کینوس پر چھائی ایسی بے بسی
(عابد محمود عزام, Lahore)
’’میں نے اپنے رب کو اپنے ارادوں کے ٹوٹنے
سے پہچانا‘‘ یہ قول جس کو اپنی زندگی میں با رہا پڑھا اور سنا اور یقینا ہم
میں سے ہر ایک کئی بار اس قول کی عملی تفسیر کا مشاہدہ بھی کرچکا ہوگا۔
کیونکہ ہم سب کی زندگی میں ایسا کتنی ہی بار ہوتا ہے کہ تمام جدوجہدکے
باوجود اپنی خواہش کے مطابق اپنے ارادوں کو پایہ تکمیل تک نہیں پہنچاپاتے۔
اپنی طرف سے ہر قسم کی تدابیرکرنے کے باوجود بری طرح ناکام ہوجاتے ہیں۔
انسان کامیاب ہونے کی ہر ممکن سعی کرتا ہے۔ اپنے تئیں ہر حربہ آزماتا ہے،
ہر حیلہ اختیارکرتا ہے، ہر طریقہ اپناتا ہے اور ہرجانب سے غوروفکرکرتا ہے،
تاکہ ناکامی کا ہر راستہ بند کردیا جائے، جس کے بعد وہ اس گھمنڈ میں مبتلا
ہوجاتا ہے کہ اب ناکامی کسی راستے سے بھی نہیں آسکے گی، لیکن اس کی جدوجہد،
محنت،کوشش، اس کا علم، فہم، عقل، شعوراور تمام ترسعی انسان کو ناکامی کی
گھاٹی میں دھکیل کر دورکھڑی اس کا منہ چڑاتے ہوئے یہ سوچنے پر مجبورکیے
دیتی ہیں کہ انسان اگرچہ بے انتہا ترقی کرگیا، علم و فن میں کمال، عقل
وشعور میں لاجواب ہے، لیکن اتنا بااختیار نہیں کہ قدرت کے فیصلوں کو چیلنج
کرسکے اور اپنی بے بسی کو ختم کرسکے،کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے انسان کو مکمل طور
پر بااختیار نہیں بنایا، ایک حد تک ہی اختیار دیا ہے، انسان کو اسی حدکے
اندر رہتے ہوئے اپنی بھرپورجدوجہد اور محنت کرنی چاہیے اور فیصلہ قدرت
پرچھوڑ دینا چاہیے۔
بے بسی ایسی کیفیت کا نام ہے، جو انسان کے تمام تراختیارکو اسی کے پاؤں تلے
روند دیتی ہے۔ بظاہر انسان بہت طاقتور ہوتا ہے، لیکن بے بسی کی کیفیت طاری
ہونے کے بعد اعصاب پر عجیب ویرانگی وسراسیمگی کا عالم سوارہوجاتا ہے۔ انسان
اپنے حاصل اور لاحاصل میں،اپنی خوشی اور غم میں، اپنے ارادوں اوراپنی
تمناؤں میں اور اپنی تمام حرکات وسکنات میں ایک حد کے بعد عاجزوناتواں اور
بے بس ہوجاتا ہے۔
دنیا میں کسی بھی انسان پر برا وقت آتا ہے تو چاہتا ہے کہ یہ وقت جلدی سے
گزر جائے اور جب اچھا اورخوشی کا موقع آتا ہے تو ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے
کہ یہ وقت یہیں ٹھہر جائے، لیکن انسان اتنا بے بس ہے کہ بے انتہا ترقی کے
باوجود نہ تو برے وقت کو تیزی سے گزار سکتا ہے اور نہ ہی اچھے وقت کو تھام
سکتا ہے، بلکہ وقت اپنی مرضی سے گزرتا ہے۔ دنیا میں ہر انسان کو اپنی اور
اپنے عزیزاقارب کی جان عزیز ہوتی ہے، لیکن انسان کی بے بسی دیکھیے کہ اگر
اس کا کوئی عزیز دنیا سے رخصت ہو جائے تو ساری دنیا کی دولت خرچ کرکے بھی
اپنے گزرجانے والے عزیز کی زندگی کا ایک لمحہ بھی واپس نہیں لاسکتا۔ انسان
تو اتنا بے بس ہے کہ اگر ایک مکھی اسے تنگ کرنے پر آئے تو اس سے جان چھڑانا
مشکل ہوجاتا ہے، اگر اس حقیقت کو سامنے رکھ کر انسان اپنی بے بسی کا ادراک
کر لے اور مان لے کہ انسان مخصوص معاملات میں جزوی اختیار ضرور رکھتا ہے،
مگر کلی طور پراختیار صرف اﷲ تعالیٰ کی قدرت میں ہیں۔ اس سوچ سے انسان
متکبر ہونے سے بچ سکتا ہے اوراگر نادانی سے تکبرکا مرتکب ہوکراپنی عقل،اپنے
علم،اپنے شعور، اپنے مال، اسباب اور اپنی کوششوں کو ہی سب کچھ سمجھنے لگے
تو اﷲ تعالیٰ اس کو اسی کی تدابیر کے سامنے بے بس بنا کر یاد دلاتے ہیں کہ
انسان اتنا بااختیار نہیں کہ اﷲ کے فیصلوں سے آگے بڑھ جائے، خدا کے سامنے
وہ بے بس ہے، جس کے بعد انسان کے پاس اﷲ تعالیٰ کے فیصلوں کے سامنے سرتسلیم
خم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا اور نہ چاہتے ہوئے بھی اسے اس کے
فیصلوں پر مطمئن ہونا پڑتا ہے۔
انسان کی آرزوئیں، شکست آرزو تک، اس کی ساری تگ ودو اس کے اپنے مرقد تک، اس
کا ہر تخیل عروج وخیال اس کے زوال تک اوراس کا حاصل لاحاصل تک ہے۔انسان کسی
سے محبت کرتا ہے۔ اپنے محبوب کو پانے کے لیے ہرطریقہ اختیارکرتا ہے۔ اپنے
محبوب کے ساتھ اچھی زندگی گزارنے کے لیے برسوں بعد تک کے بھی منصوبے بنا
لیتا ہے۔ اپنی تدابیر اختیارکرکے وہ یہی خیال کررہا ہوتا ہے کہ اپنے تمام
منصوبوں کا پایہ تکمیل تک پہنچا لے گا، لیکن قدرت کی تدابیرکے سامنے اس کی
تدابیر نہیں چل سکتیں، قدرت کچھ اورچاہتی ہے اور انسان دورکھڑا اپنی بے بسی
کا تماشا دیکھنے پر مجبور ہوجاتا ہے اور نہ چاہتے ہوئے اسے اس فیصلے کو
قبول کرنا پڑتا ہے۔انسان شہرت اور جائیداد دیگر تمام انسانوں سے زیادہ
کمانا چاہتا ہے۔ اس کے لیے وہ برسوں محنت کرتا ہے اورکرتا چلاجاتا ہے۔ اپنے
مقصد کے حصول کے لیے ہر طریقہ اختیارکرتا ہے اور جائزوناجائزکی تمیزکو بھی
مدنظر نہیں رکھتا، بس اس پر صرف اپنا مقصد حاصل کرنے کی فکر سوارہوتی ہے۔
شہرت کمانے کے لیے غلط راستوں کو انتخاب کرتا ہے، دوسروں کی پگڑیاں اچھالتا
ہے۔ دوسروں پر الزامات لگاتا ہے۔ صحیح اور غلط کی تمیزکے بغیر شہرت حاصل
کرنے کا ہر طریقہ اختیارکرتا ہے۔ جائیداد بڑھانے کے لیے کبھی کسی کا حق
دباتا ہے توکبھی کسی کو حق سے محروم کرتا ہے۔ انسان دنیا کا امیر ترین
انسان بننا چاہتا ہے۔اس کے لیے وہ مال جمع کرتا ہے۔ جوں جوں مال بڑھتا ہے،
مال کی ہوس بھی بڑھتی ہے اور انسان اپنی دولت کو ضرورت سے کم سمجھتا ہے۔
خواہشات کا بے ہنگم پھیلاؤ انسان کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے،وہ اپنے ہی
جال میں پھنس کر رہ جاتا ہے۔ وہ غلط صحیح طریقوں سے بہت کچھ حاصل کر بھی
لیتا ہے، لیکن جو مقصد اپنے ذہن میں متعین کیا ہوتا ہے، وہاں تک نہیں پہنچ
پاتا کہ اس کی زندگی کا کھیل تمام ہوچکا ہوتا ہے اور اس کی بے بسی اس کو یہ
یاد دلا رہی ہوتی ہے کہ ہوتا وہی ہے جو قدرت چاہتی ہے۔ انسان کو ہمیشہ اس
حقیقت کو سامنے رکھنا چاہیے کہ قدرت نے اسے مکمل طور پر بااختیار نہیں
بنایا، جتنا اختیار اسے دیا ہے، اس میں رہتے ہوئے جائز طریقے سے مکمل کوشش
کرے، جدوجہد کرے، محنت کرے اور اس کے بعد جو نتیجہ برآمد ہو اس کو قبول
کرنے کے لیے خودکو تیار بھی رکھے، کیونکہ انسان قدرت کے سامنے بے بس وعاجز
ہے، ہوتا وہی ہے جو قدرت چاہتی ہے۔ انسان اپنے تئیں لاکھ تدبیریں بھی کر
لے، لیکن اس کی تمام کوششیں صرف اس وقت کامیاب ہوسکتی ہیں، جب قدرت اس کی
کوششوں کا کومیاب کرنا چاہیے اور اگر وہ اس کو ناکام کرنا چاہے تو ساری
دنیا مل کر بھی اس کوکامیاب نہیں کرسکتی۔ جب یہ حقیقت ہے کہ انسان کسی چیز
پر قادر نہیں، وہ بے بس وعاجز ہے تو اس کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے
بھرپورجدوجہد تو ضرورکرے، لیکن اگر وہ اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوتا تو
اسے اپنی ناکامی کا غم ہی لے کر نہیں بیٹھ جانا چاہیے، بلکہ قدرت کے فیصلوں
کو خوشی کے ساتھ قبول کرنا چاہیے،کیونکہ اگر انسان خوشی سے قبول نہ بھی کرے
تو بھی نہ چاہتے ہوئے بھی اسے قبول کرنا پڑتا ہے۔
یہ خزائیں، زرد پتے اور اپنی بے بسی
آس ٹوٹی، خواب بکھرے آہ میری بے بسی
زندگی کے رنگ سارے اڑگئے تصویر سے
رفتہ رفتہ کینوس پر چھائی ایسی بے بسی |
|