاوقتیکہ وہ جوابی ردعمل پر کوئی سزا نہ بھگت لیں۔

اچھی صورت بھی کیا بُری شے ہے
جس نے بھی نگاہ ڈالی بُری ڈالی

یہ نہیں ہوتا ہے کہ اگر کوئی خاتون بے حیائی ظاہر کرنے والا لباس پہن کر باہر نکلتی ہے تو ہی کو ئی نوجوان اُنکو تنگ کرنے کے لئے آوازیں کستا ہے،اُس کے پیچھے جا کر پریشان کرتا ہے یا پھر دیدہ دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے رابطہ نمبر کے لئے بات کرتا ہے۔یہاں تو حالت یہاں تک آچکی ہے کہ آکر کوئی برقع میں ملبوس خاتون کسی کالج،اسکول، یونیورسٹی یا پھر بازار کا رخ کرتی ہے تو پھر بھی اُنکو نہیں بخشا جاتا ہے ۔یہاں ایک خاتون کو معذرت کے ساتھ کہوں گا کہ ایسی نظروں سے دیکھا جا تاہے جیسے وہ پردے کے پیچھے چھپی ہستی کا ’’ایکسرے‘‘ کر رہے ہوں۔یہاں اگرچہ کچھ خواتین بھی قصوروار ہیں کہ وہ جب بھی برقع اوڑھ کر نکلتی ہیں تو ایسی ہوتی ہیں کہ ایسے افراد جو ’’مومن ‘‘ ہوں وہ بھی اُنکو ’’تکنے‘‘ لگ جاتے ہیں کہ وہ کچھ ایسے ہی بن سنور کر نکلتی ہیں کہ کچھ نیک لوگ بھی مائل بجانب گناہ ہو جاتے ہیں۔بعض خواتین کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ ہم مردوں کے معاشرے میں رہ رہی ہیں اور ہمیں آزاد ی نہیں دی جاتی ہے مگر جب کچھ گھرانوں کی خواتین کو آزادی دی جاتی ہے تو وہ بھی اپنی من مانی کرنے لگ جاتی ہیں اور جو بسلسلہ ملازمت یا تعلیم کی وجہ سے ہوسٹل میں مقیم ہوتی ہیں پھر وہ صحبت کے اثر ات کے تحت اپنے گھرانوں کی عزت بھی گنوادیتی ہیں۔اکثر ہوسٹلوں سے غائب ہو کر کہ وہ اپنے عزیز کے ساتھ کہیں جا رہی ہیں وہ کہیں پر مرد دوست کے ساتھ وقت گذار رہی ہوتی ہیں۔اب یہ تو کہا نہیں جا سکتا ہے کہ سب کو مرد ہی راغب کرتے ہیں ،بعض ستم گر خود بھی اس معاملہ میں دیدہ دلیری کا مظاہر ہ کرتی ہیں اور اُنہی چند میں سے اپنی عزت کو گنوا کر پھر موت سے ہمکنار ہوتی ہیں۔چونکہ چند گھرانوں میں لڑکیوں کو خاطر خواہ آزادی نہیں دی جاتی ہے تو پھر وہ آزاد ماحول میں رچ بسنے کے چکر میں کہیں دور نکل جاتی ہیں اور پھر اُنکے ہاتھوں میں کچھ بھی نہیں آتا ہے۔

اگر چہ ہر خاتون اپنی طرف سے مکمل طور پر شرعی پردہ کا خیال کرتے ہوئے باہر نکلتی ہے ۔مگر یہاں ہمارے معاشرے کا حال کچھ یوں بنا گیا ہے کہ کوئی دیکھے نہ دیکھے بھئی ہم تو دیکھیں گے ۔اﷲ نے ہمیں دیکھنے کے لئے دی ہیں تو ہم کیو ں نہ دیکھیں۔اگر ایک خاتون مکمل پردے میں ہو جانے کے بعد بھی لوگوں کی نظروں سے بچ نہ سکے تو پھر وہ عور ت جائے تو جائے کہاں؟آپ نجی دفاتر میں کام کرنے والی خواتین کی حالت زار دیکھ لیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ایک اسلامی معاشرے میں کس قدر اُنکو اپنی نوکریاں سلامت رکھنے کیلئے جنسی ہوس کے لئے ہراساں کر کے عزت کو داؤپر لگانا پڑتا ہے اور کڑوی کسیلی باتیں سننی پڑتی ہیں ۔گناہ کی جانب راغب کرنے والی نگاہوں کے نشانے پر بھی ہوتی ہیں ۔اگرچہ سب جگہ پر بری نظر کے لوگ موجود نہیں ہے مگر جہاں کچھ غلط ہے تو وجوہات بھی ہیں۔

بر باد گلستان کرنے کو تو ایک ہی الو ہی کافی تھا
ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجام گلستان کیا ہوگا

سوچنے کی بات یہ ہے کہ جہاں کم عمر نوجوان اس طرح کی مذہوم کاروائیوں میں ملوث ہیں ،وہاں پر عمر رسید ہ حضرات بھی کچھ کم نہیں ہیں وہ بھی اس ’’کارخیر‘‘ میں اپنی استطاعت کے مطابق حصہ ڈالتے ہیں اور جہاں تک دیکھنے میں آیا ہے کہ وہ بھی خواتین کو گھورتے ہیں اور اپنی جنسی ہوس کو کچھ تسکین پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں ۔کہیں پر ایسے ہی بدبخت اپنے ہی لخت جگروں کے ساتھ ہی ایسا گھناؤنا کام کرتے ہیں جو کہ اکثر و بیشتر اخبارات کی بھی زینت بنتا رہتا ہے۔یہ اس وجہ سے ہو رہا ہے کہ ہم اپنی فطری تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے اپنے دین کے احکامات پر عمل نہیں کر رہے ہیں اور نکاح کے عمل سے دوری کی بدولت روز ایسے ایسے واقعات سننے اور دیکھنے کو مل رہے ہیں کہ جیسے ہم انسان جانور وں سے بھی بدتربنے ہوئے ہیں۔

کھل کے گل کچھ تو کچھ بہار اپنی صبا دکھا گئے
حسرت اُن غنچوں پہ جو بن کھلے مرجھا گئے

کچھ بدبخت کم عمر بچوں اور بچیوں کو اپنی جنسی تسکین کا نشانہ بناتے ہیں اور پھر کچھ اپنے گناہ کو ظاہر ہونے سے بچانے کیلئے اُنکو قتل بھی کر دیتے ہیں۔کہیں پر نوجوان لڑکے لڑکیاں اپنی محبت کے چکروں میں اپنی محبت کو جنسی بھوک مٹانے کے لئے استعمال کر رہے ہیں ۔یہ اس لئے ہو رہا ہے کہ ہم لوگ فطری تقاضوں کے پورا کرنے کے لئے رائج طریقہ کار سے رو گردانی کر رہے ہیں۔اب آپ خود دیکھ لیں کہیں پر نوجوان لڑکیاں جہیز نہ ہونے کی بنا پر گھروں میں بیٹھی ہیں اور اگر وہ اپنے فطری تقاضوں کی بنا پر کچھ غلط کر جاتی ہیں تو پھر یہ ہمارے ہی معاشرے کی غلط رسومات ہیں جو کہ نکاح جیسے پاکیزہ تعلقات میں رکاوٹ ہے۔

آپ بتائیں اگر ایک لڑکا او ر لڑکی کی وقت پر شادی نہیں ہوگی تو پھر تو بے را ہروی کا شکار ہو جائے گا۔دوسرا ہماراذرائع ابلاغ بھی ایسے پروگرام نشرکرتا ہے جوکہ نوجوان نسل کا دماغ خراب کر رہا ہے توپھر ایسے ہی واقعات جنم لیں گے جو کہ ہمارے مشاہدے میں آرہی ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں اپنی سوچ کا دائر ہ مثبت رکھنا ہوگا اور اپنے قول فعل کے حوالے سے جوابدہی کے دن کو یاد بھی رکھنا چاہیے اور اپنی فطری تقاضوں کو جائز طریقے سے پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ معاشرے میں برائی کا بڑھتا ہوا رجحان کم ہو سکے۔
Zulfiqar Ali Bukhari
About the Author: Zulfiqar Ali Bukhari Read More Articles by Zulfiqar Ali Bukhari: 394 Articles with 522654 views I'm an original, creative Thinker, Teacher, Writer, Motivator and Human Rights Activist.

I’m only a student of knowledge, NOT a scholar. And I do N
.. View More