پاکستان میں ہوائی حادثات ذمہ دار کون؟
(Muhammad Tahir Tabasum Durani, )
پاکستان کی تاریخ بے شمار قربانیوں اور
واقعات سے لیس ہے ، جب سے ملک آزاد ہوا ہے ہم ایک قوم نہیں بن سکے ، سنا
تھا قیامت کا دن ہو گا سب کو اپنی اپنی پڑی ہوگی ، بیٹا باپ کو نہیں پہچانے
گا بیوی شوہر کو نہیں پہچانے گی نفسا نفسی کا عالم ہوگا،مگر اگر یقین کی
نظر سے دیکھیں تو ہمارے ملک کا حال اب سے ہی قیامت خیز ہے ۔ہم زندوں کے
ساتھ عداوت تو مروں کو کندھا دینا فرض سمجھتے ہیں، عمرے پے عمرے کیے جا رہے
ہیں مگر اپنے ہی گھر میں غریب بھائی کی مدد کرنے میں اپنی توہین محسوس کرتے
ہیں ، اﷲ جلہ شانہ نے ریا کار ی سے منع فرمایا ہم جب تک پورے محلے کو بتا
نہ دیں نیکی کو نیکی نہیں سمجھتے ، بحثت قوم ہم مردہ ہو چکے ہیں ،قدرتی
آفات و حادثات میں انسان بے بس ہے مگر اﷲ تعالیٰ نے انسان کو عقل سلیم سے
نوازہ ہے اور اپنی حفاظت کے لیئے اس عقل کو استعمال کرنے کو کہا ہے ۔ ہمیں
واقعات بھولنے کی بیماری ہے ہم بہت جذباتی قوم ہیں سزا جزا کا فیصلہ بھی
خود کرنا پسند کرتے ہیں۔
آیئے میں آپکی یاداشت تازہ کرنے میں مدد کرتا ہوں ویسے تو ضرورت نہیں کیوں
کہ انٹر نیٹ کا زمانہ ہے لیکن ہم میں سے بہت سے ایسے افراد ہیں جو پکی
پکائی دیگ کا ہی مزہ لیتے ہیں۔
26مارچ 1965 کو لورائی کے قریب ہوائی حادثے میں تقریباََ 18 کے قریب اموات
ہوئیں۔
پاکستان انٹرنیشنل ائر لائنز(PIA)کا فوکر طیارہ ایف 27 ، 25 اگست 1989ء جس
نے 7.36 منٹس پر اُڑان بھری اور ہمالیہ کی پہاڑیوں میں کھو گیا آخری اطلاع
7.40 پر مو صول ہوئی اس کے بعد آج تک اس طیارے کی آج تک کوئی خبر نہیں ملی
، اس وقت بھی یہی بیان دیے گئے کہ کمیٹی بنا دی گئی ہے اور جلد اس کی رپورٹ
منظر عام پر آ جائی گی اور عوام کے سامنے پیش کر دی جائے گی۔ اس فوکر طیارے
میں 49 لوگ سوار تھے جبکہ کرو سٹاف کے 5 لوگ شامل تھے اس طرح کل 54 لوگ اس
دنیا سے ہمیشہ کے لیئے اپنے پیاروں کو سوگوار چھوڑ کر چلے گئے۔
جنرل ضیا ء الحق جو پاکستان کے فور سٹار آرمی رینک جنرل تھے جو کہ ایک جہاز
حاثہ میں شہید ہوئے جنرل صاحب ایک سرکاری دورے پر بہاولپورسے واپس آ رہے
تھے کہ 17 اگست 1988 کو ملٹری کے طیارے سی 130- نے اُڑان بھرنے کے چند منٹس
بعد ہی تباہی کا شکار ہو گیا اس طیارے میں مقامی اور بیرون ملک سے تعلق
رکھنے والے 31 لوگ اس دنیا فانی سے رخصت ہوئے۔ اس پر بھی تحقیقاتی کمیٹی
بنی اور آج تک طیارے کی فنی خرابی یا دیگر کسی بھی قسم کی کوئی رپورٹ منظر
عام پر نہیں آئی۔
10جولائی 2006 کے د ن کے 12:05 منٹس پرملتان ایئر پورٹ سے پاکستان
انٹرنیشنل ائر لائنز(PIA)کا فوکر طیارہ ایف 27 اکتالیس افراد کو لے کر اپنی
منزل لاہور کی طرف گامزن تھا کہ اُڑان بھرنے کے بعد دونوں انجن بند ہونے کی
وجہ سے حادثہ پیش آیا اور گر کر تباہ ہو گیااس میں 4 ائر کرو سمیت 41 لوگ
لقمہ اجل بنے اس کی بھی تحقیقاتی کمیٹی بنی اور بنی ہی رہ گئی لواحقین کو
صرف صبر کر نے کی تلقین اور حادثے کی جلد رپوت پیش کرنے کی یقین دہانی
کرائی گئی ۔
پاکستان کی تاریخ میں ایک اور رنجیدہ دن جب ائر بلو کا بد قسمت طیارہ ائر
بس اے 321- -231-کراچی سے بے نظیر انٹرنیشنل ائر پور ٹ اسلام آباد کے لیئے
146 مسافر اور 6 ائر کرو کو لے کر روازنہ ہوئی اور اسلام آباد میں داخل
ہوتے ہوئے مارگلہ کے پہاڑوں سے ٹکرا گئی اور مکمل طور پر تباہ ہو گئی اس
میں 152 لوگ اپنی زندگیوں کی بازی ہار گئے ۔ اب کے بار بھی وہی رویہ وہی
بیانات مگر رزلٹ آج کسی کو معلوم نہیں ہو سکا۔
20 اپریل 2012 ایک اور سیا ہ دن جس دن 127 لوگ لقمہ اجل بنے بھوجا ائر کا
بد قسمت طیارہ جناح ائر پورٹ کراچی سے اسلام آباد بے نظیر انٹر نیشنل ائر
پور ٹ کے لیئے 121 مسافروں اور 6 ائر کرو کو لیئے اپنی منزل کے قریب پہنچا
تو بوئنگ (Boeing 737-236A) راولپنڈی کے قریب حسین آباد گاؤں میں گر کر
تباہ ہو گیا اس پر بھی کمیٹی بنی مگر کوئی خاطر خواہ رزلٹ آج تک نہیں ملا۔
7 دسمبر 2016 بروز بدھ شام 4:30 منٹس پر ایک اور خوفنا ک حادثہ پیش آیا جب
پاکستان انٹرنیشنل ائر لائنز(PIA) پی کے661- ، 46 چھیالیس مسافروں کو لے کر
چترال سے اڑا اور اپنی اڑان کے چند منٹس کے بعد اس کے ایک انجن میں آگ لگ
گئی جس کے باعث طیار ہ حادثہ کا شکار ہو گیا اور حادثہ میں مشہور سنگر جو
بعد میں تبلغ کی طرف آگئے جنید جمشید بھائی اپنی اہلیہ کے ہمراہ اسی طیارے
حادثے میں شہید ہو گئے بحث انسان و مسلمان ہم سب تمام حادثات میں شہید ہونے
والوں کے درجات کی بلندی اور بخشش کے لئے دعا گو ہیں۔
مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے ایسے واقعا ت جب بھی رونما ہوتے ہیں اس کے بعد
ایک کمیٹی بنا دی جاتی ہے جو تحقیقات کرتی ہے مگر نتیجہ عوام تک کبھی نہیں
پہنچتا ایسا کیوں؟
ہر حادثے کے بعد ہی سخت ایکشن لیا جائے گا ، مگر پہلے اس کی فٹنس پر
کمپرومائز کیوں؟
سول ایوایشن کی ذ مہ داریاں کیا ہیں ؟
ہر بار ادراے ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کر دیتے ہیں حکومتی اہلکار مذمتی
بیان پر ہی اکفتاہ کرتے ہیں سزا کیوں نہیں ؟
کیا کوئی قانون ہے جو اپنوں کی جدائی پر لواحقین کو انصاف فراہم کرے؟
یا ہم صرف لاشوں کو اٹھانے کا کام کرتے رہیں گے ؟
کبھی تو میرے ملک میں بھی دن ہوگا |
|