جعلی تیتر بٹیر!
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
ہماری قوم کے بے شمار شوق ہیں، جنہیں
وہ ہر صورت میں پورا کرنے پر تلی رہتی ہے، اُن میں سے ایک اچھا کھانا بھی
ہے۔ کسی شہر یا قصبہ میں کوئی نیا ہوٹل کھلتا ہے تو لذتِ کام ودہن کا شوق
رکھنے والے جوق در جوق پہنچ جاتے ہیں۔ چند ہی روز میں یہ فیصلہ ہو جاتا ہے
کہ یہ ریسٹورنٹ کتنا عرصہ تک چل سکے گا؟ کیونکہ اس کی کارکردگی کا دارومدار
جہاں اس کی عمارت، بیٹھنے کی جگہ، سروس،ماحول وغیرہ پر ہوتا ہے، وہاں سب سے
اہم چیز کھانے کے ذائقہ ہوتا ہے، اگر وہ بہترین ہے تو یار لوگ باقی کمی
کوتاہیوں کو برداشت کر لیتے ہیں ۔ اگر ذائقہ بہترین نہیں تو دیگر سہولتیں
ہوٹل وغیرہ کو ناکام بنانے میں زیادہ عرصہ رکاوٹ نہیں بن سکتیں۔ یہی وجہ ہے
کہ ہر شہر اور قصبے میں کچھ ہوٹلوں نے نام پید ا کر رکھا ہوتا ہے، سالہا
سال سے لوگ وہاں پہنچتے اور کھانے سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ بہت سے کاریگر
مشہور ہو جاتے ہیں۔ زیادہ سرمائے سے کھُلنے والے نئے ہوٹل مالکان کی خواہش
اور کوشش ہوتی ہے کہ وہ شہر کا بہترین کاریگر حاصل کرلے، اگروہ ایسا کرنے
میں کامیاب ہو جائے تو جانئے کہ اس کا ہوٹل چل گیا، کیونکہ ماحول بھی
زبردست ہو اور کاریگر کے ہاتھ میں بھی ذائقہ ہو، گاہک کو اور کیا چاہیے؟
بہترین کاریگر ،ظاہر ہے پکانے والا سامان بھی بہترین ہی خریدتے ہیں، تازہ
گوشت، تازہ سبزیاں ، خود خرید کر پیسے گئے مصالحے اور آخر میں اپنی
’باورچیانہ مہارتیں‘۔ یوں جب ہر چیز ہی بہتر ہوگی تو نتیجہ بھی اچھا ہی
ہوگا۔ اگر کاریگر بہترین ہو، مگر اسے خام مال ذرا کمزور مل جائے تو وہ اپنی
مہارتوں سے کچھ کمی کو پورا کرسکتا ہے۔ یہ کاری گری ہی تو ہے کہ اپنے ہاں
ایک عرصہ تک گدھوں کا گوشت کھلانے کی افواہیں گردش کرتی رہیں، کہیں سے گدھے
کی کھال برآمد ہو گئی تو کہیں سے دیگر باقیات۔ گدھا خوری کی مہم کچھ اس
انداز سے چلی کہ انسان شک میں پڑ گیا کہ آیا جو گوشت بھی وہ کسی اچھے ہوٹل
میں کھا رہا ہے، یہ بکرا ہے یا پھر کوئی مظلوم گدھا؟ یہاں یہ تفریق بھی تھی
کہ ایسا گوشت عموماً بڑے ہوٹلوں پر ہی کھلایا جاتا تھا، کیونکہ بڑے ہوٹلوں
میں سامان زیادہ آتا ہے، اس لئے ہر سامان کی سپلائی دی جاتی ہے، چھوٹے
ہوٹلوں میں باہر سے کچھ گوشت خرید کر پکالیا جاتا ہے۔ چنانچہ یہ گدھے بڑے
ہوٹلوں کے حصے میں ہی آتے رہے۔ یہاں یہ اندازہ لگانا بھی مشکل نہیں کہ کیا
ہوٹل مالک بھی اس راز سے آگاہ ہوتے تھے یا نہیں کہ ان کے ہاں پکنے والا
گوشت بکرے کا ہے یا پھر گدھے کا؟ امکان غالب یہی ہے کہ مالکان کی ملی بھگت
کے بغیر یہ ممکن نہیں کہ کوئی سپلائر اپنے طور پر اتنا بڑا اقدام کر
سکے۔قوم کی گدھوں سے جان شاید اس لئے چھوٹی کہ یہ راز فاش ہو گیا، اور یہ
کہ شاید مارکیٹ میں گدھے ہی کم ہو گئے۔(یہ بھی خوش گمانی ہی ہے کہ اب گدھوں
کا گوشت ہوٹلوں میں نہیں پکایا جاتا)
تازہ خبر آئی ہے کہ ایک جگہ حرام پرندوں کو تیتر بٹیر بنا کر فروخت کرنے
والے گروہ کے دو افراد رنگے ہاتھوں پکڑے گئے۔ بڑی تعداد میں ذبح شدہ حرام
پرندے بھی برآمد کر لئے گئے، ملزمان نے یہ انکشاف بھی کر دیا ہے کہ وہ یہ
کام ایک عرصے سے کر رہے ہیں، یہ وضاحت بھی ساتھ ہی ضروری ہے کہ یہ سپلائی
بھی بڑے ہوٹلوں کو ہی ہو رہی تھی۔ پنجاب میں فوڈ اتھارٹی کام کر رہی ہے،
گزشتہ سال سے اس نے بہت سے معرکے مارے ہیں، بہت دھوم اس کے نام کی مچی ہے
اور ایک دہشت ہے جو ہوٹلوں، بیکریوں اور اسی طرح کے فوڈ آئیٹمز پر پڑی ہے۔
معروف برانڈز کو بھی سیل کردیا گیا، بھاری جرمانے وغیرہ بھی ہوئے، مگر حرام
خوری پر قابو نہیں پایا جاسکا۔ کہا جاسکتا ہے کہ فوڈ اتھارٹی اپنا کام کر
رہی ہے، مگر ہر وقت ہر جگہ پر چھاپے مارنا اداروں کے بس میں بھی نہیں ہوتا،
یقینا تمام ہوٹلوں پر گوشت حکومت سے منظور شدہ طریقے سے ہی فراہم ہونا
چاہیے، مگر جب تک انسان کے اندر انسانیت نہیں آتی اس وقت تک کوئی بیرونی
طاقت اسے بہتر نہیں کرسکتی۔ گدھے کے گوشت کی سپلائی ہو یا حرام پرندوں کو
تیتر بٹیر بنا کے کھلایا جارہا ہو، یہ مکروہ دھندہ کرنے والوں کو اس سطح تک
نہیں گرنا چاہیے۔حکومت کا بھی فرض ہے کہ وہ چیکنگ کے نظام کو مزید بہتر کرے
تاکہ لوگ صحت مند اور حلال چیزیں کھا سکیں۔ |
|