حقوقِ انسانی ایک خوبصورت عنوان اور
دو لفظوں کی حسین ودلکش تعبیر ہے ،جس کے ذہن ودماغ میں آتے ہی بے شمار
خیالات وتصورات ابھر کر سامنے آجاتے ہیں اور بالفور ذہن اسلام کے اس آفاقی
اور عالم گیر نظام وضابطے کی طرف منتقل ہوجاتا ہے جس نے بلا تفریقِ رنگ
ونسل ،مذہب ومسلک اورذات پات ہر طرح کے حقوق کا یکساں اور مساوانہ قانون
تشکیل دیا۔یہی وجہ ہے کے اسلام کے دامن میں پناہ لینے والے حقوق کے معاملے
میں دنیا کے تمام مذاہب کے مقابلے اسلام کو سب میں بہترواکمل پاتے ہیں۔
گویاں اسلام میں حقوق انسانی پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے،اور کسی بھی طرح
کی کوئی تفریق روا نہیں رکھی گئی ہے۔
اگر حقوق کی بات کی جائے تو ان میں ہر طرح کے حقوق شامل ہیں مثلاََ ازدواجی
حقوق،حقوقِ والدین ،حقوق نسوا،حقوق اطفال اور ان کے علاوہ بھی بہت سے حقوق
ہیں جن کا اسلام میں یکساں اور مساوانہ طورپر تصوراور ذکر ملتاہے۔
یہاں اسلام کے ذریعے دئے گئے انسانی حقوق کو قارئین کے لئے پیش کیا جارہاہے
جن سے معلوم ہوسکے گاکہ اسلام اپنے پیروں کاروں کو تمامہائے شعبہائے حیات
میں مکمل طور پرحقوق فراہم کرتا ہے۔
حق آزادئی مذہب
(Right to freedom of religion)
اسلام نے دیگرمذاہب وادیان اور اپنے ماننے والوں کے لئے خاص طور جو نظام
قائم ورائج کیاہے،وہ ممالک اسلامیہ میں’’ حق آزادئی مذہب ‘‘ہے،جس کا تصور
آج کے جمہوریت پسند اور ترقی یافتہ غیر اسلامی ممالک میں نہیں ملتا۔اسلام
کا یہ ایک ایسا نظام ہے جس نے بلا لحاظ مذہب وملت سب کو یکساں ممالک
اسلامیہ میں سکونت وشہریت اور حقوق وفرائض فراہم کیا ہے۔وہ جس طرح چاہے
اپنے مذہبی معاملات وعبادات اور اقداروروایات کو انجام دے سکتے ہیں،ان پر
اسلام کی جانب سے کسی طرح کی قیدوبند نہیں ہے۔ اس کی ایک واضح مثال مدینۃ
المنورہ ہے کہ جب اﷲ کے پیارے رسول ﷺ مکہ شریف سے ہجرت فرماکر مدینہ منورہ
تشریف لائے تو آپ کی آمد سے وہاں لوگ جوق در جوق دامن اسلام سے وابستہ ہونے
لگے ،یہاں تک کہ مدینہ شریف میں اسلام کا غلبہ وتسلط قائم ہوگیا اب جو
ایمان لائے اور جو ایمان نہ لائے وہ سب مدینۃ الرسول کی خوش گوارفضاؤوں میں
اطمینان وسکون کی سانسیں لے کر زندگی کے شب وروز میں مشغول ہوگئے ،سب کو
یکسا ں حقوق دے دئے گئے ،حالانکہ ان شہریوں میں مسلمانوں کے علاوہ ایک بڑی
تعداد عیسائی ،یہودی اور کفارومشرکین کی بھی تھی ،لیکن اﷲ تعالیٰ نے اپنے
پیارے حبیب ﷺ کو جمیع عالم کے لئے منصف،عادل،حاکم صاف گو اور فلاح امت کا
داعی بناکر اس خاک دان گیتی پر مبعوث فرمایا تھا،یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ آپ
کے نافذ کردہ نظام حکومت میں حقوق کی پامالی اور حق تلفی ہواور انسانوں کے
درمیان سے عدل وانصاف اور حقوق وفرائض کا جنازہ اٹھ جائے ۔
دنیا میں اسلام کا اثر رسوخ قائم ہوئے چودھ صدیاں گزرگئیں،لیکن آج بھی
ممالک اسلامیہ اور مسلمانوں میں اس کا قانون ونظام قائم ودائم ہے ۔ہر شخص
کو اپنی مذہبی آزادی کا حق اور ہر طرح کے مذہبی معاملات کا پورا پورا حق
حاصل ہے وہ اپنے تمام مذہبی امور ومعاملات کو بہتر انداز اور احسن طریقے سے
انجام دے سکتے ہیں۔اس پر کسی طرح کا زورودباؤ نہیں ہے۔
متذکرہ بالا گفتگو محض اسلام کی بابت تھی جس میں ہر دین ومذہب اور مختلف
رنگ ونسل کے لوگوں کو مساوی طور پر حقوق عطا کئے گئے ہیں۔لیکن آج کے خود
ساختہ جمہوریت پسند اور جدید تعلیم وترقی یافتہ ممالک میں جو عوام کے حقوق
کی بازیافت کی بات کرتے ہیں ،ہم دیکھتے ہیں کہ خود ان ممالک میں لوگ ہر آئے
دن شاہراہوں اور سڑکوں پر آکر اپنے مذہبی حقوق کی بازیافت کیلئے لڑائی
لڑرہے ہیں ،بے شمار احتجاجی مظاہرے ہورہے ہیں ،اور مستزاد یہ کہ کھلے لفظوں
میں حکومت کی مخالفت اور مذمت کررہے ہیں،حکومت کے خلاف فلک شگاف نعروں سے
ایوان بالا تک گونج رہا ہے۔ان سب کا صاف مطلب یہ ہے کہ ان ممالک میں جہاں
Right to freedom of religon کا actقائم ہے وہ محض قانون کا ایک حصہ ہے جس
کا عمل سے کچھ بھی تعلق نہیں ہے ۔
لہذامعلوم ہوا کہ ایک اﷲ ورسول ﷺکا بنایا ہواقانون ہے جو غیر متبدل اور
ناقابل ترمیم ہے ۔اور دوسرا انسانوں کا بنایا ہوا ہے جن میں زوال وانحطاط
اور ترمیم وتبدیلی کا آنا یقینی ہے ۔اور اﷲ اوراس کے رسول ﷺ کا ہی ایک ایسا
قانون ہے جس کی جرس پوری دنیا میں سنائی دیتی ہے۔جو اقوام عالم کو یکساں
مذہبی حقوق وفرائض کی جانب آمادہ کرتی ہے۔
والدین کے حقوق
(Rights of parants)
مذہب اسلام نے والدین کو دنیا کی ایک عظیم نعمت قرار دیا ہے ،ان کے
وقاروعظمت اورحقوق وفرائض کا ایک اچھا نظم بنایاہے ۔ اور جہاں والدین کے
حقوق اولاد پر لازم کئے گئے ہیں، وہی والدین پر بھی اولاد کی ذمہ داریاں
عائد کی ہے ،جس سے وہ سبک دوش نہیں ہوسکتے ہیں۔یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ
حقوق والدین کا تصور (concept)دنیا کے تمام چھوٹے بڑے مذاہب سے کہیں زیادہ
اسلام میں یکسر طور پر ملتا ہے۔جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مذاہب اسلام نے
جہاں والدین کے حقوق کی انجام دہی پر بشارت ونوید سنایاہے،وہی حقوق سے
اعراض وانحراف کرنے پر سخت عذاب اور وعید سے بھی باخبر کیا ہے۔
قرآن واحادیث میں جابجا والدین کے ساتھ حسن سلوک،تعظیم وتکریم ،طاعت وخدمت
اور محبت ومؤدت کا درس دیا گیا جو کہ ایک طرح سے اولاد پر والدین کے حقوق
ہیں جنہیں کسی بھی صورت صرفِ نظرنہیں جاسکتا۔چنانچہ قرآن کریم میں والدین
کے ساتھ حسن سلوک کی ترغیب دی گئی ہے:اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے
سوا کسی کو نہ پوجواور ماں پاب کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان
میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اف نہ کہنااور انہیں نہ
جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔(سورہ بنی اسرائیل،آیت ۲۳)اسی طرح
دوسرے مقام پر ہے کہ:اور ہم نے آدمی کواس کے ماں باپ کے بارے میں تاکید
فرمائی ،اس کی ماں نے اسے پیٹ میں رکھا کمزوریپہ کمزوری جھیلتی رہی اور
اسکادودھ چھوٹنا دوبرس میں ہے یہ کہ حق مان میرا اور اپنے ماں باپ کا آخر
میری ہی طرف آنا ہے۔(سورہ لقمان ،آیت ۱۴)اﷲ کے پیارے رسول ﷺ نے بھی مزید
والدین کی اطاعت وفرماں برداری اور حسن سلوک پر زور دیا گیا ہے :’’ایک شخص
نبی کریم علیہ الصلوٰۃ و التسلیم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا! یا رسول اﷲ
ﷺ میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے؟ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا تیری
ماں ۔اس نے پوچھا پھر کون؟نبی اکرم ﷺ نے فرمایا تیری ماں۔اس نے پوچھا پھر
کون؟نبی اکرم ﷺ نے فرمایا تیری ماں۔اس نے پوچھا پھر کون؟نبی اکرم ﷺ نے
فرمایا تیرا باپ۔(بخاری)
حضرت عبداﷲ ابن عمر رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک صحابی بنی کریم ﷺ کی
خدمت بابرکت میں حاضر ہوئے اور آپ سے جہاد میں شرکت کی اجازت چاہی ،آپ نے
ان سے دریافت فرمایا کیا تمہارے ماں باپ زندہ ہیں؟انہوں نے کہا جی ہاں ،آپ
نے فرمایا کہ پھر انہی میں جہاد کرو(یعنی ان کی خدمت کرو ،انہیں خوش رکھنے
کی کوشش کرو)۔(بخاری)
درج بالا آیات واحادیث بتاتی ہیں کہ اسلام میں والدین کے حقوق کا بھرپورپاس
ولحاظرکھا گیا ہے ،اور اولاد پر ان کے حقوق کو لازم قرار دیا گیا ہے ۔اور
حقوق ادا نہ کرنے پر دردناک عزاب کی وعیدیں بھی سنائی گئی ہیں۔
حقوق نسواں
(Rights of women)
اسی طرح انسانی حقوق میں ایک حقوق نسواں بھی ہیں۔یہ بات کسی پر مخفی نہیں
کہ آغاز اسلام سے قبل عورتوں کوبے جاظلم وتشدد اور عدم مساوات کا نشانہ
بنایا جاتا تھاان کے ازدواجی ،معاشرتی ،خانگی اور ہر طرح کے حقوق سلب کرلیے
جاتے تھے ،گویاں انہیں معاشرے میں رہنے کا ،اپنی بات کہنے کا اور ایک آزاد
فضا میں زندگی گزارنے کا کوئی حق حاصل نہ تھا ۔لیکن جب اسلام کا ورود ہوا
تو اس نے عورتوں پر ہر طرح کی ہونے والی حد درجہ زیادتی،حق تلفی اوربے جا
ظلم وتشددپر ْقدغن لگا دیا اور خواتین کو پورے طور پر تحفظ فراہم کیااور ان
کے لئے حقوق کا ایک علاحدہ نظام تشکیل دیا۔اس کے علاوہ اسلام نے عورتوں کو
مروں کے لئے ایک عظیم نعمت بنایا،انسانیت کے بقاودوام کا دارمداربھی انہیں
پرمرکوز رکھا۔یہی نہیں بلکہ انہیں مختلف شکلیں بھی عطا فرمایا۔ عورتوں میں
سب سے بڑی شکل ماں اور پھر بیوی کی ہے ۔عورت کے ایک ماں ہونے کی حیثیت سے
حقوق الگ ہیں ،بیوی ہونے کے اعتبار سے اس سے ہٹ کے ہیں، اسی طرح دادی،نانی
خالہ، پھوپھی اوربہن ہونے کی وجہ سے اس کے حقوق وفرائض الگ الگ ہیں۔انسانوں
میں سب سے زیادہ محنت کش ،متحمل اورصعوبتیں برداشت کرنے والی عورتیں ہی
ہوتی ہیں،اسی لئے اسلام نے ان ہی تمام صعوبتوں ،مشکلوں اور تکلیفوں کو
سامنے رکھتے ہوئے ماں کو سب سے زیادہ حسن سلوک،عزت واحترام اورحقوق وفرائض
کا مستحق قرار دیا ہے جو اسلام کا عورتوں پر ایک عظیم احسان ہے چنانچہ قرآن
کریم میں وارد ہوا :’’ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے
کا حکم دیا ہے ،اس کی ماں نے اسے تکلیف جھیل کر پیٹ میں رکھا اور تکلیف
برداشت کرکے اسے جنا،اس کے حمل اٹھانے کا اور اس کے دودھ چھڑانے کا زمانہ
تیس مہینے کا ہے‘‘۔(سورہ احقاف آیت ۱۵) اسی طرح حجۃ الوداع کا وہ تاریخی
خطبہ بھی عورتوں کے مراتب و مناصب کوکافی اجاگر کرتاہے جس میں اﷲ کے پیارے
رسول ﷺ نے فرمایا:اے لوگو!تم نے ان کو اﷲ کے نام پر حاصل کیاہے ۔اس کے
علاوہ مختلف مواقع پر مردوں کو عورتوں کے ساتھ حسن سلوک،ادائے حقوق،اور
بہتر معاشرت کی ترغیب دلائی۔آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اولاد کے لئے ماں کی
خدمت کا اجر حج و جہاد سے افضل ہے۔یہاں تک فرمایا کہ ان کے قدموں کے نیچے
جنت ہیں۔مذکورہ آیات و احادیث کی روشنی میں یہ معلوم ہوگیا کہ عورتوں کو
کتنا عظیم مقام و مرتبہ تفویض کیا گیا ہے اور اس کے ساتھ کس طرح الفت و
محبت ، اخلاص و مروت اورگھریلوو معاشرتی طور پر پیش آنے کی کی تلقین و
تاکید کی گئی ہے۔
بوڑھوں کے حقوق
(Rights of elders)
اسلام میں سماج ومعاشرے کے بزرگوں کا حددرجہ خیال رکھا گیاہے،ان کے ساتھ
ادب واحترام حسن سلوک اور اچھے برتاؤ کے ساتھ پیش آنے کا حکم دیا گیاہے،اس
لئے کہ عمر رسیدہ افراد معاشرے کے لئے باعث برکت ورحمت اور قابل عزت وتکریم
ہے اگر وہ معذور یا کمزور ہوجائے تو ان کی دیکھ بھال کرنا،انہیں سہارا دینا
، ہر وقت ان کی مدد میں رہنا اور ان کو قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھنایہ
اسلام کی آفاقی تعلیمات میں سے ہے ۔حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’وہ ہم میں
سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی عزت نہ
کرے‘‘۔(ترمذی)اسی طرح کی ایک دوسری حدیث مبارکہ ہے :’’وہ شخص ہم میں سے
نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا اور ہمارے بڑوں کا حق ادا نہیں
کرتا‘‘۔(مسلم)
ایک بوڑھا شخص چاہے اس کا تعلق کسی بھی قوم ووطن سے ہو،کسی بھی مذہب کا
ماننے والا ہو،اس کے ادب واحترام کرنے کا اسلام حکم دیتا ہے۔حضور نبی کریم
ﷺنے فرمایا :’’جب تمہارے پاس کسی قوم کا بڑا آدمی آئے تو تم ان کا اکرام
کرو‘‘۔(طبرانی)
اور ایک مقام پر بوڑھوں کو چھوٹوں پر ترجیح اور فوقیت دیتے ہوئے رسول اﷲ
ﷺنے ارشاد فرمایا: میں نے خواب میں دیکھا کہ مسواک کررہاہوں ،میرے پاس دو
آدمی آئے ،ان میں سے ایک دوسرے سے بڑا تھا ،تو میں نے چھوٹے کو مسواک پیش
کیا،تو مجھ سے کہا گیا،بڑے کو دیجئے،لہذا میں نے وہ مسواک دونوں میں سے جو
بڑا تھا اس کے حوالے کردی‘‘۔(مسلم)
ان تمام احادیث مبارکہ سے یہ اچھی طرح معلوم ہوگیا کہ اسلام میں بوڑھے
حضرات کے حقوق وفرائض ،مراتب ودرجات اوران کا ادب واحترام کس قدر ملحوظ
ہے۔اسلام نے عمر رسیدہ افرادپرکس قدر توجہ دیاہے ،دنیا کے کسی مذہب میں
معمر افراد کے ساتھ اتنی رعایت نہیں برتی گئی ہے ،جتنی کہ اسلام میں برتی
گئی ہے ۔انہیں ہر طرح کے حقوق اور تعظیم وتکریم سے نوازا گیاہے ۔
ہمسائیوں کے حقوق
(Rights of neighborhoods)
اسلام میں ہمسائیوں ،پڑوسیوں اور دوستوں کے حقوق وفرائض کا بھی حددرجہ خیال
رکھاگیاہے۔معاشرہ ان ہی تمام افراد پر مشتمل ہوتاہے ۔اگرآپس میں ان کے حقوق
کا کوئی نظم نہ ہوگاتو معاشرہ فساد وتباہی کا سبب بنے گا۔اسی لئے معاشرے کو
ایک صالح ماحول میں تشکیل دینے کے لئے ہمسائیوں کے حقوق وفرائض کاہونابھی
ضروری ہے۔اسی لئے اسلام میں ہر طرح کے پڑوسیوں کے حقوق کا ایک باضابطہ نظام
قائم ہے ۔قرآن کریم میں چند طرح کے پڑوسیوں کا ذکر ہوا ،چنانچہ ارشاد
اِلٰہی ہے:اور اﷲ کی بندگی کرو اور اس کا شریک کسی کو نہ ٹھراؤ اور ماں باپ
کے ساتھ بھلائی کرواور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پاس کے
ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی اور راہ گیر اور اپنی باندی غلام کے ساتھ بے شک
اﷲ تکبر کرنے والے اور فخر (غرور)کرنے والے کو پسند نہیں کرتا ہے۔
اس آیت کریمہ میں خصوصاً تین طرح کے پڑوسیوں کے حقوق کا ذکر کیا گیا ہے ۔
(۱)وہ ہمسایہ جو سکونت کے لحاط سے قرب رکھتا ہے ،یا ہمسائیگی کے علاوہ اسے
نسب اور دین کے لحاظ سے تمہارے ساتھ قرابت ہے ۔
(۲)وہ ہمسایہ جو بعید ہے یا وہ ہمسایہ جس سے قرابتی تعلق نہیں ۔
(۳)وہ دوست جو کسی اچھے معاملہ کی وجہ سے تعلق رکھتا ہے،مثلاً تعلیم حاصل
کرنا یا کوئی معاملہ ء تصرف اکھٹے کرنا یا ہم صنعت یا ہم سفر ہونا۔
اس تقسیم سے یہ اچھی طرح واضح ہوگیا کہ اسلام نے ہر طرح کے پڑوسیوں کے حقوق
کا انتظام وانصرام کیا ہے۔اس کے متعلق صاحب تفسیر روح البیان شیخ اسماعیل
حقی علیہ الرحمۃ اپنی تفسیر میں اس حوالے سے ایک حدیث پیش کرتے ہیں کہ: اﷲ
کے پیارے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا :مجھے قسم ہے اس ذات کی کہ جس کے قبضہ
قدرت میں میری جان ہے ہمسائیوں کے حقوق صرف وہی ادا کرسکتا ہے جس پر اﷲ
تعالیٰ کا رحم وکرم ہو اور تم میں بہت تھوڑے لوگ ہیں جو ہمسائیوں کے حقوق
جانتے ہیں ۔وہ یہ ہے کہ جس چیز کی انہیں ضرورت ہو اسے پورا کرو۔اگر قرض
چاہتے ہیں تو قرض دو۔اگرانہیں کوئی خوشی حاصل ہو تو مبارک باد پیش کرو۔اگر
کوئی تکلیف لاحق ہو تو اس کا اظہارِ افسوس کرو۔اگر بیمار ہوتو طبع پرسی
کرو۔اگر مرجائیں تو نماز جنازہ پڑھو۔اور دفنانے تک ساتھ رہو۔
معاشرتی حقوق
(Socialized rights)
دیگر حقوق کے ساتھ ساتھ اسلام میں معاشرتی حقوق کو بھی یکساں طور پر رکھا
گیا ہے۔اسلام نے معاشرے کے افراد میں اونچ نیچ ،ذات پات اور رنگ ونسل
کوپورے طورپر ختم کیاہے۔ یہاں تک کہ معاشرے کا ہر فرد اسلام کی نظر میں
برابر ہے چاہے وہ کسی بھی مذہب وعقیدہ،قوم وجنس اوربلاد وامصار سے تعلق
رکھتا ہو۔لیکن اﷲ تعالیٰ کے نزدیک معاشرے کا وہ شخص سب سے زیادہ محبوب
وپسندیدہ ہے جو زہد وتقویٰ،عزت واحترام اور عطمت وبزرگی میں دوسروں پرتفوق
وبرتری رکھتا ہو۔
اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے :اے لوگو!ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا
کیا اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم) کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو
پہچان سکو۔بے شک اﷲ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ
پرہیزگار ہو،بے شک اﷲ جاننے والا خبردارہے۔(سورہ حجرات،آیت۳۳)اس آیت کریمہ
کی توضیح وتفسیر اﷲ کے پیارے رسول ﷺنے اپنے تاریخی خطبہ حجۃ الوداع میں
فرمائی :’’اے لوگو!بلا شبہ تم سب کا رب ایک اور باپ بھی ایک ہے،تم سب آدم
علیہ السلام کی اولاد ہوں۔اور آدم مٹی سے پیدا کئے گئے تھے ۔سن رکھو!کسی
عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ،نہ ہی کسی
گورے کو کالے اور نہ کسی کالے کو گورے پر کوئی فضیلت حاصل ہے۔فضیلت اگر
ہوسکتی ہے تو صرف تقویٰ کی بنیاد پر ہوسکتی ہے۔‘‘اﷲ کے حبیب ﷺ کے اس تاریخی
خطبے سے یہ صاف طور پر ظاہر ہوگیا کہ اسلام میں علاقائیت وعصبیت ،وطنیت
وقومیت اور نسل وجنس کا کچھ بھی عمل دخل نہیں ہے ۔بلکہ اسلام نے روزِ اول
ہی سے اس کے انسداداور خاتمے پر انتہائی طورپرزور دیا ہے ۔ان کے علاوہ اور
بھی دیگر بہت سے حقوق ہیں جو اسلام کے آفاقی اور عالم گیر تعلیمات اور
قانون کا حصہ ہیں ۔آج جب کہ اسلام پر ہر چہار جانب سے حملے ہورہے ہیں اسے
حق تلفی کرنے والا مذہب قرار دیا جارہاہے ،ظلم وتشدد اور عدم مساوات سے
تعبیر کیا جارہاہے، اور بھی اس طرح کے بے جا الزامات عائد کئے جارہے ہیں جن
کا اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے ۔ایسے حالات میں ضرورت ہے کہ اسلام
کی صحیح شبیہ سامنے لائی جائے ۔اس کی تعلیمات وہدایات کوعام کیا جائے اور
جن حقوق وفرائض کا تصور اسلام میں ہے اسے عملی طور پر قوم کے سامنے پیش کیا
جائے ۔یقینا اس طرح کے اقدامات اسلام کے لئے مؤثر اور کارگر ثابت ہوگے۔
(مضمون نگاراردو، عربی اور انگریزی کے ترجمہ نگار ہیں) |